کھائیے مگر دیکھیے بھی

خوشی کا موقع ہو اور مٹھائی نہ ہو ایسا تو ممکن ہی نہیں ہے کبھی دور تھا کہ مٹھائی میں صرف لڈو، جلیبی اور برفی ہوا کرتی تھی یا پیٹھا مٹھائی اور وہ بھی سب کی پنہچ میں نہیں تھی دیہاتوں میں چند سال پہلے تک بتاشہ ( پتاسہ) کا رواج تھا ہر خوشی کے موقع پر پتاسہ لازم تھا اور پتاسے بنانے والوں کی چاندی تھی مایوں والے دن گندم ابال کر ساتھ گڑ دیا جاتا تھا جسے لوگ بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے ۔روٹی اور ولیمہ میں بڑا گوشت اور جلیبی جسے کئی علاقوں میں جلیب بھی کہا جاتا ہے عام تھی ایک دن پہلے ہی حلوائی آ کر بھٹی وغیرہ بنا کر اپنا کام شروع کردیتا تھا اور ایک بڑے سے کڑاہے میں جلیبی نکال نکال کر رکھتا جاتا جسے ولیمے والے دن مہمانوں کو پیش کیا جاتا کئی علاقوں میں تو باقاعدہ یہ پانج سے دس کلو تک تول کر دی جاتی تھی جسے لوگ بڑے شوق سے کھاتے تھے. نکاح پر نائی باراتیوں میں چھوارے تقسیم کیا کرتاتھا جو دولہے والے ساتھ لیکر آتے تھے اور نکاح کی دعا کے بعد شرکاءکا منہ میٹھا کروایا جاتا تھا یہ سب چیزیں دیسی طریقے سے بنائی جاتی تھیں اور اس میں مضرِ صحت کم سے کم مواد شامل ہوتا تھا لیکن جیسے جیسے لوگ دیسی اشیاءسے دور ، جراثیموں سے ڈرنے اور اپنے آپ کو ماڈرن تصور کرنے لگے ویسے ویسے دیسی مٹھایاں کم ہوتی گئیں اور رنگ برنگی ولائیتی مٹھائیوں رس گلے، گلاب جامن، موتی چور، بنگالی رس گلے،پتیسہ، قلاقند، میسو، رس ملائی، امرتی،اور بالوشاہی نے اپنی جگی بنانا شروع کردی اور آہستہ آہستہ دکانیں گوداموں میں اور گودام فیکٹریوں میں تبدیل ہوتے گئے اور مٹھائی سویٹس ہونے کے ساتھ ساتھ انڈسٹری کا درجہ اختیار کرگئی بڑے بڑے گروپ اس میں شامل ہوگئے لاکھوں روپے صرف اپنی پروڈکٹس کی ایڈورٹائزنگ کے لیے خرچ کرنا شروع کردیے اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے لاکھوں روپے شاپس کی ڈیکوریشن پر لگا دیے عملے کی وردی کا منفرد ڈیزائن اپنے ڈبوِں کی ساخت اور گتے کی بجائے سٹیل کے ڈبے متعارف کروادیے گئے سیل پرموشن کے لیے کاو¿نٹر پر لڑکیاں بٹھا دی گئیں ایسے ایسے کلرز سویٹس میں شامل کیے گئے کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جائیں۔ برقی قمقموں سے سجی وسیع و عریض دکانوں میں شیشے کے شوکیسوں میں سجی رنگ برنگی مٹھائیاں دیکھ کر شاید ہی کوئی بندہ ہو جس کے منہ میں پانی نہیں آتا دیکھتے ہی جی چاہتا ہے کہ بندہ ساری کی ساری مٹھائی کھا جائے اور باقی اٹھا کر گھر لےجائے ۔
