نفل نماز کے پیچھے فرض نماز ہوجاتی ہے۔۔۔۔
یہ مسئلہ تو شریعت نے سمجھایا تھا ۔۔۔۔!
لیکن یہ کہ ؛
کفریہ امامت میں اسلام ایکسرسائز ہوجاتا ہے۔۔!
شرک کی اقتداء میں توحید قائم رہ سکتی ہے !
باطل کی حاکمیت میں حق (اللہ) کی چل سکتی ہے ۔۔۔۔!!
؟؟؟
عصرِ حاضر کے بعض علماء نے بڑی جان مار کر ، یہ جدید اسلام تشکیل دیا ہے ۔۔۔!!
کعبہ کی طرف منہ نہ ہو تو ، شعائر اللہ ادا نہیں ہوتے ،
البتہ مغرب کی طرف منہ کرکے مسلمانوں کے تمام اجتماعی معاملات و مسائل عین شریعت کے مطابق طے پاسکتے ہیں ۔۔!!
یہ سمجھانے کیلئے قومی و ریاستی علماء کو اسلاف سے کہیں زیادہ جدوجہد کرنا پڑی ہے !
فلاں چیزوں کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، فلاں اشیاء سے نماز باقی نہیں رہتی ، فلاں فلاں باتوں سے حج بےکار جاتا ہے ،
اِس صدی کے کافر کو بھی اِن مسائل کا علم ہوگیا ،
یہ اِس قدر بنیادی اہمیت کے حامل ہوگئے ، اِس قدر زیادہ بیان ہوئے !
لیکن کن چیزوں سے ”ایمان” ٹوٹ جاتا ہے؟
کن باتوں سے مسلمان کا اسلام باقی نہیں رہتا ،۔۔؟
ایک صدی سے یہ بالکل نہیں پڑھایا گیا ۔۔ !
ہم یہ بات بالکل نہیں کہہ رہے کہ ؛
علماء اسلام کے ساتھ مخلص نہیں !
یا یہ کہ ؛ مدارس اسلام سے خالی ہیں !
دنیا میں جتنا اسلام ، جہاں جہاں موجود ہے ، بلاشبہ ہمارے مدارس و علماء ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے ، کائنات میں اسلام کی موجودگی انہی کے سبب سے تو ہے ۔۔۔!؟
لیکن ہم بات کر رہے ہیں اُس اسلام کی ؛
جو نِرا فروعی مسائل کا مجموعہ نہ تھا ۔!!
جو محکوم نہیں حاکم تھا ، جو مغلوب نہیں ، غالب تھا ،
جو کھوکھلا و جعلی نہیں ،۔۔ جاندار و اصلی تھا ،
جو قومی نہیں ،۔۔۔۔ آفاقی و عالمگیر تھا ،
یا ایھاالذین آمنوا ۔۔۔! کتب علیکم الصیام ،
یا ایھا الذین آمنو ،۔۔۔! لاتقربو الصلواۃ وانتم سکاری ،
یا ایھاالذین آمنوا ،۔۔۔۔! آمِنو باللہ ورسولہ ،
والعصر ، ان الانسان لفی خسر ،۔۔ الا الذین آمنوا ،۔۔۔۔۔!
الذین آمنو ،۔۔۔۔! وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ ،
یاایھا الذین آمنو ،۔۔۔۔ صلو علیہ وسلمو تسلیما ،
یوم لا یخزی اللہ النبی والذین آمنوا ،۔۔۔۔!
یا ایھاالذین آمنوا ،۔۔۔۔۔! اوفو بالعقود احلت لکم ۔۔۔۔۔۔۔ ،
یا ایھا الذین آمنوا ،۔۔۔ خذو حذرکم ،۔۔۔۔۔۔۔۔،
یا ایھا الذین آمنوا ،۔۔۔۔ اذا لقیتم فئۃ فاثبتوا ۔۔۔۔۔۔،
یا ایھا الذین آمنوا ،۔۔۔۔۔ قو انفسکم واھلیکم نارا ۔۔۔۔۔۔،
یا ایھا الذین آمنوا ۔۔! اطیعو اللہ و اطیعو الرسول ۔۔،
یا ایھا الذین آمنوا ،۔۔۔! اذا نودی لصلوۃ ۔،
اسی طرح ؛
اِن کنتم تومنون بااللہ ۔۔۔۔۔ ایسی تمام آیات !
آپ اندازہ تو کیجئے !
اللہ تعالی ہر عبادت کے حکم اور انسانی زندگی کے ہر معاملے میں تعلیم دینے سے قبل ،۔۔۔۔۔ ”ایمان والوں” سے مخاطب ہے !
کہ عبادات سے حکمتوں و مقاصد کے حصول اور عبادات کی قبولیت کیلئے شرطِ واحد ”صاحبِ ایمان” ہونا ہے !
یعنی ایمانیات و افکار و تصورات و نظریات و عقائد کی تصحیح و اصلاح و درستی اللہ تعالٰی کا اوّلین و بنیادی حکم و تقاضہ ہے !،!
