روز نامہ جسارت میں آج، مورخہ 29 مئی بروز بدھ، شائع ہونے والی خبر کے مطابق قائم مقام امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہاہے کہ “جب وزیراعظم عمران خان نے خود تسلیم کیا ہے کہ قبائلی عوام کے مطالبات اور احتجاج جائز ہے تو انہیں احساس ہوناچاہیے کہ پختون عوام بیرونی دہشت گردی، دہشت گردو ں کے خلاف فوجی آپریشن اور گھروں سے بے گھر ہو کر آئی ڈی پیز کی آزمائش سے گزر چکے ہیں۔ گھروں کو واپسی، انتخابات اور فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد بھی قبائلی عوام کی معاشی، جمہوری، قانونی محرومیاں ختم نہیں ہوئیں اس لیے حالات انتہائی نازک ہیں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مجرمانہ غفلت نے عوام کو خوفناک ردعمل پر خود ہی مجبور کردیاہے۔ حکومت پختون قیادت اور مشران پر مشتمل جرگے کے ذریعے حالات کو کنٹرول کرے اور مسئلے کا حل نکالے۔ لیاقت بلوچ نے کہاکہ ماضی کی حکومتوں سے عوام مایوس ہوئے لیکن تبدیلی سرکار نے شدید مایوس کردیا ہے۔ بے روزگاری سونامی کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ ملکی حالات انتہائی خطرناک ہیں اور حکومت کی نااہلی و بے تدبیری سے مزید بگڑتے جارہے ہیں ۔ مہنگائی، بے روزگاری اور عوام کی قوت خرید کم تر سطح پر آنے کی وجہ سے عوام ابتر حالات سے دوچار ہیں، کسی وقت بھی انارکی کا لاوا پھٹ سکتاہے”۔
اپنے اس بیان میں قائم مقام امیر جماعت اسلامی نے بہت اہم نکات اٹھائے ہیں اور اگر ان پر توجہ نہیں دی گئی تو حالات کوئی بھی خطرناک صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان ہو یا ہمارے شمالی قبائلی علاقے، یہاں امن و امن کی صورت حال اچھی نہیں۔ لوگ نہایت غیر یقینی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اگر محتاط انداز میں کہا جائے تو ان علاقوں میں کسی حد تک بغاوت جیسی کیفیت پائی جاتی ہے۔ جب صورتحال ایسی ہو تو دشمنوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا خوب خوب موقعہ مل جاتا ہے۔ یہ صرف ایک عام انسان کی سوچ ہی نہیں ہے بلکہ ملک کے مقتدر ادارے بھی ان خدشات کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں اور ترجمان پاک فوج نے عید کے بعد ملک دشمن کارروائیوں کے باقئدہ آغاز کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔
ایک جانب ان علاقوں کی امن و امان کی صورت حال ایسی ہے تو دوسری جانب ادروں کی جانب سے اٹھائے جانے والے کچھ اقدامات بھی ایسے ہیں جن سے حالات سدھار کی جانب جانے کی بجائے مزید بگاڑ کی جانب جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کی “پختون تحفظ موومنٹ” (پی ٹی ایم) کا ہر انداز اور ان کے “مشران” کا لب و لہجہ کسی بھی لحاظ سے ایسا نہیں جس سے بغاوت کی بو نہیں آتی ہو لیکن اس کا مطلب ان سے زندگی کا حق چھین لینا بھی بہت مناسب نہیں۔ عوام خواہ جتنا بھی ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں وہ بہر صورت ریاست کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن مسلسل جد و جہد ریاست مخالف قوتوں کو مواقع ضرور مہیا کر دیا کرتی ہے اور اگر بیرونی طاقتیں اس میں ملوث ہوجائیں تو پھر اٹھنے والی آوازوں اور بڑھنے والے قدموں کو روکنا بہے دشوار ہوجاتا ہے۔ جن علاقوں می یہ یورش ہے ان کی سر حدووں کے اس پار جو قوتیں موجود ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے پاکستان دوست نہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ہم کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کریں جس کی وجہ سے ہمیں ملک کے اندر موجود ایسے عناصر جو ملک دشمنوں کا آلہ کار بن سکتے ہوں، ان کو جڑیں پکڑنے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا کو بہت زیادہ سچ دکھانے کی اجازت بھی نہیں ہونی چاہیے لیکن سچ کا مکمل گلا گھونٹنے سے بھی حالات پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ 70 کی دھائی میں اخبارات اور رسائل پر چلنے والی “قینچیوں” سے ہم سقوط ڈھاکہ کو نہیں روک سکے۔ اگر سقوط ڈھاکہ تمام تر سنسر شپ کے باوجود بھی ہوسکتا ہے تو کوئی بھی غیر متوقع بات میڈیا پر پابندیوں کے باوجود بھی (خدانخواستہ) ہو سکتی ہے۔ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ ترجمان پاک فوج کی جانب سے ہونے والے واقعے کے بعد جو جو بھی بیانات اور وضاحتیں سامنے آ رہی ہیں وہ یقیناً غلط نہیں ہونگی لیکن عام لوگوں میں مکمل اعتماد بحال رکھنے کیلئے یہ بات بھی بہت ضروری ہے کہ ان علاقوں کے ہر واقعے کی رپورٹ کیلئے میڈیا کو مکمل آزادی ہونے چاہیے جس کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ وہاں میڈیا کی آزادانہ نقل و حرکت نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے اسی لئے وہ سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے کسی بھی جھوٹ کو سچ ماننے اور کسی بھی سچ کو جھٹلانے پر مجبور ہیں۔
شمالی علاقوں میں ہونے والے حالیہ واقعہ یقیناً کسی حد تک حالات کے بگاڑ کی جانب بڑھتا ہوا محسوس ہوا گا اسی وجہ سے قومی اسمبلی میں بھی اس پر بہت شد و مد کے ساتھ آواز اٹھائی جارہی ہے۔ عوامی نمائندوں کی اس تشویش سے اس بات کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ بعض سخت گیر اقدامات یقیناً ایسے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ریاست مشکل میں پڑجاتی ہے۔ جناب لیاقت بلوچ صاحب دراصل اسی جانب حکومت اور صاحب اختیار افراد کی توجہ دلانا چاہتے ہیں جس کا نچوڑ یہی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک پہلے ہی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور ہماری مغربی سرحدیں کسی حد تک پُر خطر ہیں ہمیں ان سرحدوں کے ساتھ ساتھ رہنے والے قبائلی علاقوں میں رہنے والوں میں مزید بے چینی پیدا کرنے کی بجائے ان کی جائز شکایات کا جلد از جلد ازالہ کرکے انھیں اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ بعید نہیں کہ پاکستان دشمنوں کو اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جائے اور ہم مزید دشواریوں کا شکار ہو جائیں۔
روزنامہ جسارت کا آج کا اداریہ بھی ہمارے لئے لمحہ فکریہ فراہم کر رہا ہے چنانچہ حکومت کو جسارت کے اداریہ میں ظاہر کی گئی تشویش پر بھی فوری غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اداریہ میں کہا گیا ہے کہ “پی ٹی ایم کے قیام میں کئی عوامل کارفرما رہے ہیں۔ قبائلی علاقہ جات میں جاری آپریشنوں کے دوران گیہوں کے ساتھ گھن کو بھی پیس دیا گیا جس کے باعث ان علاقہ جات میں غصے اور جھنجھلاہٹ کی کیفیت ہے۔ اس غصے کو ختم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ آپریشن کے دوران وہاں کے عمائدین کی بے عزتی کی گئی اور انہیں بھی ملزمان کی فہرست میں داخل رکھا گیا جس کے باعث ان علاقوں میں آپریشن کرنے والی قوتوں کے خلاف ناپسندیدگی کی فضا پیدا ہوئی جسے ملک دشمن قوتوں نے کامیابی سے نفرت میں بدل دیا ہے۔ پی ٹی ایم کی باقاعدہ داغ بیل راؤ انوار کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد ڈالی گئی۔ قبائلی علاقہ جات میں آپریشن طالبان کے خلاف کیا گیا جسے ضرورت کے تحت ان ہی ایجنسیوں نے بنایا اور توانا کیا تھا جو آپریشن کررہی تھیں۔ اسی طرح راؤ انوار بھی ان ہی قوتوں کا پسندیدہ مہرہ تھا اور انہوں نے ہی ابھی تک اسے عدالتی کارروائی سے بچا کر رکھا ہوا ہے۔ اس صورتحال سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ خرابی کی جڑ کہاں پر ہے”۔
جناب لیاقت بلوچ ہوں یا مدیر جسارت، دونوں یکساں خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں اور بین السطور وہ مسئلے کا حل بھی بتا رہے ہیں۔ حالات کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اٹھائے گئے اقدامات کا ازسر نو جائزہ لیاجائے اور ان باتوں اور تجاویز پر بھی غور کیا جائے جو لیاقت بلوج، مدیر جسارت یا اسمبلیوں میں موجود عوامی نمائندے پیش کر رہے ہیں۔ عوام اور عوانی نمائندوں کی باتوں سے ہٹ کر جو بھی اقدامات اٹھائے جائیں گے وہ حالات کو سنگین سے سنگین تر تو ضرور بنا سکتے ہیں، خوشگوار نتائج نہیں دے سکتے۔