ایک وقت تھا جب دنیا میں صرف پرنٹ میڈیا کا راج تھا۔ تحریریں اخبارات، رسائل و جرائد وغیرہ کی شکل میں صرف کاغذوں پر چھپا کرتی تھیں جن کی ترسیل زیادہ تر علاقائی یا ملکی سرحدوں تک محدود ہوتی تھی۔ لکھنے والے تعداد میں قلیل اور تعلیم یافتہ ہوتے تھے۔ تحریریں نہایت نَپی تُلی، پُر مغز اور اعلی اخلاقی معیارات کے مطابق ہونے کے باعث قلم کاروں کو معاشرے میں ایک بلند مقام حاصل تھا اور لوگ انہیں مشعلِ راہ کے طور پر دیکھتے تھے۔
اپنی تحریریں عوام الناس تک پہنچانے کیلئے قلم کاروں کے پاس پرنٹ میڈیا کے علاوہ اور کوئی ذریعہ موجود نہ تھا اور چونکہ تحریریں پبلش ہونے سے پہلے کڑی اور غیر جانبدارانہ ادارت سے گزرتی تھیں اس لیے قلم کار تحریروں کو قابلِ اشاعت بنانے کیلیے تحریروں پر خوب محنت بھی کرتے تھے۔
عوام الناس بھی مطالعہ کا شغف رکھتے تھے اور پرنٹ میڈیا کی ہر شکل بہت مقبول تھی۔ علامہ اقبال جیسے عظیم شاعر کو بھی پرنٹ میڈیا کا پلیٹ فارم ہی میسر تھا جس میں علامہ کی تحریریں، مضامین اور شاعری شائع ہوتی رہی اور دھیرے دھیرے انہیں وہ مقام حاصل ہوا جس کے وہ عین مستحق تھے۔
آج کے دور میں الیکٹرانک میڈیا، انٹرنیٹ میڈیا اور سوشل میڈیا واضح طور پر پرنٹ میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ اگر کہا جائے کہ پرنٹ میڈیا بھی کسی حد تک الیکٹرانک، انٹرنیٹ و سوشل میڈیا کا محتاج ہو چکا ہے تو ہرگز غلط نہ ہو گا۔ پرنٹ میڈیا کی ہر شکل (یعنی اخبارات، رسائل، جرائد، میگزین و دیگر) انٹرنیٹ پر اپنی ویب سائٹ بنانے، سوشل میڈیا پر اپنا ایک پیج بنانے اور سمارٹ فون کیلئے ایک ایپ لانچ کرنے پر مجبور ہے تاکہ اپنا مواد پوری دنیا میں موجود زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچا سکیں۔
اس ٹیکنالوجیکل انقلاب کے بعد آن لائن لکھنے کا رواج شروع ہوا تو ہر کسی کو اپنے خیالات لوگوں تک پہنچانے کا آسان ذریعہ مل گیا۔ لوگوں نے ذاتی بلاگ بنا لیے، سوشل میڈیا پر تحریریں بغیر کسی ادارت کے گردش کرنے لگیں اور آن لائن پلیٹ فارمز پر کمزور ادارت کے باعث تحریروں میں کوالٹی اور اخلاقی معیار گرنے لگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حالیہ کچھ عرصے میں بلاگرز کی ایک بڑی کھیپ معرض وجود میں آ گئی اور پھر غیر معیاری بلاگز کا ایک بحرِ بیکراں بہنے لگا۔
دوسری طرف معاشرے نے ایک اور کروٹ لی۔ لوگوں کا تحریریں پڑھنے کی بجائے audio visual content (سمعی و بصری مواد) کی طرف رجحان بڑھنے لگا کیونکہ پانچ منٹ کی ایک دلچسپ ویڈیو دیکھنا ایک ہزار الفاظ والی خشک تحریر پڑھنے سے کہیں آسان ہوتا ہے۔ لہذا یہ مسئلہ دو چند ہو گیا؛ یعنی ایک تو لکھاریوں کی تحریروں میں جان نہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ تحریریں پڑھنے والے قارئین کی تعداد تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔
(نوٹ: نئی نسل میں مطالعہ کی عادت کیسے پیدا کی جائے اور معلومات کے حصول کیلئے audio visual content (سمعی و بصری مواد) تک محدود ہو جانے کے نقصانات پر قلم طرازی پھر سہی)
اب ہر لکھاری کی خواہش ہوتی ہے کہ اسکی تحریر کیسی بھی ہو لیکن شائع کسی مشہور اور بڑے پلیٹ فارم پر ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے پڑھیں۔ چونکہ معتبر پلیٹ فارمز پر آج بھی تحریروں کو اچھی طرح پرکھا جاتا ہے اور صرف معیاری تحریریں ہی شائع کی جاتی ہیں اس لیے اگر تحریر مطلوبہ معیار کے مطابق نہ ہو تو شائع نہیں ہو پاتی جس کے نتیجے میں قلم کار مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اکثر لوگ مجھ سے رابطہ کرتے ہیں اور اس حوالے سے پوچھتے ہیں کہ بڑے پلیٹ فارم پر تحریر کیسے شائع کی جائے۔ جب ان سے مسترد شدہ تحریر منگوا کر پڑھیں تو حیرت گم ہو جاتی ہے کہ لکھاری اس تحریر کے بارے میں کیسے توقع رکھ سکتا ہے کہ یہ شائع ہو جائے گی؟
یوں تو کالم نگاری و مضمون نویسی ایک نہایت پیچیدہ فن ہے لیکن اگر چند بنیادی چیزوں کا خیال رکھا جائے تو ایک جاندار تحریر اور معیاری بلاگ تخلیق کیا جا سکتا ہے جسے رد کرنا ایڈیٹر کیلیے آسان نہ ہو۔ آئیے، نئے لکھاریوں کیلئے انہی باتوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ لکھنے کا مقصد:
لکھنے سے پہلے آپ کو لکھنے کا مقصد واضح ہونا چاہئے کہ آپ کیوں لکھ رہے ہیں۔ لکھنے کے کئی ایک مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن لکھنے کا ارفع ترین مقصد یہ ہے کہ اپنے خیالات، مشاہدات، علم اور تجربے کو الفاظ اور جملوں میں ڈھال کر ایسی تحریر تخلیق کی جائے جس سے قاری کا عمل بہتری کی طرف گامزن ہو۔ اگر تحریر پڑھ کر قاری میں کسی اچھے عمل کی تحریک جنم نہیں لیتی تو یقین کیجیے کہ لکھاری کا لکھنا، ناشر کا شائع کرنا اور قاری کا پڑھنا رائیگاں چلا جائے گا۔ البتہ اگر آپ یہ مقصد سامنے رکھ کر تحریر لکھ رہے ہیں تو لکھنے کے دیگر ادنیٰ مقاصد بطور بائی پراڈکٹ خود بخود حاصل ہو جائیں گے۔
2۔ واضح مرکزی خیال:
بلاگ لکھنے سے پہلے لکھاری کے ذہن میں تحریر کا مرکزی خیال بالکل واضح ہونا چاہیے کہ وہ قاری کو کیا کہنا چاہتا ہے۔ اگر لکھاری اس حوالے سے خود کنفیوژن کا شکار ہے اور بس تحریر نام کی کوئی چیز اپنے قلم سے کسی نہ کسی صورت نکالنا چاہتا ہے تو ایک متاثر کن تحریر ہرگز وجود میں نہیں آ سکتی بلکہ ایسی صورت میں لکھتے وقت وہ مختلف سمتوں میں بھٹکتا پھرے گا اور ضروری نہیں کہ قاری بھی اسکے ساتھ تحریر کے آخر تک بھٹکتا رہے گا۔ مرکزی خیال تحریر کا کعبہ ہوتا ہے جس کے گرد لکھاری نے قاری کا ہاتھ پکڑ کر طواف کروانا ہوتا ہے اور تحریر کی کامیابی یہ ہے کہ قاری کے سوچیں آخر میں اس کعبہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں۔ یہ مقصد ایک مضبوط اور واضح مرکزی خیال کے بغیر حاصل ہونا کسی صورت ممکن نہیں۔
3۔ مرکزی خیال کا ماخذ:
مرکزی خیال کا ماخذ لکھاری کی حساسیت میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ اگر وہ حساس طبع ہے تو دورانِ مطالعہ اور اپنے اردگرد مشاہدہ کے دوران اُسے بیشمار ایسے موضوعات ملیں گے جن پر لکھ کر آگہی دی جا سکتی ہے اور اصلاحِ معاشرہ میں اپنا حصہ ڈالا جا سکتا ہے۔ ایک حساس لکھاری کے پاس مرکزی خیالات کی کمی نہیں ہوتی۔ اسے انسانی چہروں سے موضوعات مل جاتے ہیں، وہ لوگوں کی کہانیوں سے سلگتے ہوئے خیالات کشید کر لیتا ہے، اسے راہ چلتے فٹ پاتھ یا کسی بازار سے کہانیاں مل جاتی ہیں۔ سینے میں درد محسوس کرنے والا دل موجود ہو سہی، موضوعات اور مرکزی خیال لکھاری کی چوکھٹ پر اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔
4۔ مرکزی خیال کا انتخاب:
اگر آپ کے پاس موضوعات کا انبار لگا ہے تو ان میں سے ایک موزوں مرکزی خیال کا انتخاب کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کسی ایسے موضوع کا انتخاب ہرگز نہ کریں جس پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہو اور اس ایشو پر پہلے سے رائے عامہ ہموار ہو چکی ہو۔ انٹرنیٹ پر سرچ کر کے معلوم کریں کہ کسی ایشو پر اب تک کیا لکھا جا چکا ہے۔ پہلے سے گھسے پٹے موضوع کا انتخاب اسی صورت میں کریں اگر اس پر کسی نئی سمت میں بات ہو سکتی ہے ورنہ کوئی ایسا موضوع منتخب کریں جس پر بہت کم بات ہوئی ہو۔ واضح رہے کہ مرکزی خیال کا منفرد ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اسے ٹھوس اور اتنا اہم بھی ہونا چاہیے کہ ایک تحریر اس پر صَرف کی جا سکے۔
5۔ عنوان:
مرکزی خیال کے بعد سب سے اہم چیز بلاگ کا عنوان ہے جو قاری کو دعوتِ مطالعہ دیتا ہے۔ عنوان کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ یہ مختصر ترین الفاظ میں بلاگ کا مرکزی خیال بیان کر دے۔ اگر لکھاری کا تجویز کردہ عنوان مناسب نہ ہو تو عموماً ایڈیٹر اپنے تجربے کی روشنی میں عنوان تبدیل کر دیتا ہے۔ بہترین عنوان وہ ہوتا ہے جیسے دیکھ کر قاری ایک بار بلاگ کو کھول کر پڑھنے کی جستجو ضرور کرے۔
6۔ حرفِ آغاز:
پہلا پیراگراف اچھا ہو تو قاری کے پاؤں میں زنجیر باندھ دیتا ہے جس کے بعد قاری کو ساتھ لے کر چلنا سہل ہو جاتا ہے لہذا تحریر کی ابتدا ایسے الفاظ اور اتنے دلکش اسلوب سے ہونی چاہیے کہ قاری کو عنوان پر کلک کر کے پچھتاوا نہ ہو۔ پہلے پیراگراف کی ترکیب مرکزی خیال سے ہٹ کر بھی ہو سکتی ہے لیکن اسکا بالواسطہ تعلق موضوع سے ضرور ہونا چاہئے۔
7۔ منطقی ترتیب:
دورانِ تحریر خیالات، حالات اور واقعات ایک منطقی ترتیب سے اس طرح پیش کریں کہ ہر پیراگراف سے قاری کی معلومات میں سلسہ وار اضافہ ہو اور وہ اگلے سے اگلا پیراگراف پڑھنے پر مجبور ہوتا چلا جائے۔ بے ڈھنگی ترتیب قاری کو کنفیوز کر دیتی ہے اور وہ بیچ راہ میں دلچسپی کھو دے گا۔ پیش کردہ مواد کی ایک منظم ترتیب ہی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ قاری کیلیے تحریر کے آخر تک دلچسپی برقرار رہے گی۔
8۔ مقصدیت:
تحریر کی مقصدیت دو حصوں پر مشتمل ہے؛ اول یہ کہ قاری کچھ حاصل کر رہا ہے یا نہیں؟ دوم یہ کہ قاری کسی نتیجے پر پہنچ رہا ہے یا نہیں؟ بہترین معلومات فراہم کیجیے تاکہ قاری تحریر سے کچھ حاصل کرے اور معلومات کو اس طرح منظم کریں کہ پیش کردہ معلومات کی بنیاد پر وہ با آسانی کوئی نتیجہ بھی اخذ کر سکے۔ اگر آپ نے معلومات کو تحریر میں کبوتروں کے دانے کی طرح بکھیر دیا تو قاری چند دانے چُگ کر اڑان بھر لے گا۔
9۔ صحتِ مواد:
پیش کردہ معلومات، واقعات یا حوالہ جات میں غلطی نہ صرف قاری پر حد درجہ برا اثر ڈالتی ہے بلکہ لکھاری کے بارے میں غیر زمہ دار اور بد دیانت ہونے کا تاثر بھی پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح ہجے، املاء یا عبارت کی غلطی لکھاری کے کم علم ہونے کی دلیل مانی جاتی ہے لہذا مصدقہ و مستند معلومات کو معیاری جملوں اور درست الفاظ میں بیان کریں۔
10۔ سادگیٔ بیان:
قاری کیلئے حرفِ آغاز سے حرفِ آخر تک تفہیم کا راستہ کیسا ہو گا، یہ لکھاری کے قلم پر منحصر ہے۔ اگر آپ نے اسکے راستے میں ڈکشنری زدہ دقیق الفاظ کے روڑے اٹکا دیے، طویل پیچیدہ جملوں کی سرنگیں بچھا دیں، غیر ضروری شماریاتی ڈیٹا (statistical data) کی بھول بھلیاں تعمیر کر دیں اور اسے الفاظ و مفہوم کی تکرار میں الجھا دیا تو یقین کیجیے کہ آپ کے لکھنے کا مقصد فوت ہو گیا۔ سادہ الفاظ سے بنے ہوئے چھوٹے اور بامعنی جملے استعمال کریں جن سے مفہوم خود بخود چھلکتا جائے۔ اگر آپکا مقصد قاری کو کچھ دینا ہے تو اسے کیش دیجیے یعنی آسانی سے، سادگی سے، فورا، جس حال میں وہ ہے، اسی حال میں اسے دے دیجیے لیکن اگر آپ قاری کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں تو پھر وہ اوپر بیان کردہ رکاوٹوں میں الجھ کر رہ جائے گا اور ضروری نہیں کہ اس کے بعد وہ آپ سے مرعوب بھی ہو، بلکہ اسے آپ سے الرجی بھی ہو سکتی ہے۔
11۔ طوالت و اختصارِ بیان:
تحریر حد سے زیادہ مختصر ہو یا طوالت حد سے بڑھ جائے؛ ہر دو صورتوں میں تاثیر کھو دیتی ہے۔ ایک عام بلاگ کو بارہ سو سے پندرہ سو الفاظ تک محدود ہونا چاہیے لیکن مضمون کی مناسبت سے اس میں اونچ نیچ ہو سکتی ہے۔ بعض موضوعات واقعی طوالت کے متقاضی ہوتے ہیں جس میں قاری کی دلچسپی برقرار رکھنا لکھاری کی مہارت کا امتحان ہوتا ہے لیکن اس سے بھی مشکل کام یہ ہے کہ اُسی مفہوم کو کم الفاظ میں بیان کر دیا جائے جس کیلئے جملوں کی ترکیب بدلنا پڑتی ہے حتی کہ بسااوقات ساری تحریر کا ڈھانچہ ہی بدلنا پڑ سکتا ہے۔ اگر آپ بڑے بڑے مفہوم اختصار سے بیان کرنے میں مہارت حاصل کر لیں تو سمجھ لیں کہ کالم نگاری میں ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔
12۔ حرفِ آخر:
تحریر کا آخری پیراگراف پہلے پیراگراف سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ پہلا پیراگراف تو قاری کو آپ کا بقیہ مضمون پڑھنے کی ترغیب دیتا ہے لیکن آخری پیراگراف سے قاری کو نہ صرف آپ کے اگلے مضمون کا انتظار رہے گا بلکہ یہ قاری کو زیر نظر تحریر سے متعلق فیڈ بیک دینے پر بھی مجبور کر دے گا۔ لہذا آخری پیراگراف میں مرکزی خیال کو پوری طاقت اور نہایت اختصار کے ساتھ اس طرح پیش کریں کہ قاری نہ صرف اپنی سوچ کا دھارا تبدیل کرے بلکہ اس میں اپنی عمل کو ڈھالنے کی تحریک بھی پیدا ہو۔
یاد رکھیں
اگر آپ لکھ سکتے ہیں تو نہ لکھنا کفرانِ نعمت اور معاشرے کی حق تلفی ہے۔ معاشرے کا آپ پر حق ہے کہ خدا کی عطا کردہ صلاحیتوں کو اصلاحِ معاشرہ کیلیے بھرپور طریقے سے بروئے کار لائیں اور یہ حق ادا کرنا خود پر لازم جانیں۔ اگرچہ لکھنے والوں کی کمی نہیں لیکن قدرت نے ہر کسی کو جدا گانہ اور منفرد صلاحتیوں سے نوازا ہے۔ آپ دوسروں سے سیکھیں ضرور لیکن مرعوبیت سے احتراز کریں کیونکہ مرعوبیت انسان کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
کالم نگاری الفاظ، جملوں، خیالات اور معلومات کے فنکارانہ امتزاج کا نام ہے۔ مطالعہ وسیع کریں تاکہ آپ کے پاس الفاظ، خیالات اور معلومات کا بہترین مجموعہ اکٹھا ہو سکے۔ اپنی حساسیت اور قوتِ مشاہدہ سے مضامین کا انتخاب کریں اور لکھتے جائیں۔ جیسے جیسے آپکا اندازِ تحریر پختہ ہوتا جائے گا آپکی تحریروں کو بہتر سے بہتر پلیٹ فارمز پر جگہ ملتی جائے گی۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
آمین