وہی پاکستان ہے، وہی دارالحکومت ہے اور وہی قانون نافذ کرنے والے ادارے لیکن “اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا” کہ کبھی یہ شہر احتجاج کرنے والوں کیلئے باب رحمت بن جاتا ہے اور کبھی احتجاج کرنے والوں پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑتا ہے۔ مجھے 1996 کا وہ سال بھی یاد ہے جب جماعت اسلامی نے پورے دارالحکومت کا گھیراؤ کرکے اسے جزیرہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ جو دارالحکومت سے باہر تھا وہ اندر نہیں آسکتا تھا اور جو اندر تھا وہ باہر نہیں جا سکتا تھا۔ پھر آنے والے دور میں یہ بھی دیکھا گیا کہ اسی دارالحکومت پر براجمان ایک سیاسی حکو مت کے خلاف جماعت اسلامی نے ایک احتجاجی ریلی نکالنا چاہی تو وہ راجہ بازار سے ایک انچ بھی آگے نہ جاسکی۔ ان آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ دو سر پھرے رہنماؤں نے لاہور سے دارالحکومت کی جانب مارچ کیا۔ راستے میں کنٹینروں کے پہاڑ کے پہاڑ کھڑے کئے گئے لیکن مارچ کرنے والوں کے پاس بھی ہر رکاوٹ کو عبور کرنے کا پورا پورا انتظام تھا۔ لفٹر، کرینیں، خاردار تار کاٹنے والے کٹر، ہتھوڑے، چھینیاں اور انسانی بازوؤں کی طاقت۔ بس ایک نعرہ مستانہ بلند ہوتا تھا اور کنٹیروں کے پہاڑ کائی کی طرح چھٹ جایا کرتے تھے۔ اسلام آباد کی وہ عمارتیں جن کے متعلق خود پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کا یہ کہنا تھا کہ ان کی حفاظت ان کی ذمہ داری ہے، وہ ان عمارتوں کی کماحقہ حفاظت کرنے سے قاصر نظر آئیں۔ پولیس محض یا تو پٹنے کیلئے یا تماشہ دیکھنے کیلئے کھڑی کی گئی اس لئے کہ اس کوکسی بھی قسم کے سخت ایکشن لینے کی ممانیت تھی۔ احکامات دینے والوں کے احکامات یہی تھی کہ “سرپھروں” کو کچھ نہ کہا جائے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ کے جنگلے توڑ کر وہاں خیمہ بستیاں آباد کی گئیں۔ ڈی چوک لاکھوں انسانوں کا سنڈاس بنادیا گیا۔ ایوان صدر اور وزیراعظم ہاوس بلوائیوں کی زد میں آئے۔ پاکستان کا اپنا ٹیلیویژن حملوں کی لپیٹ میں آیا اور اس کی نشریات معطل کر دی گئیں۔ کفن پوش سروں سے کفن باندھ کر اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہوئے۔ قبریں کھودی گئیں، پارلیمان کو گالیاں دی گئیں، جمہوریت کو برا بھلا کہا گیا اور کورٹ کی فینسنگ کو غلاظت بھرے کپڑوں سے مزین کر دیا گیا۔ یہ کوئی معمولی نوعیت کا طوفان بد تمیزی نہیں تھا اور یہ طوفان بد تمیزی پورے 126 دن جاری رہا لیکن ہماری پوری انتظامیہ اور اسٹبلشمنٹ اس معاملے میں ایک دن کیلئے بھی حرکت میں نہیں آئی۔ اگر اس نظر سے دیکھا جائے تو یہ سارے ایام پاکستان اور پاکستان میں جمہوریت کیلئے سیاہ ترین دن شمار کئے جائیں گے۔ ایک جانب یہ رویہ اور دوسری جانب اسلام آباد کی جانب جو جو بھی سیاسی پارٹیاں اپنے قانونی حق، احتجاج کیلئے جب جب بھی اسلام آباد کا رخ کرکے بڑھنے کے ارادے سے بڑھیں ان کو یا تو اسلام آباد سے میلوں پہلے روک لیا گیا یا اگر وہ کسی بھی طرح اسلام آباد میں داخل ہی ہو گئیں تو اسے منتشر کرنے کیلئے نہ صرف اسلام آباد کی پوری انتظامیہ حرکت میں آگئی بلکہ ہرطرح کے متشددانہ ہتھکنڈے استعمال کرکے احتجاج کرنے والوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا گیا۔
کل ہی کی بات ہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری کی نیب ہیڈ کوارٹر پیشی کے موقع پر ڈی چوک میدان جنگ بن گیا۔ پولیس نے جیالوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا جبکہ 2خواتین رکن قومی اسمبلی سمیت 40 کا رکنوں کو گرفتار کر لیا۔ ڈی چوک پر پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ اور پولیس افسران کے درمیان بھی جھڑپ کے دوران بزرگ کارکن طاھرہ بادشاہ اور گلنار بادشاہ کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس کی جانب سے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں نوید قمر، شیری رحمن، فرحت اللہ بابر، ہمایوں خان سمیت دیگر رہنماؤں کو بھی ڈی چوک جانے سے روک دیا گیا۔ تاہم پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کی جانب سے آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی، اس دوران پولیس نے آگے آنے والے لوگوں کو دھکے دے کر پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے پو لیس اور جیا لو ں میں ہاتھا پا ئی ہو ئی۔ اس موقع پر پولیس نے میڈیا کے چند نمائندوں سے بھی ہاتھا پائی کی اور انہیں تحویل میں لے لیا گیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو جب چاہے اسلام آباد کو جزیرہ بنا کر رکھ دیتی ہیں اور وہ سیاسی پارٹیاں اور احتجاج کرنے والے گروہِ خواہ وہ آٹے میں نمک سے بھی کم ہوں ان کو اتنا طاقتور بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے جیسے ان کے خلاف اٹھایا جانے والا کوئی بھی سخت قدم پوری ریاست کو ہولناک تباہی سے دوچار کر کے رکھ دیگا۔ پوری انتظامیہ مفلوج کردی جاتی ہے اور طاقتور سے طاقتور ادارے بھی نحیف و ناتوں بن کر رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ کون سے ادارے ہیں جو بڑی سی بڑی سیاسی جماعت اور ان کے لاکھوں افراد کے ہجوم کو گردوغبار ثابت کر کے رکھ دیتے ہیں اور وہ آندھی جو اسلام آباد کی جانب ٹڈی دل کی مانند بڑھتی اور چڑھتی آرہی ہوتی ہے اسے دھول چاٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا معمہ ہے جو شاید ہی کسی کو سمجھ میں آ سکے اور جو اس کا فہم رکھتے ہیں وہ اس بات کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے لب کشائی کی اور قوم کے سامنے حقائق بیان کیئے تو پھر وہ زمین کے نیچے تو ہو سکتے ہیں زمین کے اوپر کسی صورت نہیں رہ سکتے۔
پاکستان ایک طویل عرصے سے اسی دھوپ چھاؤں سے گزر رہا ہے۔ گزشتہ 35 برس کے دوران جو بات سامنے آئی ہے وہ یہی ہے کہ عوام کی طاقت سے قائم ہونے والی حکومت خواہ کتنی ہی اکثریت سے کامیابی حاصل کرلے، وہ ریت کی دیوار سے زیادہ مضبوط نہیں ہو سکتی جبکہ کبھی کبھی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کمزور سے کمزور حکومت بھی بڑی مضبوط حکومت بن کر نہایت کامیابی کے ساتھ اپنے دن گزار نے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ نواز حکومت تمام تر عوام کی بڑی واضح حمایت کے باوجود بھی اپنے پاؤں جما کر حکو مت نہ کر سکی لیکن زرداری حکومت اور خود زرداری نہایت کامیابی کے ساتھ اپنا دورانیہ مکمل کرنے میں کامیاب رہے۔ نواز کا دوسرا دور بھی ریت کی دیوار ثابت ہوا جبکہ ایک حکومت جو صرف اور صرف 6 نشستوں کی بنیاد پر قائم ہے، لگتا ہے جیسے اسمبلی کے سارے ممبران اسی کی پارٹی کے ہیں۔ یہ وہ مقام حیرت ہے جس پر اہل پاکستان تو جتنی بھی حیرت ظاہر کریں وہ کم ہے، دنیا بھی دانتوں میں انگلی دبا کر بیٹھی نظر آتی ہے۔
جب تک پاکستان کی سیاست میں یہ “دھوپ چھاؤں” بر پا رہے گی، یہ سمجھنا کہ پاکستان دنیا کا ایک ابھرتا ہوا ملک بن سکے گا، اپنے آپ کو فریب دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اگر قائم ہونے والی حکومتیں اسی طرح غیر فطری طریقے سے قائم ہوتی رہیں تو اس میں کوئی دو آرا نہیں ہونی چاہئیں کہ دنیا پاکستان کو کبھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھے گی۔ مضبوط اداروں پر مشتمل حکومتیں ہوں یا مضبوط اداروں کی آشیرباد والی حکومتیں، اگر ان کو دنیا میں پزیرائی حاصل ہوتی تو پاکستان اس وقت دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک ہوتا اس لئے کہ پاکستان میں غلبہ انھیں کا رہا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حکومتیں فطری بنائی جائیں اور ایسی حکومتیں جو غیر فطری ہوں، ان کا سلسلہ جتنی بھی جلد ممکن ہو ختم کیا جائے ورنہ انجام کار اچھا نظر نہیں آرہا۔