رمضان مسلمانوں کی جسمانی و روحانی تربیت کا مہینہ ہے۔ اس مبارک اور مقدس مہینے کا ایک اہم تربیتی پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے مخلص کرے اور یہ اخلاص اس کے دل میں موجود ہو۔
محترم قارئین: ہم درج ذیل سطور میں ان احادیث کا جائزہ لیتے ہیں جو اس پہلو کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہارے ساتھ کوئی جھگڑا کرے تو کہہ دو کہ “میں روزے سے ہوں “۔ ایک مسلمان روزے کی حالت میں اپنے آپ کو اس قدر متواضع بنا لے اور دوسرے انسان کے حق میں ایسا نرم ہو۔
اور حدیث مبارکہ میں یہ ذکر نہیں کہ کوئی مسلمان گالی دے بلکہ فرمایا; فإن شتمه أحد ” اگر اس کو کوئی بھی گالی دے تو وہ کہے : میں روزہ دار ہوں۔ بلکہ بعض روایات میں فرمایا کہ ” اگر اس سے کوئی لڑائی بھی کرے یعنی معاشرے میں رہنے والا ہر فرد صرف اس کی برائی اور زیادتی سے محفوظ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو بھی جواب مسکراہٹ میں ملے گا۔ایک انسانی معاشرے کو ایسا شاندار حسن فراہم کرنے والی عبادت روزہ ہے کہ روزہ رکھنے والا پورا مہینہ اس بات پہ اپنی تربیت کرے کہ زیادتی گالی کا جواب پتھر سے نہیں بلکہ اخلاق کی اعلی اقدار کا مظاہرہ کرکے دیا جائے۔دنیا میں اس کردار سے بڑھ کر اعلی کردار کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن افسوس کہ زندگی کے کئی رمضان گزارنے کے باوجود ہم اس کردار سے عاری اور ہمارا معاشرہ ان اقدار سے محروم نظر آتا ہے۔ دوسری حدیث میں تو روزہ ایک مسلمان کی زندگی کو صداقت و اخلاص کے اعلی معیار پہ لے جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة أن يدع طعامه و شرابه “.
روزہ ایک مسلمان کی زندگی کے قول و فعل میں صداقت و سچائی پیدا کر دیتا ہے اور اگر ایک روزے دار اپنے اقوال یا اعمال میں سچائی کا رنگ پیدا نہیں کرتا تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔کیا ہم اپنے اقوال میں ہمیشہ سچ بولتے ہیں؟
ہم تکلفا کہہ دیتے ہیں کہ نہیں جی مجھے بھوک نہیں میں نے کھانا کھا لیا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہم مشورہ دینے میں بھی بہت زیادہ جھوٹ کا استعمال کر جاتے ہیں۔ بالخصوص دفاتر میں یا آفس میں افسر اور ذمہ دار کو مشورہ دینے کا وقت ہو تو ہم اپنا قیمتی اور خیرخواہی کا مشورہ نہیں بلکہ اس کے مزاج اور اس کی پسند کا خیال کرتے ہوئے اس کی رائے کا موافقت کرتے رہتے ہیں حالانکہ ہم جانتے بوجھتے ہوئے ایسا کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح عدالتوں کے دروازے اور کچہریوں کے ٹیبل گواہوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ہماری گواہی کا اثر کیا ہو گا۔ ہمیں صرف پیسہ کمانے سے غرض ہے۔
اس طرح کی کئی ایک مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ہمیں رمضان کی ابتدا ہی سے اپنے نفس کی تربیت پہ محنت کرنا ہو گی تاکہ رمضان کے آخر میں عبادات میں واضح تبدیلی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں بھی تبدیلی کا واضح اثر ہمارے تعاملات اور سلوک میں موجود ہو۔ رمضان کا مقدس مہینہ حقوق العباد کی ادائیگی پہ ترغیب دیتے ہوئے ہمیں اس بات کا بھی درس دیتا ہے کہ ہم اپنے ارد گرد غرباء اور فقراء مساکین کا مالی تعاون کریں ۔صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں تیز آندھی سے بھی زیادہ رفتار سے سخاوت کرتے تھے۔
تو اس سخاوت سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ بہت زیادہ مال ودولت کی ملکیت کے بعد ہی اس پہ عمل ہو سکتا ہے۔
بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کی حالت تو واضح ہے کہ بہت زیادہ وافر غذا یا مال میسر نہیں تھا ۔ اس کے باوجود جو کچھ موجود ہو اس میں سے اللہ کے رستے میں دیتے رہنا اور اپنے مال کو پاک کرنا اور اللہ کے بندوں کی پریشانی کو خوشی اور مسرت میں بدل دینا رمضان کا شعار ہے۔اسی طرح روزے دار کو افطاری کروانا بھی ایک روزے دار کے اجر کی مقدار کے برابر ہے۔
اس میں بھی اس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ ان لوگوں کو افطاری کروائی جائے جو مستحق ہیں۔ اس طرح رمضان کے مقدس مہینے میں ہم لوگوں کی بھوک دور کر کے اس معاشرے میں عدل اور اخوت کا ایک خوبصورت منظر پیش کر سکتے ہیں ۔ یہ مہینہ حقوق اللہ میں مسابقت اور حقوق العباد کی ادائیگی میں اپنی کمی و کوتاہی کو دور کرنے کا ایک سنہری موقع ہے۔