جیسے ہر ملک کا شہری بننے کا ایک طریقہ ہے۔ اس طریقے کو فالو کئے بغیر آپ اسکے شہری نہیں بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ انڈیا کے شہری بننا چاہیں تو آپکو پاکستانی پاسپورٹ سے دستبردار ہونا ہوگا۔ کیوں ہونا ہوگا ؟ کیا آپ انکی طرح انسان نہیں ہیں ؟ کیا آپ ہندوستانیوں کی طرح انسانیت اور قانون کا احترام نہیں کرتے ہیں ؟؟
مگر ان سب کے باوجود دنیا ہندوستان کا حق سمجھتی ہے کہ وہ خود اپنے شہری بنانے یا نہ بنانے کا فیصلہ اپنی مرضی سے کرے۔ اسی طرح تمام ملکوں کا معاملہ ہے۔
جغرافیہ تو عام آدمی کو نظر آجاتا ہے مگر نظریہ نظر نہیں آتا ہے۔ جبکہ نظریہ عقلی لحاظ سے جغرافیہ سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ چین کا کمیونسٹ چین کے دلائی لامّہ کے مقابلے میں پاکستان کے کمیونسٹ سے زیادہ قریب ہے۔ اسی طرح یوروپ کا یہودی یورپ کے عیسائیوں کے مقابلے میں اسرائیل کے یہودیوں سے زیادہ محبت رکھتا ہے۔ یہ ہے نظریئے کی طاقت۔
جسطرح جغرافیہ کے اندر رہنے والوں کا حق ہے کہ اپنے شہری ہونے یا نہ ہونے کا قانون بنائیں اسی طرح ہر نظریئے کا بھی حق ہے کہ کسی شخص یا گروہ کے بارے میں اپنے نظریئے کے اندر ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کریں۔
البتہ انسان کا اجتماعی شعور اور عقل و آگہی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ ان مختلف معاملات میں جو پروسیجر استعمال کیئے جارہے ہیں ان میں سے کون سا پروسیجر انسانی انصاف کے اصولوں کے زیادہ قریب ہے۔
اسلام ہر ایسے شخص کو جو اپنے آپکو مسلمان کہے اسے غیر مسلم قرار دینے کی سخت حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اور کسی مسلم فرد یا گروہ یا ملک یا فرقہ کو یہ اختیار نہیں دیتا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے فرد یا گروہ کو غیر مسلم قرار دے جو خود کو مسلمان کہتا ہو خواہ وہ کھلم کھلا کفر ہی کیوں نہ کر رہا ہو۔
اسلام میں کسی کلمہ گو کو غیر مسلم قرار دینے کا ایک سخت اور فول پروف طریقہ ہے۔ جسکی رو سے ہر ایسے فرد یا گروہ کے بارے میں پوری دنیا کے مسلمان مل کر یہ فیصلہ کریں گے کہ فلاں فلاں سوچ، نظریات رکھنے والے شخص یا گروہ کو غیر مسلم قرار دیا جائے کہ نہیں۔
اور جب دنیا بھر کے مسلمانوں یا انکے نمائندوں کی عظیم اکثریت کسی فرد یا گروہ کے غیر مسلم ہونے کے بابت فیصلہ کرلیتی ہے تو پھر دنیا کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ اسکے خلاف صرف اس لئے باتیں کرے کہ دنیا کے نزدیک نظریے کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے، کیونکہ وہ نظریئے کو بیکار اور جغرافیہ کو اصل سمجھتی ہے جو انسانی فطرت کے اصولوں کے بھی سراسر خلاف ہے۔