ملیریا 

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 25 اپریل کو ملیریا کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں مختلف سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں اور پوری دنیا میں لوگوں میں ملیر یا سے بچاؤ اور اس کے متعلق خدشات اور خطرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں کہ کسی طرح ہم
ملیر یا کو شکست دے کر اپنے آپ کو اس بیماری سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور ملیر یا کی روک تھام اور علاج پر توجہ دے سکتے ہیں ۔
ملیریا ایک قدیم زمانے سے چلے آنے والی بیماری ہے ۔ قدیم حکماء حکیم بقراطہ، حکیم کلسوس اور حکیم جالیوس وغیرہ نے اپنی کتابوں میں بھی اس بیماری کا ذکر کیا ہے سب سے پہلے ڈاکٹر لیورن نے ملیریا کے جراثیم کا پتہ لگایا اور پھر مزید تحقیق کے بعد ڈاکٹر داس نے یہ دریافت کیا کہ ملیریا کا سبب ایک خاص مادہ مچھر اینا فلیس (Anopheles) ہوتی ہے جو کہ جراثیم انسانی جسم میں داخل کرتی ہے اور پھر قوتِ مدافعت کی کمی ہونے کے بعد ملیریا اپنا اثر دکھانا شروع کر دیتا ہے ۔
ملیریا بخار چونکہ ایک متعدی مرض ہے لہذا یہ ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیل سکتا ہے ۔ دنیا بھر میں ملیریا بخار کی وجہ سے ہلاک ہونے والے نوے فیصد افراد کا تعلق ترقی پزیر ممالک سے ہے۔ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر تیس سے چالیس سیکنڈبعدایک مریض ملیریاکے باعث لقمہ اجل بن جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ملیریا پاکستان کے لئے دوسری سب سے بڑی وبائی بیماری بن چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ تیس لاکھ سے زائد افراد ملیریا سے متاثر ہو جاتے ہیں۔اور ہر سال تقر یباً 50ہزار اموات ہوتی ہیں۔ پاکستان میں یہ مرض قبائلی علاقوں کے ساتھ ساتھ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ملیریا کے حوالے سے اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ ہائی رسک بلوچستان میں ہیں، کیونکہ بلوچستان میں ملیریا کے کیسز میں ہر سال مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔
مادہ اینا فلیز مچھر کے ذریعے ملیریا کے جرثومے پلازمو ڈیم کو ایک مریض سے دوسرے مریض تک منتقل ہونے میں مدد ملتی ہے ۔ پلازمو ڈیم دراصل ایک یک خلیہ پیراسائیٹ ہے ۔ اور پلازسوڈیم کو اپنی پرورش کے لئے دو میزبانوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یعنی ایک مچھر اور دوسرا میزبان انسان ہوتا ہے ۔خردبین کی ایجاد کے بعد 1880 ء میں ایک فرانسیی ڈاکٹر چارلس لوئی الفانسے نے پلازمو ڈیم کو مریضوں کے خون میں دریافت کیا اور پھر 1907 ء میں اسی بنیاد پر انھیں نوبل انعام کا حقدار ٹھیرایا گیا۔
پلازمو ڈیم کی زندگی کا دورانیہ دو ادوار پر مشتمل ہوتا ہے ۔جس کا ایک حصہ مچھر کے جسم میں اور دوسرا انسانی جسم میں گزرتا ہے ۔ مچھر
پلازمو ڈیم کو ایک مریض کے خون سے چوس کر دوسرے مریض تک ہی منتقل نہیں کرتا بلکہ پلازمو ڈیم مچھر کے جسم یعنی اس کی آنتوں اور لعابِ دہن میں بھی اپنی ایک زندگی کا چکر مکمل کرتا ہے اور مچھر ہی اس پلازمو ڈیم کا اصل میزبان یعنی Definitive Host ہوتا ہے ۔ ملیریا کی علامتیں پلازمو ڈیم کے حامل مچھر کے کاٹنے سے دو سے تین ہفتے بعد ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں ۔ ابتداء میں سردی ، بخار ، تھکن ، کپکپی، چھینکیں ، بار بار پسینہ آنا، جسم میں درد ، سر میں درد، متلی ، کھانسی ، نزلے جیسی علامتیں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ کبھی کبھار یہ علا متیں 48 سے 72گھنٹے کے بعد دوبارہ ظاہر ہوتی ہیں اور ایسا بار بار ہوتا ہے۔اور علا مات ظاہر ہونے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مریض کو ملیریا کس طرح کے جراثیم سے ہوا ہے اور وہ کتنے عرصے سے اس مرض میں مبتلا ہے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات جوڑوں میں درد، یرقان ، بے ہوشی کے دورے ، سرمیں شدید درد اورپھر ملیریا کے شدید حملے میں اعصابی نظام بھی بُری طرح متاثر ہوتا ہے ۔اگر بر وقت علاج نہ ہو سکے تو مریض کے بے ہوش ہونے کے بعد موت بھی واقع ہوسکتی ہے ۔ جلد پر خارش اور سرخ دھبے ملیر یا کی نشانیوں میں شامل ہیں۔
بیماری سے پاک ایک مچھراگر ملیریا سے متاثرہ فرد کو کاٹ لے تو اس مچھر میں بیماری آجاتی ہے۔ اسی طرح دوسرے انسانوں کو کاٹنے سے یہ ان میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ ملیریا کی بیماری براہ راست ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل نہیں ہوسکتی۔البتہ حمل کے دوران متاثرہ ماں کے ذریعے یہ بیماری بچے میں منتقل ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ملیریا کی بیماری اسپتالوں میں استعمال کی ہوئی سرنجیں استعمال کرنے اور جراثیم زدہ سامان کے استعمال سے بھی ایک شخص سے دوسرے شخص کے خون میں منتقل ہوتی ہیں اور مریض کے خون کے معائنے اور اس کے سرخ جسیموں میں پلازمو ڈیم کی موجودگی ثابت کرنے کے لئے مریض کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا جاتا ہے ۔
ملیریا کی بیماری کی پیچیدگیوں میں غنودگی کے دورے ، جسمانی کمزوری یا چلنے پھرنے میں مشکل ، جسم میں کھنیچاؤ یا اینٹھن ، بلڈپریشر میں کمی ، سانس لینے میں مشکل ، پیشاب کا رنگ گھیرا زرد یا سیاہی مائل ہونا، جسم میں خون کی کمی کی وجہ سے رنگ پیلا پڑجانا یعنی اینیما(Anemia) وغیرہ شامل ہے ۔اگر ملیریا کا جلد علاج نہ کروایا جائے تو مریض کو خون کی شدید کمی ہو سکتی ہے ، جو جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔خاص طور پر حاملہ خواتین اور بچوں کے لئے ملیریا زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ملیریا سے بچاؤں کے لیے مچھروں کی آبادی کو تلف کرنا اور مچھر کے کاٹنے سے بچاؤں بہت ضروری ہے ۔ مچھروں کی آبادی ختم کرنے کے لئے مچھر وں کی نسل بڑھانے کے مقامات یعنی گندے پانی کے جوہڑ اور تالابوں کو ختم کرنا چاہیئے اور ذاتی سطح پر ہر شہری کو اپنے گھروں میں مچھر مار اسپرے اور ادویات استعمال کرکے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔ ملیریا سے بچاؤں کے احتیاطی تدابیر میں ماحول کو صاف رکھنا بے حد ضروری ہے۔کھلے آسمان کے نیچے سونے سے گریز کرنا چاہیے۔ مکمل ڈھکا ہوا لباس زیب تن کرنا چاہیئے اور مچھر دانی استعمال کرنا چاہیے۔گھروں اور دفاترمیں مچھر مار اسپرے اور کوائل استعمال کرنے چاہیئے اور دروازوں، کھڑکھیوں اور روشن دانوں میں جالی کا استعمال کریں۔ ملیریا سے بچاؤ کے لئے ویکسین بھی ضروری ہے ۔ چھوٹے بچے ملیریا کا با آسانی شکار ہوسکتے ہیں لہذٰا ان کو مچھر کے کاٹنے سے محفوظ ر کھناچاہیئے ۔
اگر ہم اپنے اردگرد ماحول کی صفائی کا خیال رکھیں تو نہ صرف ملیریا بلکہ بہت سی دیگر بیماریوں سے بھی بچ سکتے ہیں ۔ اگر ملیریا کی تشخیص ہو جائے تو گھبرانے کے بجائے مناسب اور بروقت علاج اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیئے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں