سالا متنازع ترین رشتہ ہے، بارہا دیکھا گیا کہ جو شخص کسی کو یکطرفہ طور پر، اور فریق ثانی کی رضامندی کے بغیر لیکن علی الاعلان اس رشتے پر فائز کر دیتا ہے وہ ضرور (جوابی) گالیوں کا نشانہ بنتا ہے، اور نوبت بعض اوقات خراشوں یا خون خرابے تک جا پہنچتی ہے۔
مشرقی معاشرے میں سالا ہونا قابل فخر بات نہیں، البتہ بہنوئی ہونے پر فخر کرتے ہوئے بھی ہم نے کسی کو نہیں دیکھا۔ جہاں تک خجالت کا سوال ہے تو اس کا تعلق کسی رشتے سے جوڑنا مناسب نہیں البتہ کوئی رشتہ دار ضرور کسی کے لیے باعث خجالت ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود سالا بنتے دیر نہیں لگتی۔ تحقیق (جو کسی امریکی یا برطانوی یونیورسٹی نے نہیں بلکہ ہم نے خود کی ہے) سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف ایک بے ضرر سی شادی کئی سالوں کو وجود میں لانے کا سبب بنتی ہے۔
ہمیں اس موضوع سے گہری دلچسپی تھی کہ مغرب میں سالا ہونا لوگوں کو کیسا لگتا ہے؟ ہمارے یار دوست جب بھی یورپ یا امریکہ کا چکر لگا کر آتے ہم یہ سوال ان کے سامنے ضرور رکھتے۔ اکثر کا جواب یہ ہوتا تھا کہ ابھی تو مغرب کے مردوں نے خود کو شوہر محسوس کرنا شروع نہیں کیا، سالے کی باری تو نہ جانے کب آئے گی۔یہ پوچھنے کا جی چاہا کہ مغرب کے مرد فی الحال خود کو کیا محسوس کرتے ہیں، لیکن اس مختصر سے تبصرے کو سن کر ہماری تحقیق کی روح پرواز کر گئی۔
کہتے ہیں، عورتوں میں برداشت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بالکل درست ہے۔ ہم نے ’’سالی‘‘ کہے جانے پر کسی عورت کو برا مانتے ہوتے نہیں دیکھا (شرماتے ہوئے البتہ دیکھا ہے)۔ عورتیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں ایک دوسری کے لیے حددرجہ محتاط واقع ہوئی ہیں، وہ ذاتی جھگڑے میں بھی مردوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھتی ہیں، تب ہی تو آپس میں ’’اللہ کرے تیری سوکن آئے، تجھے جلائے‘‘ جیسی بددعائیں دیتی ہیں جس پر متعلقہ مرد زیرلب ’’آمین، ثم آمین‘‘ کہتے پائے جاتے ہیں۔
منصور احمد جو بھی کرتے یا لکھتے ہیں خوب ہی کرتے ہیں ، بچپن کی عادتیں اب کہاں جائیں گی