عبادات تو بہت بعد میں آئیں گی !
انسان پہلے یہ تو سمجھے کہ ؛
وہ اپنی زندگی کیلئے خیر و شر کا علم و فہم ”کہاں سے” لے گا؟
عقل و نفس ، وطن و علاقے ، پارٹی و شخصیات ، سرمائے و مادّے ، رنگ و نسل و ذات پات و زبان ،۔۔۔۔۔
انسان خیر و شر کی تخلیق و تعیین کی اتھارٹی ”مخلوقات میں سے کسی شے کو”’ دے دے !
انسانی زندگی میں معیارِ حق و باطل اور پیمانۂ خیر و شر اگر خدا کے سوا کچھ اور ہوجائے ۔۔۔ تو یہ ”اللہ پر ایمان” نہیں ہوگا ۔۔۔۔ بلکہ ”اُس چیز پر” ایمان کہلائے گا !
مثلاً میں کہتا ہوں کہ ؛
ہر وہ فعل و عمل و حرکت درست ہے ، اُس میں خیر ہے ۔۔۔۔ جو وطن کے مفاد کیلئے بہتر ہو ۔۔۔۔۔ (بھلے وہ اللہ کے حکم اور آسمانی شریعت کے بالکل برخلاف ہو) تو دراصل میرا ایمان ”اللہ” نہیں ،۔۔۔۔ ”وطن” ہے !
اسی طرح میں کہوں کہ ؛
ہر وہ عمل و فعل حق و صحیح ہے ،۔۔۔ جس سے سرمایہ آئے یا سرمائے میں اضافہ و بڑھوتری ہو ۔۔۔۔۔ تو دراصل میرا ایمان ”سرمایہ” ہے ،۔۔۔ ناکہ ”اللہ تعالٰی ۔!!
ایسے ہی میں کہتا ہوں کہ ؛
ہر وہ بات جو عقلی معیارات اور نفس کی منشاء پہ پوری اترے ۔۔۔۔۔ وہ عین درست اور بہتر ہے ،۔۔۔۔ تو میرا ایمان ”میری عقل و نفس” ہے ،۔۔۔ خدا تعالٰی نہیں !
آپ جس بھی شے کو صحیح و غلط ، بھلائ و برائ ، خیر و شر کی تعیین کیلئے اتھارٹی و حیثیت و فوقیت و عظمت و رفعت و مرتبت دیں گے ۔۔۔۔ دراصل وہی چیز آپ کا ایمان ہوگی ،
وہی آپ کا حقیقی الٰہ و معبود کہلائے گی ،!
یہ بات ہے کہ ؛
اللہ تعالٰی سب سے پہلے انسان کے اِس مرض اور اِس مسئلے کو ختم کرنا چاہتا ہے ،
یعنی Metaphysical Position کی درستی و اصلاح !
کیونکہ عمارتیں ”بنیادوں پر” اٹھائ جاتی ہیں ،
انسانی اعمال و افعال ، انسان کے ڈسپلن و نظم و سسٹم اس کے ”ایمان” سے پھُوٹتے ہیں !
پھل بیج کے عین مطابق و تابع ہوتا ہے !
انسان کی حرکات و معمولات اُس کی Metaphysics کا پتہ دیتے ہیں !!
لیکن ہوا یہ کہ ؛
ایمان کی بجائے ظاہری اعمال و افعال پر محنت کی جانے لگی ،!
بیج کی بجائے پھلوں پر توجہ دی جانے لگی !
حالنکہ جیسا پھل چاہئے ہو ، ویسا ہی بیج بونے کی فکر لاحق ہونی چاہئے تھی !
بنیاد درست اور مضبوط کرنے کی بجائے عمارت پر کھپت کی جانے لگی !!
یہ سراسر UnNatural طریقۂ اصلاح تھا !
جسے مدارس و علماء نے ڈیڑھ صدی قبل ، شعوری یا لاشعوری طور پر جیسے بھی اپنایا ۔۔!
نتیجتاً آج اِس مقام پر پہنچ گئے ، کہ ؛
چاند دیکھنے تک کے مسئلے میں بھی ان کی کوئ اتھارٹی تسلیم نہیں ۔۔۔!!
یہ بہت ہی بڑے عالم ہونے کے باجود ”سائنسی منہاج” کے تابع و مطیع ہیں !!
منہاجِ اسلامی رہا ہی نہیں ، اسلامی منہج کسی کو قبول ہی نہیں !
وجہ جانتے ہیں آپ ؟
وجہ یہ ؛
ہم نے سمجھا اور تسلیم کیا کہ ؛
کفریہ امامت میں اسلام ایکسرسائز ہو جاتا ہے ،۔۔!
شرک کی اقتداء میں توحید قائم رہ سکتی ہے !
باطل حاکمیت میں حق کی چل سکتی ہے ۔۔۔۔!!
کسی اور Method کے ہوتے اسلامی منہاجِ علمی اپنایا جاسکتا ہے !!
یعنی ہم نے بدلنا ”باطل امامت” کو تھا ، تبدیل ”جدید حاکمیت” کو کرنا تھا ،۔۔۔۔۔ لیکن ہم اس کی اقتداء و غلامی و محکومیت میں آکر اسلام ایکسرسائز کرنے کی جھوٹی و لاحاصل ، غیر فطری و جعلی سعی کرنے لگے !!
جبکہ اسلام کے ہر چھوٹے بڑے حکم کی تعمیل اور شریعت کی تمام تعلیمات و تفصیلات پر عمل ؛
صرف اُس معاشرے کیلئے ممکن ہے جو ”اسلام کی حاکمیت” میں تشکیل و ترتیب دیا گیا ہو !
ایک چھوٹی سی مثال لیں ؛
آپ رات بھر خدا کی محبت میں سرشار ،۔، عبادت کیلئے جاگتے ہیں ،۔۔، لیکن جدید اسٹرکچر و ڈسپلن آپ کو سخت پابند کرتا ہے کہ صبح سویرے ، ہر صورت ڈیوٹی پر / تعلیم کے حصول و فروغ کیلئے پہنچو !
گویا اِس ریاست کو کوئ سروکار نہیں کہ ؛
آپ کا خدا سے تعلق ختم ہوجائے گا ،۔۔۔۔!
جدید ریاست آپ کو خدا سے جُڑنے ہی نہیں دیتی !
اِسے کوئ ٹینشن نہیں کہ آپ کی آخرت برباد ہوجائے گی !
یہ دوزخ میں دخول ممکن ،۔۔ اور جنت کے حصول کو مشکل سے مشکل ، تر مشکل اور ناممکن بناتی ہے !
خدا کی رضا کے حصول میں باقاعدہ رکاوٹ بن کر کھڑی ہوتی ہے !
یہ صرف ایک مثال ہے !
آپ آدھی سے زیادہ شریعت پر ایک باطل حاکمیت میں عمل پیرا ہوئے چل ہی نہیں سکتے !
آپ اِس مہینے کی بابت غور کرلیں ،۔۔۔
کیا آپ اِس سسٹم میں روزے کی حفاظت کرسکتے ہیں !؟
ٹی وی کے ہوتے ،۔۔۔ سکول ، کالج و یونی کے ماحول میں ،۔؟
پوری ادارتی صف بندی میں عورت ہر وقت بالکل تیار حالت میں آپ کے سامنے رہتی ہے !
اِس کے علاوہ سودی نظام ،۔۔۔ !
روزہ رکھ کر پوری قوم سودی معیشت کے تابع و مطابق رزق حاصل کر رہی ہے !
بلاشبہ ماہِ رمضان المبارک تقوٰی پیدا کرتا ہے !
لیکن ہم نے کبھی سوچا کہ یہ سسٹم و پیراڈائم و ڈسپلن و اسٹرکچر کیا پیدا کرتا ہے ؟
یہ متقیوں کو جنم دیتا ہے ،۔۔۔ یا آزاد و فری لائف جینے والے فاسق و فاجر افراد پیدا کرتا ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ ؛
یہ تو رمضان میں بھی تقوی کی راہ میں پہلے سے زور آور رکاوٹ بن جاتا ہے ،!
ہمیں یہ تو بتایا گیا کہ ؛
اِس مہینے میں بےتحاشہ نیکیاں کمائ جانی چاہئیں ،۔۔۔۔ مگر نیکیوں کو برباد کرنے والے ، صالح راہ میں کانٹا بنے رہنے والے نظاموں کو دفع کرنے کے کوئ فضائل اور اہمیت و حاجیت کبھی نہیں بتائ گئ ۔۔۔۔!
حالانکہ شدید ضرورت بھی ہے !
آخر رمضان المبارک سے کیا سمجھا ہم نے ؟
خدا شیطان کو باندھ دیتا ہے ،۔۔۔۔ لیکن شیطانی نظام کو کون لگام دے گا ؟
کیا یہ ہمارا کرنے کا کام نہیں تھا ۔؟؟
یہ تو خدا نے نیچے اتر کر نہیں کرنا ۔۔۔!
اہم و بنیادی سوال یہ ہے کہ ؛
عبادات و اعمالِ صالحہ سے قبل مطلوب شے (خدا پر صحیح معنوں میں ایمان) کے بغیر عبادات و اعمالِ صالحہ سے تقوی کا حصول ممکن ہے ؟؟
کیا بات ہے کہ ؛
فرمایا؛
من صام رمضاناً ”ایماناً” و احتساباً ۔۔۔۔۔
من قام رمضاناً ”ایماناً” و احتساباً ۔۔۔۔۔
یہاں بھی ایمان پر سارا زور ،۔۔،،
صیام و قیام بذاتِ خود کچھ بھی نہیں !
کیا چیز ہے یہ ایمان ؟
ہماری قرآن کلاس ؛
یا ایھا الذین آمنوا ،۔۔ کتب علیکم الصیام ،۔۔۔۔ لعلکم تتقون” کی تفسیر سے خلاصتاً مذکور باتیں