سب کچھ اپنی جگہ لیکن کیا کبھی کسی نے ان مٹھائیوں کے بنانے کا طریقہ کار دیکھا ہے بنانے والے ورکررز کی صفائی ستھرائی کے بارے میں سوچا ہے وہ فیکٹریاں یا گودام جہاں سویٹس بنائی جاتی ہے دیکھنے کی زحمت گوارا کی ہے بالکل نہیں کہ ہوگی کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ وہ جاکر دیکھے اور اگر وقت ہوبھی تو ہم صرف وہی دیکھتے ہیں جو ہمیں دکھانے والا دکھاتا ہے ہم اپنی مرضی سے کچھ نہیں دیکھتے ہم نے صرف یہی دیکھا ہے کہ صاف ستھری وردی میں ملبوس رنگ برنگی کیپس پہنے لڑکے لڑکیاں آنے والے کو ویلکم اور جانے والے کو بائے سر کہتے ہیں اور مٹھائی دیتے وقت پلاسٹک گلوز استعمال کرتے ہیں سٹین لیس سٹیل کا پرنٹڈ ڈبہ خوبصورت اور چمچماتے شاپر بیگ میں ڈال کر گاڑی تک چھوڑنے جاتے ہیں اس لیے ہم یہی سوچتے ہیں کہ جتنی صفائی کا اہتمام یہ لوگ آو¿ٹ لیٹ پر کرتے ہیں ایسا ہی اہتمام یہ فیکٹری یا گودام میں کرتے ہونگے یہی ہماری خام خیالی ہے ایسا بالکل نہیں ہے میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ اچھی سے اچھی سویٹس کے گودام یا فیکٹری میں چلے جائیں حالات دکان یا آو¿ٹ لٹ سے بالکل الٹ ہونگے گاہے بگاہے ٹی وی چینلز بھی ہمیں آگاہ کرتے رہتے ہیں اور کئی ڈاکومنٹریز بھی چینلز اور ویب چینلز پر موجود ہیں لیکن ہم ہیں کہ ٹس سے مس ہی نہیں ہورہے سب کا مٹھائی بنانے کا الگ الگ طریقہ کار ہے بیچنے کا اپنا انداز ہے الگ پہچان اور الگ الگ ذائقے ہیں حتیٰ کہ ریٹ بھی الگ الگ ہیں لیکن ایک ہے تو وہ صرف اور صرف ان کے کارخانوں کی حالتِ زار انیس بیس کافرق تو ہوسکتاہے اس سے زیادہ کا نہیں میں یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی بھی صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتا کچھ لوگ ضرور ایسے ہونگے جو صفائی کا بہت خیال رکھتے ہونگے لیکن وہاں پر بھی حالات سو فیصد درست نہیں ہونگے. فوڈ کلر سے ہٹ کر کپڑا رنگنے والے کلر اور خطرناک کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں جو مضرِصحت ہیں صرف اپنی پراڈکٹ کی انفرادیت اور خوبصورتی کے لیے لوگوں کی جانوں سے کھیلا جارہا ہے۔نہ تو ہم میں سے کسی نے یہ سب جاننے کی زحمت گوارا کی کہ یہ لوگ مٹھائی بناتے ہوئے حفظان صحت کے اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہیں یا نہیں اور نہ ہی محکمہ فوڈز نے کوئی خاص توجہ دی وہ بھی فرضی کاروائی ڈال کر چپ سادھ لیتے ہیں اور چھ چھ مہینے تک آنے والے نذرانوں سے عیش وعشرت کی زندگی گزارتے رہتے ہیں ہاں اس وقت کاروائی بھی کرتے ہیں جب ان کا حصہ پورا نہیں پنہچتا یا لیٹ ہوجاتا ہے تو محکمہ پھرتی بھی دکھاتا ہے اور اس بندے کو بے نقاب بھی کرتا ہے دکان سیل کردی جاتی ہے اور اس کے بعد مک مکا کرکے دوبارہ سیل شروع کردی جاتی ہے حالانکہ دکان کی بجائے گودام اور فیکٹری سیل ہونی چاہیے اور ایسے بندے کو جو انسانی جانوں سے کھیل رہا ہے کڑی سے کڑی سزا دینی چاہیے اور سیل کی جانے والی فیکٹری / کارخانہ یا گودام دوبارہ کسی صورت کھلنا نہیں چاہیے اور محکمہ فوڈ کو آگاہی مہم چلانی چاہیے اور لوگوں میں اس بات کا شعور بیدار کرنا چاہیے کہ لوگ مٹھائیاں خریدنے سے پہلے ان کے بنانے کے طریقہ کار کو دیکھنے کی ضد کریں اور اور دکاندار کا ایسا صاف ستھرا نظام ہو کہ وہ کسی کوبھی مٹھائی بنتے ہوئے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دکھا سکے تھوڑی سی توجہ سے بہت ساری بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کیاجاسکتا ہے مٹھائی بنانے والوں کا سب سے مین مسئلہ جگہ کی کمی دیکھی گئی ہے کم جگہ میں سارا مال تیار کرنا اور بنانے والے کاریگروں کی مناسب رہائش کا بندوبست نہ ہونا ان کی صفائی ستھرائی میں سب سے بڑی رکاوٹ نظر آتی ہے مٹھائی بناکر لاکھوں روپے کمانے والے حضرات کاریگر رکھ لیتے ہیں مگر ان کو رہائش دینا گوارا نہیں کرتے مجبوراً انہیں وہیں سونا پڑتا ہے کھانا پینا واش روم وہیں سب کچھ کیڑے مکوڑے کو بھگانے کے لیے کسی سپرے وغیرہ کا کوئی انتظام موجود نہیں ہوتا اس لیے حشرات الارض کی بھرمار ہوتی ہے ایسی جگہوں پر ان کو سپروائز کرنے کے لیے بھی کوئی نہیں ہوتا کم ازکم چھوٹے پیمانے یا چھوٹے شہروں میں جہاں کام زیادہ ہوتا ہے اور کاریگر کم ہوتے ہیں. وہاں میدہ وغیرہ گوندھنے کے لیے ہاتھوں کی بجائے پاو¿ں استعمال کیے جاتے ہیں اور پسینے سے شرابور کاریگر وہ کچھ ہمیں کھلا دیتا ہے جس کاہم نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔اور اس کے علاوہ صفائی کے لیے الگ سے کوئی بندہ بھی رکھنا گورا نہیں کیا جاتا اور نہ ان کے لباس وغیرہ پر توجہ دی جاتی ہے دن رات کام کرنے والے یہ مٹھائی کے کاریگر تھک ہار کر وہیں سو جاتے ہیں اور اٹھتے ہی ہلکی پھلکی صفائی کرکے دوبارہ اسی کام میں جت جاتے ہیں کیونکہ وہاں عام آدمی جا نہیں سکتا وہ ہوتے ہیں یا ان جیسے دوسرے لوگ جو مخصوص وقت میں آ کر مٹھائی لے جاتے ہیں مکھی، مچھر، چھپکلی، حتیٰ کہ چوہے تک شیرے میں دوڑنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں لیکن ہم پھر بھی رنگ برنگی مہنگی سے مہنگی سویٹس اپنے پیاروں کے لیے خرید رہے ہیں اور بلا جھجک کھابھی رہے ہیں .مٹھائی ضرور کھائیے لیکن کوشش کریں کہ ایسی مٹھائی استعمال کریں جو آپ کے سامنے بن رہی ہے یا جس کو آپ بنتے دیکھ سکتے ہیں اور صرف دیسی مٹھائی ہی ہوسکتی ہے جس میں جلیبی، برفی اور لڈو وغیرہ شامل ہیں سامنے بننے والی اشیاءکی صفائی ستھرائی کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے. اگر آپ بھی تندرست رہنا چاہتے ہیں تو بازاری اشیاءسے پرہیز کریں یا کم سے کم استعمال کریں.

حصہ

جواب چھوڑ دیں