بلوچستان کے گمبھیر مسائل

بلوچستا ن رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔ اس کا کل رقبہ چونتیس ہزار ایک سو نوے کلو میٹر ہے اور یہ پاکستان کے کل رقبے کا چوالیس فیصد حصہ ہے ۔ مگر آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے ۷۱۰۲ کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی آبادی تقریباایک کروڑ چوبیس لاکھ ہے ۔ رقبے اور آبادی دونوں کو مد نظر رکھ کر وسائل ومسائل بھی سب سے زیادہ ہیں ، مگر سالانہ حکومتی بجٹ سب سے کم ہے۔اور یہ مسئلہ روز اول سے درپیش ہے جب ۱۷۹۱ کو پاکستان کے ون یونٹ کو ختم کرکے چار صوبے بنائے گئے ۔ تب سے اب تک بلوچستان پاکستان کا سب سے زیادہ مظلوم و پسماندہ صوبہ رہا ہے۔ انفرا اسٹریکچر سے لے کر تعلیم اور صحت تک کے ہر شعبے میں بلوچستان باقی صوبوں کی نسبت بہت پیچھے ہے ۔ بلوچستان پاک چائنا اکنومک کوریڈور کا اہم حصہ ہونے کے بھی باوجود بھی بنیادی سہولیات زندگی کے لئے ترس رہا ہے ۔اور اس پسماندگی کے پس پردہ کئی عوامل ہیں جو کہ ایک الگ بحث ہے۔ یہاں میرا مقصد بلوچستان میں طبی مسائل کی نشاندہی کرنا ہے۔ جہاں بلوچستاں دیگر شعبوں میں پاکستان کے باقی صوبوں کی نسبت سب سے پیچھے ہے وہیں صحت کے شعبے میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ صحت رب کریم کی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہے اور پاکستان کے کانسٹیٹیوشن ۰۱۰۲ کے ایکٹ کے تحت اچھی صحت رنگ، نسل اور مذہب کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کے ہر شہری کا اولین حق ہے۔ گورنمنٹ کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو بغیرکسی نسلی، زبانی اور مذہبی ا متیاز کے صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرے ۔ مگر بلوچستان میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔یہاں صحت کی سہولتیں صرف بتیس فیصد آبادی کو میسر ہیں ۔ اور آبادی کی اکثریت اپنے بنیادی حق سے محروم ہے۔
بلوچستان میں آبادی کے لحاظ سے ہرسات ہزار تین سو لوگوں کے لئے ایک ڈاکٹر ہے۔ دہی علاقوں کی حالت زار شہری علاقوں سے بھی بد تر ہے ۔ پورے بلوچستان کے بتیس اضلاع میں پانچ سو ا نچاس بیسک ہیلتھ یونٹ ہیں جن میں صرف ایک سو گیارہ پوری طرح فعال ہیں۔ باقی سب کی حالت مخدوش ہے ۔ان میں ویکسینیشن بہت کم مراکز میں ہوتی ہے اور زیادہ تر جدید آلات اور لیب کی کمی کا شکار ہیں ۔ ان سینٹرز میں ڈاکٹرز بہت کم تعینات ہیں اور جو ہیں وہ بھی یہاں سے تنخوہ لے کر کہیں اور منسلک ہیں ۔ آر ایچ سی کی کل تعداد بیاسی ہے ۔ گو کہ ان کی حالت بی ایچ یو ز سے قدرے بہتر ہے مگر ڈاکٹر ز اور نرسنگ سٹاف کی کمی یہاں بھی بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ ٹی ایچ کیو ٹوٹل دس ہیں۔ اور ڈی ایچ کیو ستائیس ہیں ، مگر ان میں بھی کہیں ڈاکٹرز کی کمی ہے، خاص کر لیڈی ڈاکٹرز اور فیمیل اسٹاف کی کمی تو سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ اس کے علاوہ کہیں پیرامیڈک کی کمی، کہیں جدید طبی آلات اور سرجیکل آلات کی عدم دستیابی ہے اور سب سے اہم مسئلہ ایمبولینس اور اسٹریچر کی کمی کا بھی ہے۔ اکثر اوقات تو مردوں کو بھی ایمبولینس کی چھتوں پر ان کے آبائی علاقوں میں منتقل کیا گیا ہے ۔ جو کہ ایک انتہائی تکلیف دہ صورت حال ہے ۔ زیادہ رقبہ ہونے کی وجہ سے آبادی والے علاقے بہت دور دور ہیں ۔ اور ان علاقوں کو آپس میں ملانے والے لنک روڈ کچے اور ٹوٹے پھوٹے ہیں ۔اسی وجہ سے طبی مراکز عوام کی دسترس سے بہت دورہیں ۔ جہاں تک ڈاکٹرز کی کمی کی وجوہات ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ دہی علاقوں میں ڈاکٹرز کو رہائش کے مسئلوں کے علاوہ ان کے بچوں کی تعلیم کا مسئلہ بھی درپیش ہے اور ضرور ی سہولیات زندگی کی کمی کاسامنا بھی ہے ۔ا س طرح کے سخت حالات میں رہنا ڈاکٹرز کے لئے خاص کر لیڈی ڈاکٹرز کے لئے انتہائی مشکل ہے اس لئے زیادہ تر ڈاکٹرز کی پوسٹنگ کے لئے پہلی ترجیح کوئٹہ یا حب ہے ۔ اس لئے بلوچستان کے مر یضو ں کی منزل بھی یا تو کوئٹہ ہے یا کراچی ۔ کوئٹہ بلوچستان کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں پانچ بڑے اسپتال ہیں دو ٹیچنگ اسپتال بولان میڈیکل کامپلیکس، اور سول ہاسپیٹل ہیں ۔ اسکے علاوہ شیخ زائید ہاسپیٹل ، ہیلپرز آئی ہاسپیٹل ، بلوچستان اینسٹیٹوٹ آف نیفرولوجی ہیں ۔ میڈیکل کالج پورے بلوچستان میں ایک ہی تھا مگر خضدار ، لورالائی اور تربت میں پچھلے سال تین نئے میڈیکل کالجز نے کام شروع کر دیا ہے ۔ کوئٹہ کے ان اسپتالوں میں بھی جدید آلات کا فقدان ہونے کی وجہ سے مریض کراچی جاتے ہیں ۔ آج کے دور میں کینسر کے کیسز بہت زیادہ سامنے آرہے ہیں اور اتنے بڑے صوبے میں کینسر کے اسپتال کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی کئی لوگ اپنے علاج کے لئے کراچی کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔
یہاں لوگوں میں شرح اموات بہت زیادہ ہے خاص کر پیدائش کے وقت ماں اور نومولود بچے کی ۔ اور پانچ سال تک کے عمر کے بچوں کی ۔ ماﺅں میں یہ شرح ہر لاکھ افراد میں سات سو پچاسی ہے۔ شرح اموات کی زیادتی میں تین چیزوں کا بڑا اہم کردار ہے ان میں پہلے نمبر پر غربت ہے۔ جب ایمرجنسی کی صور تحال پیدا ہوتی ہے تو اس وقت مریض کے رشتہ داروں کی مالی حالت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ فوری پیسوں کا انتظام کر سکیں ۔ اور اچھا خاصا وقت پیسوں کے انتظام میں لگ جاتا ہے ۔ اور اس اثنا میں مریض کی حالت بھگڑنا شروع ہوتی ہے۔ پیسوں کا انتظام ہونے کے بعد دوسرا اہم مسئلہ جو درپیش ہوتا ہے وہ طبی مراکز کا دو ر ہونا، ٹرانسپورٹ کی کمی اور سڑکوں کا نہ ہونے کے برابر ہونا ۔ یہ سب عوامل مل کر مریض کی صورت حال کو مزید گھمبیر بناتے ہیں ۔ اورسب سے اہم چیز جو شرح اموات میں اضافے کا سبب بنتی ہے وہ ایک نہیں بلکہ اس پیچے کئی عوامل کار فرما ہیں ۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دہی علاقوں میں طبی مراکز پوری طرح سے فعال نہیں ہیں ۔ کہیں بلڈنگ نہیں ہے ، کہیں بلڈنگ ہے تو اس میں سہولیات کا فقدان ہے ۔سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ان مراکز میں ڈاکٹرز اور دوسرے طبی عملے کی عدم دستیابی ہے۔ اور جدید طبی آلات کی کمی ، انکیوبیٹرز اور وینٹیلیٹرز کی کمی ، خون کی عدم دستیابی اور ضروری ادوےات کا وقت پر نہ ملنا ہے جس کی وجہ سے زچہ بچہ کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے ۔ عالمی بینک کے جاری کردہ ایک رپورٹ میںپاکستان کی تیس فیصد آبادی غربت کا شکار ہے اور بلوچستان میں یہ شرح بیالیس اعشاریہ دو فیصد ہے اور بلوچستان میں سب سے زیادہ ضلع واشک میں غربت ہے وہاں کی آبادی کا بہتر فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور اسی وجہ سے بلوچستان غذائی قلت کا بھی شکار ہے ۔ یہاں ترپن فیصد بچوں کو پوری غذا نہیں ملتی ۔اسی وجہ سے ان کی افزائش کا تناسب بھی کم ہے۔ اسی طرح آغا خان یونیورسٹی کے ایک سروے کے مطابق پاکستان کے بیس اضلاع کے لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں اور ا س میں دس اضلاع بلوچستان کے ہیں۔ جبکہ صوبہ بھر میں سولہ فیصد آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور اس کے اثرات کی وجہ سے ستر فیصد بچے اور ایک تہائی حاملہ عورتیں شدید متاثر ہو رہی ہیں ۔ جہاں غذائی قلت بذات خود بچوں اور حاملہ عورتوں میں کمزوری ، بیماری اور موت کا سبب بن رہی ہے ، وہیں غذا کمی کی وجہ سے قوت مدافعت بھی متاثر ہوتی ہے اور جس کہ وجہ سے کئی جلدی بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔ ان میں تپدق جیسی موذی امراض بھی حملہ آور ہوتی ہیں۔
ٓٓصااسبلوچستانبببببببلہ ٹائیفائیڈ ، ملیریا۔ ہیپیٹائیٹس۔ گردے کی بیماریاں ۔ گیسٹرو اور متعدد جلدی بیماریاں بھی بلوچستان میں بہت زیادہ عام ہیں اور یہ زیادہ تر آلودہ پانی پینے کی وجہ سے کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ بلوچستان میں نکاسی آب اور صاف پینے کے پانی کی سپلائی زیادہ تر شہری علاقوں تک محدود ہے ، دہی علاقوں میں یہ سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اس لئے دہی علاقوں کے لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں اور ۔ ان بیماریوں سے بچنے لے لئے لازمی ہے کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی ہو اور نکاسی آب کا جو نظام شہروں میں ہے، وہ دیہاتوں میں بھی شروع کیا جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی پینے کے صاف پانی تک رسائی ممکن ہو سکے ۔ اقوام متحدہ کی ایک سروے کے مطابق صاف پانی کی عدم دستیابی اور نکاسی آب کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے پندرہ لاکھ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ بچوں میں قوت مدافعت بڑوں کی نسبت کم ہوتی ہے اس لئے وہ زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔
پولیو اس صدی کا سب سے بڑا چیلینج ہے ۔ یہ وائرس زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو متاثر کرتا ہے ۔ ہر دو سو مریضوں میں سے ایک مریض اپاہج ہو جا تا ہے اور پانچ سے دس فیصد مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور یہ مرض پولیو وائرس سے آلودہ خوراک یا پانی کی وجہ سے بھی پھیل سکتا ہے ۔ ۸۱۰۲ میں پاکستان میں پولیو کے ۲۱کیسز رپورٹ ہوئے ۔ ان میں سے تین بلوچستان میں رپورٹ کئے گئے۔ ، پولیوکے حوالے سے بھی اگر دیکھا جائے تو ہر بار ہر مہم کا حصہ بننے کے باوجود بلوچستان میں پولیو کے کیسز کی مسلسل نشاندہی ہورہی ہے ۔ کوئٹہ ، پشین اور قلعہ سیف اللہ میں پولیو کا وائرس موجود ہے۔
اکیسویں صدی میں بلوچستان میں صحت کے حوالے سے جو صورت حال ہے وہ انتہائی گھمیر ہے ۔ اس لئے وفاقی اور صوبائی وزیر صحت کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر اس مسئلے پر قدم اٹھائیں ۔ اس کے لئے ضروری ہے سب سے پہلے صحت کی مد میںبجٹ میں اضافہ انتہائی ضروری ہے ۔ ڈاکٹرز کے مسائل کو درپیش رکھ کر ان کے لئے دہی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا اور متعلقہ علاقوں میں اچھی اور معیاری تعلیم کو بھی ترجیح دینا ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکے ۔ بلوچستان کے چھوٹے بڑے ہر سینٹرز میں جدید اور اہم سرجیکل آلات کی فراہمی کو یقینی بنانا ، لیبارٹریز کو مکمل فعال بنانا اور ان میں متعلقہ تربیت یافتہ افراد کی تعیناتی کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ہر مرکز کے لئے ایمبولیینس کی فراہمی بھی انتہائی اہم ہے۔ صحت کے حوالے سے ٹریننگ کروانااور لوگوں میں بیماریوں کے متعلق آگہی اور شعور پیدا کرنابھی اہم ہے ۔کیونکہ صحت مند معاشرہ ہی کسی ملک کی ترقی کی بنیاد ہے ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں