۔۔۔ متاع کارواں جاتا رہا

آنے والا کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں جا رہا جس میں پریشان کن خبریں نہ مل رہی ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں آج تک کوئی ایک حکومت بھی ایسی نہیں آئی جس کی مدعیت میں عوام کی سہولتوں میں اضافہ اور ان کی مشکلات میں کمی آئی ہو۔ ہر قائم ہونے والی حکومت نے عوام پر مشکلات کی بمباری کے علاوہ کچھ اور کارنامہ کبھی انجام نہیں دیا۔ عوام کی مشکلات میں اضافے در اضافے ہوتے ہی رہے لیکن موجودہ حکومت مسائل میں جس برق رفتاری کے ساتھ اضافہ کر رہی ہے اس کی مثال پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ ہر دور میں مہنگائی عوام کی کمر ضرور توڑتی رہی لیکن اس کی رفتار اتنی سبک رہی کہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ عوام کو ذہنی اور جسمانی لحاظ سے سنبھلنے اور مقابلہ کرنے کا وقت ملتا رہا۔
مہنگائی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اس کے ماضی سے اس کے حال میں اشیا کی وہی ماضی والی قیمتیں ہوں۔ پوری دنیا میں اشیائے صرف و ضروریہ کی قیمتوں کے تیر آسمان کی جانب عمودی پرواز ہی کرتے نظر آئے لیکن عوام پر ان کا بوجھ اس لئے نظر نہیں آیا کہ دنیا کے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک میں روز گار کے مواقع بھی اسی برق رفتاری سے بڑھے۔ نہ صرف ان کی تنخواہوں اور آمدنیوں میں اضافہ ہوا بلکہ ساتھ ہی ساتھ ملازمتوں کے مواقع بھی اس حد تک بڑھ گئے کہ آبادی کم پڑ گئی جس کا واضح ثبوت دنیا کے وہ ممالک جو پسماندہ تھے، ان کے افراد کو بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں ملازمتیں ملیں جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں مہنگائی تو ضرور بڑھتی رہی لیکن جس حساب سے دیگر ترقیاتی کام اور ملک میں ملازمتوں میں مواقعوں اضافہ ہونا چاہیے تھا، وہ ایک آدھ حکومت کے علاوہ کسی دور حکومت میں نظر نہ آسکا جس کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں ہر آنے والے دور میں اضافہ در اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ماضی میں دو بڑی جماعتوں کا “تو چل میں آیا” والا سلسلہ کچھ ایسا چلا کہ لوگ ان کی کارکردگی دیکھ دیکھ کر مایوسی کا شکار ہوتے چلے گئے اور کسی ایسی قیادت، جو ان کی مشکلات میں کمی لاسکے، کو تلاش کرنے لگے۔ ڈوبتے کو کیا چاہیے، ایک تنکے کا سہارا لیکن اگر اس کو کچھ تنکے بانسوں سے بھی بڑے بڑے دعوے کرتے دکھا دے رہے ہوں تو ان کا اس جانب متوجہ ہوجانا ایک ایسا فطری عمل تھا جو کسی بھی مصیبت میں گھرے فرد کو درکار ہوتا ہے۔
موجودہ حکومت نے آنے سے پہلے جو جو دعوے کئے وہ کیونکہ بڑی دلیلوں، شواہد و براہین کے ساتھ تھے اس لئے چاروں جانب سے مصیبت میں گھرے عوام کیلئے ان دعوؤں میں بہت کشش تھی۔ ان کی دلیلوں سے ہر فرد کا اس بات پر قائل ہوجانا کہ ان کے زخموں پر مرہم رکھا جائے گا، ان کی غمگساری ہوگی اور ان کی مشکلات میں بہر لحاظ کمی آئے گی، ایک ایسا فطری عمل تھا جس سے انکار کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ ماضی میں بھی جو حکومتنیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں وہ سب بھی اسی قسم کے دعوؤں اور وعدوں کے ساتھ آتی رہی تھیں لیکن موجودہ حکومت جن دعوؤں اور وعدوں کے ساتھ آئی اس کے پیچھے ایک مدلل منصوبہ بندی صاف نظر آرہی تھی جس سے عوام کو پوری امید تھی کہ اس مرتبہ انھیں ان کی مشکلات سے ضرور آزادی مل جائے گی لیکن جتنی مایوسی موجودہ حکومت سے چند ہی مہینوں میں عوام کو ہوئی اتنی اذیت اور مایوسی ماضی کی حکومتوں سے کبھی بھی عوام کو نہیں ہوئی ہوگی اس لئے کہ دکھائے جانے والے خوابوں کی ساری تعبیریں یک دم الٹ ثابت ہوئیں اور ان کی مشکلات میں نہ صرف ہوشربا اضافہ ہوا بلکہ اچھے مستقبل کی بھی کوئی کرن پھوٹتی دکھائی نہیں دے رہی۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق وفاقی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ “9 ماہ میں بجٹ خسارہ 1922 ارب روپے سے تجاوز کرگیا۔ جولائی تا مارچ کل ا?مدن3583 ارب 73 کروڑاوراخراجات 5506 ارب روپے رہے۔ ٹیکس ا?مدن 3162 ارب رہی۔ دفاع پر774 ارب روپے خرچ کیے گئے”۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق “وزارت خزانہ نے جولائی2018ء سے مارچ 2019ء تک مالیاتی ا?پریشن کے اعدادوشمار جاری کردیے ہیں۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال مارچ تک صوبوں نے 287ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا۔ رواں مالی سال مارچ تک سود کی ادائیگیوں پر 1459 ارب روپے خرچ کیے گئے”۔ دوسری جانب اسٹیٹ بینک کے مطابق “رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ میں غیر ملکی براہ راست سرمائے میں 51 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی ہے۔ رواں مالی سال جولائی تا اپریل، براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری ایک ارب 37 کروڑ 61 لاکھ ڈالر رہی جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے میں 2 ارب 84 کروڑ 91 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ اس طرح رواں برس کے ابتدائی 10 ماہ میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری 51.7 فیصد کم رہی”۔
روپے کی قدر میں جس تیزی سے گراوٹ آ رہی ہے اور ڈالر کی قدر میں جس خوفناک انداز میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اس کو سامنے رکھ کر تو یوں لگ رہا ہے کہ ہم سب کی عمر بھر کی کمائی کاغذ کی ردی سے بھی کم ہو کر رہ جائے گی اور چند کلو اشیائے ضروریہ کیلئے بھی ہمیں بوریوں میں نوٹ بھر کر لیجانے پڑیں گے یا بوریوں میں نوٹ لیکر بازار جائیں گے اور قمیض کی جیبوں میں چیزیں ڈال کر لائیں گے۔
گزشتہ حکومت جب فارغ ہوئی تھی اس وقت تک ڈالر 100 سے نیچے تھا۔ عبوری دور میں 109 روپے پر پہنچا اور اب چند ماہ میں ہی ڈالر 154 روپے تک جا پہنچا۔ ایکسچینج کرنسی ایسوسی ایشن کے مطابق “کاروبار کے اختتام پر اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 3 روپے اضافے سے 154 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ جب کہ انٹر بینک میں ڈالرتاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے اور کاروبار کے اختتام پر 2 روپے 27 پیسے اضافے سے 151.92 روپے پر پہنچ گیا۔ گزشتہ چار کاروباری دنوں میں ڈالر کی قدر میں 10 روپے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کے بعد بیرونی قرضوں میں 1000 ارب روپے کا اضافہ ہوا”۔
ڈالر کی قدر میں اضافے کی ایک وجہ ذخیرہ اندوزی بھی ہے جس کے حوالے سے مفتی تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ “موجودہ حالات میں نفع اور ذخیرہ اندوزی کے مقصد سے ڈالر کی خریداری شرعاً گناہ اور ملک سے بے وفائی ہے”۔
مفتی تقی عثمانی کا ارشاد بے شک اپنی جگہ نہایت درست لیکن مفتی صاحب “سود” پر حاصل کئے گئے قرض کے متعلق کیا ارشاد فرمانہ پسند کریں گے؟۔ موجودہ حکومت والے ہوں یا سابقین، ان سب کی دولت تو باہر کے ملکوں میں ہے جو سب کی سب غیر ملکی کرنسی میں ہے، کیا ان کی ذخیرہ اندوزی “حلال” ہے؟۔
ایک مہم اور بھی چل رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ڈالر جمع کراؤ اور پاکستانی روپیہ خریدو، بے شک بہت ہی مثبت تحریک ہے لیکن کیا یہ ساری تحریکیں ان کیلئے ہیں جن کے پاس زندہ رہنے کیلئے بھی سرمایہ نہیں؟۔ کیا اس پر ہماری وہ “کلاس” جس کے کھربوں روپے بیرون ملک بینکوں میں غیرملکی کرنسی میں پڑے ہیں ان میں سے کسی ایک نے بھی غیر ملکی اکاؤنٹ پر لعنت بھیجتے ہوئے پاکستانی روپیہ خریدنے کا اعلان کیا؟۔
ان سارے حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ بات کہنے میں کو جھجک نہیں کہ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ موجودہ دور حکومت میں کیا ہو رہا ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اب بھی اس حکومت سے خیر کی توقعات باندھے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال پر پر اتنا ہی عرض کیا سکتا ہے کہ
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے ساتھ احساس زیاں جاتا رہا

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں