ماہ صیام میں دعاؤں کا اہتمام

اللہ پاک اپنے بندوں کی بخشش کے سارے دروازے رمضان المبارک میں کھول دیتے ہیں۔ یہ انسان ہی ہے جو شہ رگ سے بھی قریب اپنے پر وردگار سے دور بھاگتا ہے اور اس سے نہ مانگنے کی عادت اپنا لیتا ہے۔ اللہ پاک کو ندامت کے آنسو بہت پسند ہیں۔جب بندہ عجز و انکساری کے ساتھ اپنے گناہوں کا اقبال کرتا ہے تو اللہ رب العالمین فرشتوں کو گواہ بنا کراس کی مغفرت کا فیصلہ فرما دیتے ہیں۔ کیوں کہ اللہ کو مانگنے والے، گریہ وزاری اور آنسو بہانے والے بندے پیارے لگتے ہیں۔ جو بندے اللہ پاک سے دعا کا تعلق جوڑ لیتے ہیں اُن کی کوئی مشکل، کوئی حاجت ایسی نہیں ہوتی جو بر نہ آتی ہو۔ لیکن دعاکی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ گناہوں پر احساس ندامت ہو، آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ ہو، کیے گئے گناہوں پر شرمساری ہو۔اس لیے بندہ اپنی اصلاح کے لیے اپنے اور اللہ کے درمیان دعا کے ذریعے مضبوط رابطہ قائم کرتا ہے۔ ماہ صیام میں ہر عبادت کا دگنا تگنا ثواب ملتا ہے اور کوئی بھی دعا رَ د نہیں ہوتی۔ افطار اور سحر کے وقت، نمازوں کے اوقات میں، تلاوتِ قرآن مجید کے بعد دعاؤں کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔افطار اور سحر دو ایسے وقت ہیں جب اللہ پاک دعائیں قبول فرماتے ہیں۔لہذا ہمیں رب کریم سے ہر نیک تمنا کی دعاان اوقات میں ضرور کرنی چاہیے۔
دعا کو عبادت کا مغز کہا گیا ہے۔دعا ایسی عبادت ہے جو اللہ کو بے حد خوش کر دیتی ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد گرامی ہے۔ترجمہ:”اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گااللہ کو مانگنے والے پسند ہیں جو نہیں مانگتے اللہ ان سے سخت غضبناک ہوتے ہیں“۔(غافر60) اللہ پاک سے دنیاوی امور سے متعلق سوال کریں۔ اخروی زندگی کے لیے دعائیں مانگیں۔ بہتر یہ ہے کہ جب ہاتھ اٹھائیں تو اخروی زندگی کو دنیاوی زندگی پر مقدم رکھیں۔ بہت سے لوگ اللہ سے صرف دنیاوی آرزؤں کی مانگ کررہے ہوتے ہیں اوردنیاوی معاملات میں آسانی کے لیے رب کے حضور اپنی حاجات پیش کررہے ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ تمام اسباب اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ وہی تمام کاموں کا بنانے والا ہے۔ لیکن ہمیں چاہیے کہ دعا کی ابتدا اپنی غرض سے نہ ہو۔ دنیا ہماری ضرورت کی چیز ہے۔ اس لیے ہمیں دارالعبادات کی فکر کے ساتھ دارلجزا کی بھی فکر کرنی ہے۔ ابتدا انتہا دونوں کی خیر مانگنی چاہیے۔ قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا۔ترجمہ:”اور جس وقت میرے بندے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) سے میرے متعلق سوال کریں تو کہہ دو کہ میں قریب ہوں ہر دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں پس وہ میرے احکامات کی تعمیل کریں اور مجھ پر اعتماد رکھیں تاکہ وہ رہنمائی پائیں“۔(البقرہ186) حدیث پاک میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے اللھم اجعل احبک الی من نفسی واھلی ومن الماء البارد(ترجمہ) اے اللہ! اپنی محبت میرے لیے سب سے زیادہ محبوب بنا دے حتی کہ میرے نفس سے اور میرے اہل سے اور ٹھنڈے پانی سے“۔
دعا ہمیشہ مکمل یقین سے مانگنی چاہیے۔ دعا میں گزارشات کا انداز نہ ہو۔ کیوں کہ اللہ پاک نے جس چیز کے دینے کا وعدہ کیا ہے تو پختہ یقین کر لیں کہ دعا سے وہ مل کر رہے گی۔ اور رمضان المبارک میں تو اس کے ملنے کا یقین بدرجہ اتم ہونا چاہیے۔ اس کے نہ ملنے کا کوئی شک شبہ دل میں نہ ہو۔ بہت سے لوگ کثرت دعا کا اہتمام تو کرتے ہیں لیکن جلد بازی میں مایوس ہو کر دعا کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ ہماری تو دعائیں ہی قبول نہیں ہوتی۔ یاد رکھیں! اللہ پاک ہر بندے کی دعا کو سنتے ہیں اور بوقت ضرورت قبول فرماتے ہیں۔ بعض مرتبہ دعا فوری قبول کر لی جاتی ہے اور بعض مرتبہ اس میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ لہذا ہمیں دنیاوی وا خروی ہر قسم کی دعائیں صدق دل سے مانگنی چاہئیں کہ ان دعاؤں کو اللہ پاک اپنی مشیت سے قبول فرمائیں۔ اس لیے کہ بندہ توہر حاجت مانگ لیتا ہے۔ مگروہ چیز بندے کے لیے کب مفید ہے یہ بات صرف اللہ جانتے ہیں۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:”اللہ سے مانگو تو قبولیت کے یقین سے مانگو یاد رکھواللہ تعالیٰ کسی غافل اور لاپرواہ کی دعا قبول نہیں فرماتا“۔(ترمذی3479) معلوم ہوا کہ دعا کی عدم قبولیت کی وجہ بھی ہمارے بشری تقاضے ہوتے ہیں۔
رمضان المبارک کی بابرکت اور رحمت بھری ساعتوں میں بندہ مؤمن گناہوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ کئی معاصیات اس سے دور ہو جاتے ہیں۔ احترام رمضان میں ہر بندہ مؤمن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حتی الامکان فحش گوئی سے بچے۔ ایسی صورت حال میں اور حالت روزہ میں ہر وقت اللہ پاک سے سوال کرتے رہیں۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ دعا ضرور قبول ہوگی۔ کیوں کہ رمضان میں مانگی جانے والی دعائیں رد نہیں ہوتیں۔اگر آپ کی دعا قبول ہوچکی ہے تو ہمیشہ اسے مخفی رکھیں۔ انسان فطرتاً کمزور واقع ہوا ہے۔ اگر آپ نے کسی محفل میں قبولیت دعا کا تذکرہ کردیا تو یہ غیر مناسب ہوگا۔ اس سے وہ لوگ مایوسی کا شکارہوجائیں گے جن کی دعائیں بظاہر ان کی نظر میں قبول ہوتی نظر نہیں آرہی ہوتی۔وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہماری دعا ٹھکرا دی گئی ہے۔
دعا ہمیشہ اللہ اور بندے کی درمیان رہنی چاہیے۔ اس لیے اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اکثر رات کی تنہائی میں رب سے مانگتے تھے۔ آپ بھی رب سے اکیلے اور تنہائی میں مانگیں۔ خفیہ طریقے سے گڑگڑا کر مانگی جانے والی دعا جلد اثر بھی کرتی ہے اور اللہ پاک کوبھی یہ انداز بہت بھاتا ہے۔ اللہ رب العالمین نے اپنے کلام میں فرمایا:”اذ نادی ربہ نداءً خفیاً (ترجمہ)جب میرے بندے (زکریا علیہ السلام) نے مجھے خفیا انداز میں پکارا“۔
ماہ صیا م میں ہر خاص و عام، مرد عورت، بچہ بوڑھا دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرے۔ یہ وہ گھڑیاں ہیں کہ جب کبھی بندہ اپنے رب کو پکارتا ہے تو مسبب الاسباب اسے خالی نہیں لوٹاتا۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں