ہم لوگ ابھی زندہ و بیدار کھڑے ہیں

سو جاؤ عزیزو کہ فصیلوں پہ ہر اک سمت
ہم لوگ ابھی زندہ و بیدار کھڑے ہیں
کہ شہر کے باسی کو گردشِ لیل ونہار میں کیا معلوم کہ جون میں بھی سیڈل پوسٹ (سیاچن) برف سے ڈھکی ہوتی ہے۔ جب برفانی طوفان (بلیزرز) طیش پہ مائل ہوں تو اگلو (دھات کے بنے گول فوجی بنکر) تک کو اپنے نیچے نگل لیتے ہیں۔ جاڑے میں آمدورفت اور مواصلات منجمد ہو جاتے ہیں۔ جہاں پانی پینے سے پہلے پانی بنانا ضروری ہے۔ سو برف پگھلائی جاتی ہے۔ وہاں ہفتوں سورج اپنا چہرہ نہیں دکھاتا۔ ہر جانب کریوس (گہری، اندھی اور اندھیری کھائی) منہ کھولے ہانپ رہی ہے۔اہل خانہ سے تو کیا، موسمی حالات مہینوں اپنے بیس کیمپ سے قطع تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ پھر بھی تنومندی سے وہاں ڈٹے بیٹھے ہیں۔ میرے لیے! تمہارے لیے! کسی کو کیا معلوم کہ شمالی وزیرستان یا بلوچستان میں جب آئی-ای-ڈی (خودکار دھماکہ خیز مواد، جو کہ دہشتگرد مسلح افواج کے خلاف استعمال کرتے ہیں) دھاڑتی ہے تو بارودی اجسام کتنے ٹکروں میں تقسیم ہو کر ادھر اُدھر بکھرتے ہیں۔ جب باقی ساتھی ان ٹکڑوں کو چنتے ہیں، تو ان پہ کیا بیتتی ہے؟ جی! میرے لیے، تمہارے لیے۔یہ پھڑپھڑاتا ہیلی کاپٹر دیکھنے میں کتنا رومانوی لگتا ہے۔ لیکن جب کبھی اپنے ہی مدار میں تین سو ساٹھ کے زاویے پہ گھومتا ہوا زمین کا بوسہ لے لے تو خود سمیت اپنے سواروں کو بھون ڈالتا ہے۔ وہ برق رفتار ٹینک گر راکٹ لانچر کا نشانہ بن جائے تو اپنے اندر ایک آتشیں بھٹی سجا لیتا ہے۔ کچھ لوگ راضی با رضا جلتے ہیں۔ میرے لیے! تمہارے لیے! سپاہی مقبول چالیس سال دشمن کی قید و بند میں خود کو فراموش کر کے فقط اک لوتھڑا رہ جاتا ہے۔ لانس نائیک محفوظ دشمن کی مشین گن کے مورچے میں سامنے سے ہاتھ ڈالتا ہے۔ سپاہی تو سپاہی، ہمارے دلارے افسران جس ولولے سے انکی صفوں کی قیادت فرماتے ہیں، کیا کہنے! راشد طیارہ دشمن کی سر زمین میں داخل نہیں ہونے دیتا۔ شبیر صبونہ میں جھنڈا گاڑتا ہے۔ عزیز عدو کو بی آر بی پار کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ماضی کی امثال سے قطع نظر، آج کل ہی اسلام آباد کے رنگا رنگ ماحول میں پلنے والا کیپٹن تنویر ضرب عضب میں اپنی ٹانگ کٹوا دیتا ہے۔ ایسا خوبصورت جوان کہ شاید اس حالت میں بھی مردوں کے مابین مقابلہ حسن جیت لے۔ ایبٹ آباد کے مشہور ترین معالج ڈاکٹر ربانی کا صاحبزادہ کیپٹن آکاش عین نوجوانی میں جان نچھاور کرتا ہے۔ ارے ان کے کاندھوں پہ تو افسری کے ستارے جگمگا رہے تھے۔ ٹھاٹھ باٹھ الگ تھے۔ تعلق بھی مضبوط اور کھاتے پیتے گھرانوں سے تھا۔ پھر کیوں! آخر کیوں؟ میرے لیے، تمہارے لیے۔خیر شہداء تو ہزاروں ہیں۔ سینکڑوں گمنام بھی ہیں۔ لاکھوں غازی اب بھی ہمہ تن تیار باش ہیں۔ ہماری کیا اوقات کہ سرحدوں کے محافظین کو خراج عقیدت ہی پیش کر پائیں۔ ہم دل و جان فرش راہ رکھ کے ان جیالوں کو اک ادنیٰ سلیوٹ پیش کرتے ہیں۔اللّہ! ان کا حامی و ناصر ہو! آمین!

حصہ

جواب چھوڑ دیں