جب انسان کی عادتیں اچھی ہوں تو معیار زندگی بہتر ہوتا ہے۔عادتیں انسانی زندگی میں ایک بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔عادتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ہم کس قسم کے انسان ہیں؟ اگر کسی انسان کا کردار نرالا ہے تو اس میں اس کی عادات کا بڑا دخل ہوتا ہے۔اسی طرح اگر کسی انسان کا کردار بھلا نہیں ہے تو اس میں بھی اس کی عادات کا دخل ہوتا ہے۔عادتیں انسان کی پہچان کروا دیتی ہیں۔بری عادتیں کسی آدمی کا معاشرے میں برا امیج بنا دیتی ہیں جبکہ اچھی عادتیں کسی آدمی کا معاشرے میں اچھا امیج بناتی ہیں۔اچھی زندگی جینے کا شوق ہے تو بری عادتیں چھوڑنی پڑیں گی۔معاشرے میں ایک سلجھے ہوئے شخص کے طور پر متعارف ہونا ہے تو اچھی عادتیں اپنانی ہونگی۔
ہماری سب سے زیادہ اہم عادتیں وہ ہوتی ہیں جن کے ذریعے ہم دوسروں سے جڑے رہتے ہیں۔اچھے لوگوں کی اچھی عادتیں ہی انہیں مقبول بناتی ہیں۔ہماری عادتیں ہمیں اپنی قدر و قیمت کا احساس دلاتی ہیں۔ ارسطو کا ایک قول ہے” ہم جو کچھ بار بار کرتے ہیں،ہم وہی ہوتے ہیں،اعلی کارگردگی ایک عمل نہیں بلکہ عادت ہے” جو کچھ ہم بار بار کرتے ہیں اسی سے ہماری پہچان بنتی ہے۔یہ تو آسان سی بات ہے کہ کوئی بار بار اچھا کرتا ہے تو وہ یقینا اچھا ہوگا اور جو بار بار برا کرے گا تو وہ برا ہی ہوگا۔اگر کسی کو صرف اپنی ذات تک سوچنے کی عادت ہے تو وہ کامیاب اور اچھی زندگی نہیں گزار سکتا۔زندگی سے صرف لینا ہی نہیں ہوتا بلکہ اس زندگی سے دوسروں کو کچھ دینا بھی پڑتا ہے تب جاکر یہ ایک حقیقی زندگی کے روپ میں ڈھلتی ہے۔
اگر کوئی بری عادات میں مبتلا ہے تو ان سے کیسے چھٹکارا پائے؟ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ عادتیں بدلنے میں کئی سال گزر جاتے ہیں۔جو عادت ایک دفعہ بن گئی اب وہ ختم نہیں ہوسکتی۔یہ خیال مناسب نہیں ہے۔ عادتیں بڑی آسانی سے تبدیل ہوجاتی ہیں،بس صرف لوگ انہیں تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ نئی اور اچھی عادتیں تشکیل دینے سے بری عادتیں خود بخود ختم ہوجائیں گی اور اچھی عادتیں کرنے کا خود ہی عادی ہوجائے گا۔اچھی عادتیں تشکیل دیں اور بری عادات سے چھٹکارا پائیں اتنا آسان سا تو نسخہ ہے۔جیسے کسی کو ہر دوسرے شخص سے نفرت کرنے کی عادت ہے، اگر وہ ہر دوسرے شخص سے الفت کرنا شروع کردے تو نفرت والی عادت خود بخود ختم ہوجائے گی۔
کچھ عادات ایسی ہیں جو ہر انسان میں ہونی چاہییں۔ان عادات سے معاشرہ برائی سے محفوظ رہتا ہے۔ معاشرہ نت نئے مسائل کی بھینٹ نہیں چڑھتا۔اچھے اور سلجھے ہوئے افراد کا معاشرہ کہلاتا ہے۔ معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بن جاتا ہے۔بے جا مسائل نہیں ابھرتے۔
1۔دیانت داری: اگر معاشرے میں ہر انسان دیانت دار ہوجائے تو فضول قسم کے شکوک و شبہات جنم لینا ختم کردیں گے ۔دیانت داری سے ہر معاملہ کو پروان ملے گا۔ معاشرے میں بے چینی کی فضا کا خاتمہ ہوگا۔ہر شخص دوسرے پر اعتماد کرے گا اور اعتماد کی ہوا کے جھونکے درختوں سے ٹکرائیں گے۔
2۔ ہمیشہ سچ بولنا: سچ بولنے سے ہر گناہ سے چھٹکارا مل جائے گا۔جب ہر گناہ سے چھٹکارا ملے گا تو معاشرے میں رائج گناہ اور برائیاں ختم ہوتی جائیں گی۔ سچ بولنے سے معاشرے کا ایک اچھا امیج بنے گا۔ دنیا کے ہر کونے کے لوگ اس معاشرے کے لوگوں سے خوش ہوں گے۔
3 ۔دوسرے لوگوں کا بھی خیال؛ صرف اپنے لیے جینے والا کبھی خوش نہیں ہوسکتا۔ دوسرے لوگوں کے لیے جینے والا خوش حال زندگی ضرور جیتا ہے۔جو اپنے لیے پسند ہو وہ دوسروں کے لیے بھی پسند کرنا سیکھیں۔اس سے خود غرضی کی سنگین بیماری ختم ہوجائے گی۔خود غرضی ایسی بیماری ہے جو انسان کو کئی دوسری بیماریوں کی طرف لے جاتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ان ذکر کردہ صفات و عادات سے خالی ہے۔جب ہمارا معاشرہ ان سے خالی ہے تو تبھی تو یہاں سکون نہیں،چین نہیں،راحت کا سماں نہیں اور الفت کی ہوا کے ڈیرے نہیں۔ پھر ہے کیا؟ ہے تو صرف بددیانتی، جھوٹ،نفرت، خود غرضی، کرپشن اور غنڈہ گردی۔ جو جتنا بڑا ہے وہ اتنا ظالم ہے۔جو جتنا غریب ہے وہ اتنا ہی مظلوم ہے۔
اچھی عادات تشکیل دے کر معاشرے سے برائیوں کو ختم کرنے میں ہر انسان کردار ادا کرے۔عادتیں ہر کامیابی کی کنجی ہیں۔ہم کوئی اچھا کام ایک دفعہ کرکے کامیاب نہیں ہوتے بلکہ ہم اچھا کام تسلسل کے ساتھ کرکے کامیاب کہلائیں گے۔ہر انسان کی عادتوں کا اختتام یا تو اس کے حق میں ہوتا ہے یا اس کے خلاف۔اس لیے ہر عادت کو اپنانے سے پہلے اس کے نتیجے کی طرف ایک نظر ضرور دوڑائیں۔