’’بے نامی اکاؤنٹ‘‘

بے نامی اکاؤنٹ کے انکشافات اور پے درپے سامنے آنے والے واقعات سے خوف کی فضاء پیدا ہوئی ہے۔ بے نامی اکاؤنٹ کیا ہے ؟ ماہر معاشیات ، نجکاری اور ٹیکس اصلاحات کے رکن جناب اشفاق تولہ کہتے ہیں کہ:’’ بے نامی اکاؤنٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کا پیسہ میرے نام پر ہوگا جب کہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں رکھتا‘‘۔ اس صورت حال کے بعد لوگ اب بہت زیادہ سوچ بچار کے بعد بنک میں اپنا ذاتی یا کاروباری اکاؤنٹ کھلواتے ہیں۔ رقم جمع کروانے اور نکلوانے میں بھی کافی احتیاط برتی جارہی ہے۔ بزنس کمیو نٹی اور فارن سے آنے والی کرنسی پربھی لوگوں سے مکمل پوچھ گچھ کی جاتی ہے ۔ ملکی وغیر ملکی ٹرانزیکشن پر کڑی نگرانی شروع کردی گئی ہے ۔ ایک متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والا شہری، اگر کسی بنک کا اکاؤنٹ ہولڈر ہے تو وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کا نام جعلی اکاؤنٹ اسکینڈل میں آئے اور اس کی ’’واہ واہ ‘‘ہو جائے۔
بے نامی اکاؤنٹ ایکٹ 2019 کے نفاذ کے بعد اب صورت حال یہ ہے کہ سرمایہ دار طبقہ لاابالیوں سے جاگ اٹھا ہے۔ رائل اسٹیٹ کا بزنس کرنے والے میرے ایک دوست نے بنک کے معاملات منیجر سے لے لیے ہیں۔ وہ اب تمام کھاتوں کی خود دیکھ بھال کرتا ہے۔ ایف بی آر کے اس ایکٹ نے بالعموم کاروباری اور بالخصوص سیاست دانوں کے چودہ طبق روشن کر دیے ہیں۔ اب تک 50 ارب روپے کی منی لانڈرنگ اور عام شہریوں کے نام نکلنے والے جعلی اکاؤنٹ نے سب کو ششدر کردیا ہے۔ ایف بی آر نے کراچی کے شہری محمد ابراہیم کے اکاؤنٹ کا پتا لگایا، جس کے نام پر بننے والے ’’بے نامی اکاؤنٹ‘‘ سے جولائی 2015 سے جون 2018 تک 36 کروڑ 94 لاکھ کی رقم منتقل کی گئی۔ اس رقم کی ماہانہ اوسط دوکروڑ ہے۔ عام شہریوں کے نام پر کھلنے والے ان’’ بے نامی اکاؤنٹ‘‘ کا مستعمل جو بھی ہو ،اس سے اکاؤنٹ ہولڈر کے لیے سنگین مسائل جنم لیتے ہیں۔ محلے میں، رشتہ داروں اور دوستوں میں اس شخص کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ معاشرہ اسے ایسے جرم کا مجرم سمجھتاہے ،جو اس نے کیا ہی نہیں ہوتا۔ ایسے افرادان حالات میں بہت زیادہ اذیت کا سامنا کرتے ہوئے غیر مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔ عموماََ ہر شہری کو پرسکون زندگی اور آسان موت چاہیے ہوتی ہے ۔ لیکن یہ بدنصیب اس کے بھی حق دار نہیں ہوتے۔
’’بے نامی اکاؤنٹ‘‘ سے پڑھے لکھے شہریوں پر بھی برا اثر پڑاہے۔ الزام سے متاثرہ شخص کو ’’بے نامی اکاؤنٹ‘‘کادیاگیا زخم اندر تک گھل کر اس کے جذبات کو زچ کرتا رہتاہے ۔ اس ناسور سے اٹھنے والے درد سے وہ یا تو ہمیشہ جذباتی زخم کھاتا رہتا ہے، یا پھر انسانی احساسات سے عاری ہوجاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنی زندگیوں میں غیر ضروری مداخلت کے حادثے کو قبول نہیں کرتے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی غریب کوایسی بیماری لاحق ہونے کا پتاچلے جس کے علاج پر لاکھوں روپے کے اخراجات ہوں اور اس کے گھر میں فاقے ہوں۔ وہ نصف موت وہیں مر جاتا ہے۔ پھر’’بے نامی اکاؤنٹ ‘‘اور اس جیسے متنازعہ غیر ضروری عوامل کا ایک باشعور شہری کیسے متحمل ہو سکتا ہے؟ مشہور نفسیاتی معالج اور بی بی سی کے رپورٹر مارک برائن لکھتے ہیں:’’ایسے خطرات سے لڑنے والے افراد اور خاندان ڈرامائی اور جذباتی کرب کے حالات میں گھرے ہوتے ہیں۔ ایسے لمحات میں جب موت زندگی سے زیادہ سستی لگنے لگے ،ہمارے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ان سے کیسے نمٹا جائے۔ کیوں کہ ایسے واقعات ذاتی ہوتے ہیں جہاں آپ یا آپ کے خاندان کا کوئی فرد کسی بڑے اسکینڈل کی خبر بن جاتا ہے اور جہاں اس خبر کے مثبت اور منفی دونوں پہلو موجود ہوں‘‘۔
بلیک اکانومی کے اس دھندے میں سرمایہ دار ،جرائم پیشہ افراد ملوث ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد ٹیکس کی چوری کرنا ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا قانون میں ایسی گنجائش موجود ہے کہ جس کے ذریعے سفید دھن کالا کیا جائے ؟ تو جواب یہ ہے کہ ایسی خفیہ راہ داریاں ہیں جن سے کالادھن بنایا جاتا ہے۔ جیسے پراپرٹی کا کاروبار۔ سرمایہ دار اپنے چوکیدار یا ڈرائیور کے نام پر’’بے نامی اکاؤنٹ‘‘ کھلواتے ہیں اور بلیک منی کا دھندا شروع کردیتے ہیں۔جب کہ اکاؤنٹ ہولڈر کو اپنے نام پر موجود’’بے نامی اکاؤنٹ‘‘ میں ایک بڑی رقم کی موجودگی کی خبرتک نہیں ہوتی ۔ ایسے اسکینڈل میں وہ معصوم افراد پھنستے ہیں جو اپنے مالکوں کی ہمدردی کے پیچھے چھپے گھناؤنے کاروبار کو دیکھ نہیں پاتے ۔
’’بے نامی اکاؤنٹ‘‘ کے بے شمار فوائد میں سے ایک غیر قانونی طریقے سے مال بچانا ہے۔ کون چاہے گا کہ جس چیز کی ٹیکس ویلیو 10 فیصد ہے وہی چیز مارکیٹ میں اپنی 80 فیصد ویلیو رکھتی ہے ،تو ایسے میں اس کا ٹیکس ادا کیا جائے ۔ لہذا اس کو ٹیکس سے بچانے کے لیے یہ’’بے نامی اکاؤنٹ‘‘کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ حال ہی میں اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کا ایساہی ایک کیس سامنے آچکا ہے جس میں نیب نے ان پریہ الزام لگایا کہ انہوں نے ملازمین کے نام پرزمین حاصل کی اور تعمیرات کرکے فروخت کردی۔ ان سے ایف آئی اے کی انٹرو گیشن ٹیم نے ایسے 70 بے نامی کھاتوں کا پتا لگایا ہے۔ ’’بے نامی اکاؤنٹ ‘‘پہ اگر عالمی دباؤ نہ ہوتا تو شاید یہ دھندابھی مندا نہ ہوتا۔ کیوں کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف ٹی ایف ) کے پاس ایسے 900 ’’بے نامی اکاؤنٹ‘‘ کی رپورٹس موجود ہیں، جن کے ذریعے کروڑوں ڈالرز کی منتقلی (منی لانڈرنگ )کی گئی۔ ایسے میں50 ارب روپے کے ’’بے نامی اکاؤنٹ‘‘ کا پکڑا جانا اونٹ کے منہ میں زیرا ہے۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں