ایک آواز بلند ہوگی جس کو صورکہا گیا ہے، چاند، سورج، ستارے، کہکشائیں، پہاڑ، دریا، سمندر، انسان، حیوان، نباتات اور زمین و آسمان سب کچھ تہہ بالا ہو جائیں گے۔ کوئی جاندار اور ذی روح زندہ نہیں رہ جائے گا۔ ہر شے فنا ہوجائے گی۔ پھر وہی صدا جس کو صور کہتے ہیں، ایک مرتبہ پھر گونجے گی، سارے انسان، جن اور فرشتے دوبارہ سے زندہ ہوجائیں گے، ایک مسطح میدان ہوگا جس کا ایک کنارہ دوسرے کنارے تک نہ صرف ہموار ہوگا بلکہ بے کنار بھی ہوگا۔ جب سے دنیا بنی ہے اس وقت سے لیکر وہ دن جب صور پھونکا گیا تھا جتنے بھی انسان پیدا ہوکر ہلاک کر دیئے گئے ہونگے، اس میدان میں جمع کر دیئے جائیں گے۔ سب کے دائیں اور بائیں ہاتھوں میں ان کے اچھے اور برے نامہ اعمال تھما دیئے جائیں گے اور سارے معاملات پھر ان ہی نامہ اعمال کے مطابق ہونگے۔ جو سزا ملے گی وہ عین ان ہی “جے آئی ٹیز” کے مطابق ہوگی اور جو جزا ہوگی اس کی بنیاد بھی وہی “جے آئی ٹیز” ہونگی۔
دنیا کا پتا نہیں لیکن پاکستان کا ہر شہری “جے آئی ٹیز” سے خوب واقف ہے۔ اس کے ممبران کہاں سے منگوائے جاتے ہیں، کتنے ہونے چاہئیں، اس کا فیصلہ کہاں ہوتا ہے، کس کس کو ہونا چاہیے، یہ سب اس فرد کو معلوم نہیں ہوتا جس کے حرکات و سکنات کی تحقیقات مطلوب ہوتی ہیں۔ پھر ان کی رپورٹوں کو انسانوں ہی کی بنائی ہوئی عدالتوں میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ وہاں ان کا از سر نو جائزہ لیا جاتا ہے اور 90 فیصد سے زیادہ پیش کی گئیں یہ جے آئی ٹیز جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ افراد جن کی ساری عزتیں ان کی گرفتاریوں سے لیکر الزامات تک کی ایک طویل فہرست تک، تار تار کردی جاتیں ہیں، جبکہ ان میں سے اکثر حقیقتاً معصوم و بے گناہ ہوتے ہیں، بری تو ہوجاتے ہیں لیکن وہ معاشرے کے ہر فرد، حتیٰ کہ اپنے بیوی بچوں تک کی نظروں میں اتنا ذلیل ہو چکے ہوتے ہیں کہ زندگی کی آخری سانس تک سر اٹھاکر چلنے کے قابل نہیں رہ پاتے۔ دنیا میں جو فرد بھی اپنی چند یا کھربوں سانسیں لے کر آتا ہے اس کے دائیں بائیں دو نہایت دیانتدار، پاکیزہ، صادق اور امین اللہ کے اہلکاروں “منکر” اور “نکیر” کو بٹھا دیا جاتا ہے۔ یہ وہ فرشتے ہیں جو اس کی پوری زندگی کی رپورٹیں تیار کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ میدانِ حشر، جس کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں ان کی مرتب شدہ رپورٹیں ہر فرد کے ہاتھوں میں پکڑادی جائیں گی۔ بائیں والے کی بائیں ہاتھ میں اور دائیں والے کی دائیں ہاتھ میں۔
دنیا میں بھی جس کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا اس کو “مطمئن” کیا جائے۔ مجرم ہونے کی صورت میں بھی اور معصوم ہونے کی صورت میں بھی۔ اس اطمنان ہی کو دراصل عین “انصاف” کہا جاتا ہے۔ ہر فرد جانتا ہے کہ وہ بے قصور ہے یا قصور وار لیکن وہ ہر دوصورت انصاف چاہتا ہے۔ عدالت میں جتنا آزاد ملزم ہوتا ہے اتنا ہی آزاد الزام عائد کرنے والا۔ جہاں دونوں پابند ہوں یا باندھ دیئے جائیں وہاں ظلم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔
میدان حشر سجانے کی ضرورت کیوں؟، کیا زندگی کا ہر سوتے جاگتے لمحوں کا سارا ریکارڈ اس کے ہاتھوں میں تھما دینا کافی نہیں تھا؟۔ کیا اس کے سامنے اس کی پوری حقیقت لے آنا کوئی معمولی بات تھی۔ کیا اسے اس کو پڑھ لینے کی آزادی نہیں تھی۔ کیا اسی کے روئیں روئیں کی گواہی غیر معتبر تھی؟۔ اگر یہ سب کچھ تھا تو پھر حاضری و پیشی کیوں؟۔ نامہ اعمال کے مطابق کسی کو سزا کیلئے مقام سزا اور کسی کو جزا کے مطابق مقامات جزا (جنت دوزخ) میں بنا میدان حشر سجائے، کیوں نہیں بھیج دینا چاہیے تھا؟۔
بات وہیں آکر ختم ہوتی ہے کہ جس پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے اس کیلئے اسے صفائی کا موقع دینا ہی عین انصاف قرار پاتا ہے تاکہ قصوروار ہو یا بے قصور، ہر دو صورت میں وہ یہ نہ کہہ سکے کہ اس کے ساتھ ذرے کا ایک لاکھ واں حصہ بھی ظلم ہوا ہے۔
اب ذرا غور کریں کہ وہ قادر مطلق جس کی قدرت و طاقت کا کوئی اندازہ ہی نہ ہو، جو کہے “بن” تو بن جائے اور جو کہدے “ہلاک” تو تباہ و برباد ہوجائے، وہ تمام انسانوں کے سامنے موجود ہوکر ایک ایک فرد کو درج شدہ گناہوں کی صفائی میں اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا پورا موقع دے رہا ہو تو پھر یہ انصاف کی انتہا ہوئی کہ نہیں۔ بس اسی لئے میدان حشر کسی کیلئے لئے نہیں بلکہ ہر فرد کے اطمنان قلب کیلئے سجایا جائے گا اور جنت میں جانے والے ہوں یا دوزخ میں، کسی کو بھی اس شکایت کا موقع نہیں ملے گا کہ اس کے ساتھ زیادہ مہربانی یا زیادتی کی گئی ہے۔
اس ساری تمہید کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان کی فوجی یا سول عدالتوں میں انصاف “عین انصاف” کہلانے کا مستحق ہے؟۔ عدالتیں تو دور کی بات، کیا ادارے ہر فرد سے منصفانہ سلوک کرتے ہیں؟۔ کیا جن پارٹیوں یا ان کی رہنماؤں پر ادارے سنگین الزامات، جن اخباری نمائندوں کے سامنے یا نشریاتی اداروں پر بیٹھ کر لگاتے ہیں، ان پارٹیوں اور ان کے سربراہوں کو ان ہی اخباری نمائندوں اور نشریاتی اداروں پر بیٹھ کر اپنی صفائی پیش کرنے کی اجازت دے جاتی ہے؟۔
ماضی میں جن جن پارٹیوں، جہادی تنظیموں اور ان کے رہنماؤں کے خلاف جو جو الزامات عائد کئے گئے ہیں، کچھ دیر کیلئے اسے قصہ ماضی سمجھ کر پاکستان کا سب سے سلگتا ہوا اشو “پی ٹی ایم” اور اس کے رہنما منظور پشتین تک اپنی بات کو محدود رکھتے ہوئے اگر یہ پوچھنے کی جسارت کر لی جائے تو کیا اس کا جواب “میدان حشر” کی طرح عین انصاف پر مبنی مل سکے گا؟۔ اس سلسلے میں رواز نامہ جسارت کے اداریہ نے آج (یکم جون کو) بڑی مناسب بات کہی ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ ادارے پیشانی پر کوئی بل ڈالے بنا اس کا جواب ضرور دینا پسند کریں گے۔ اداریہ لکھتا ہے کہ ” پاکستانی سیکورٹی فورسز نے پی ٹی ایم کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو بھی گرفتار کر کے 5 روزہ ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے کر دیا ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین اچانک سینیٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہو گئے اور الزام لگایا کہ ‘کمر خار’ واقعے میں ان کے14 کارکنان مارے گئے ہیں”۔ ادارے کی جانب سے کہا گیا تھا اور کہا جارہا ہے کہ پی ٹی ایم حملہ آور ہوئی ہے، یہ خبر کسی بھی لحاظ سے قابل برداشت نہیں ہو سکتی اس لئے کہ اس قسم کا کوئی بھی حملہ اصل میں ریاست پر حملے کے برابر ہے لیکن اس کے سربراہ کا رد عمل کے طور پر سینٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا معاملے کو قابل تفتیش ضرور بنا رہا ہے۔ اسی لئے اداریہ میں کہا گیا ہے کہ “مسئلہ یہ نہیں ہے کہ منظور پشتین درست کہہ رہے ہیں یا آئی ایس پی آر کے ترجمان، مسئلہ تو یہ ہے کہ قوم کو حقائق کے معاملے میں ابہام کا شکار کیا جا رہا ہے۔ غلط بیانی پی ٹی ایم سربراہ بھی کر سکتے ہیں اور آئی ایس پی آر کے ترجمان بھی، لیکن پارلیمنٹ کے سیکڑوں ارکان کس مرض کی دوا ہیں”۔
جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ خدائے بزرگ و برتر بھی کسی کو سزائیں یک طرفہ دینا پسند نہیں کرتے اور جن جن کو سزائیں ملنی ہیں ان کو پوری پوری مہلت اس بات کی دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ فرد جرم سے مطمئن ہوجائیں، تو یہ آزادی انسان انسان کو دینے کیلئے کیوں تیار نہیں؟۔
ایک پریس بریفنگ میں حامد میر کی جانب سے اٹھائے گئے اسی سوال پر کہ کیا میڈیا اپنے نشریاتی اداروں پر منظور پشتین پر لگائے گئے الزامات کے بارے میں خود ان سے کوئی سوال کر سکتا ہے تو جواب نفی ہی میں ملاتھا۔ یہ سارے ابہامات اسی لئے پیدا ہو رہے ہیں کہ فاطمہ جناح اور شیخ مجیب سے لیکر اب منظور پشتین تک، ادارے کسی کو بھی اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ اس سے ہو یہ رہا ہے کہ عوام میں بے یقینی جنم لے رہی ہے جو نہ تو ادارے کیلئے درست ہے اور نہ ہی ریاست کے حق میں ہے۔ اسی بات کے تسلسل میں اداریہ میں مزید کہا جارہا ہے کہ “یہ بہت حساس معاملہ ہے۔ یہی کچھ بنگلا دیش میں ہوا، کچھ اُدھر سے زیادتی ہوئی کچھ اِدھر سے اور چونکہ سرکاری میڈیا ریاست کے کنٹرول میں ہوتا ہے اس لیے جو چاہا کہہ دیا”۔
ایک جانب میڈیا کو آزاد بھی کہا جاتا ہے اور دوسری جانب اس پر لگائی گئی قدغنیں اسے حقائق کو سامنے لانے سے بھی روکتی ہیں، اس دوہری پالیسی سے باہر آنے کی ضرورت ہے ورنہ اندر ہی اندر گردش کرنے والے جھوٹی سچی خبریں اور افواہیں ریاست کو گھن کی طرح تباہ و برباد بھی کر کے رکھ سکتی ہیں۔