سوشل میڈیاکےمثبت اورمنفی اثرات

پچهلی چند دہائیوں میں جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا بهر کے لوگ ایک دوسرے سے نزدیک  آگئے ہیں،اب فاصلوں کی دوری کوئی بڑی بات نہیں رہی۔ جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی تعلقات کی نت نئی شکلیں  پیدا کر کے ان کے دائرے کو وسیع کردیا ہے.2000 کے بعد انٹرنیٹ کی دنیا میں کچھ ایسی ویب سائٹس سامنے آئیں،جنہوں نے نہ صرف لوگوں کو ایک دوسرے سے  قریب کردیا بلکہ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے کو بهی ختم کردیا، فیس بک،ٹوئٹر، انسٹاگرام،واٹس ایپ اور دیگر اسنیپ چیٹ جیسی سائٹس نے مرد جواتین،نوجوان اور بوڑھوں کے ساتھ بچوں کو بهی اپنا گرویدہ بنا لیا ہے، لیکن ہمیں یہ چیز نہیں بهولنی چاہیئے  کہ جہاں کسی چیز کے فوائد ہوتے ہیں وہاں نقصانات بهی ہوتے ہیں ۔

ہم سوشل میڈیا سے ایسی بری طرح جڑ گئے ہیں کہ اب دن کا فارغ حصہ بهی اسی سرگرمیوں میں گزار دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا  سے جہاں ہم اچهے مقاصد سرانجام دے سکتے ہیں وہاں  اس کے نقصانات بهی موجود ہیں۔ سوشل میڈیا  ہمیں بہت سی ایسی معلومات فراہم کرتا ہے جو کہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر نہیں دکهائی دیتے  لیکن زیادہ تر  سوشل میڈیا پر معلومات  درست نہیں ہوتیں  کیونکہ اس میں تصدیق نہیں  ہوتی،جوکہ عوام کو  غلط معلومات فراہم کرتی ہے  اور عوام اس پر یقین بهی کرلیتے ہیں۔ بہت سے جعلی اکاوئنٹس بنا کر لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے، بے حیائی کا کهلے عام اظہار،بے معنی، غیر شائستہ اور بے ہودہ زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا جہاں آزادی ہے وہیں نا تجربہ کار لوگوں کا غلط استعمال بهی ہے۔جب اسے اچهے طریقے سے استعمال نہیں کر پاتے  تو غیر اخلاقی سرگرمیوں کا حصہ بن جاتے ہیں اور  نہ صرف  وقت ضائع کرتے ہیں بلکہ  خود کو بهی  کسی قابل نہیں چهوڑتے۔شخصی آزادی کا غلط  استعمال بڑھ گیا ہے. جس کا جو دل چاہتا ہے  وہ شیئر  کردیتا ہے بغیر تصدیق کیے۔

سوشل میڈیا نے جہاں ہماری زندگی کو آسان بنادیا ہے اور معاشرے اور لوگوں پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں وہاں اس کے منفی اثرات بهی دیکهنے میں آئے ہیں۔جدید سائنس نے جہاں ہمارے لئے بے شمار آسانیاں  پیدا کی ہیں  وہاں بہت سی مشکلات کو بهی جنم دیا ہے۔سوشل میڈیا پر ایک اور فتنہ بڑی تیزی سے وائرل ہورہا ہے،بہت سے لوگ بحوالہ حدیث لکھ کر بھیجتے ہیں اور نیچے لکھا ہوتا ہے کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس حدیث کو آگے شیئر کرےگا، اس کے اوپر جنت واجب ہے، واضح رہے کہ کسی بھی حدیث کے نیچے اس طرح کے لکھے جملے منقول نہیں ہیں۔

کوئی بھی چیز خود بری نہیں ہوتی اس کا استعمال کرنے کا طریقہ اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔فیس بک کو بعض لوگ اچھے کاموں کے لیئے بھی استعمال کر رہے ہیں جیسے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو فیس بک اور واٹس اپ، اسکائپ پر آن لائن قرآن پاک پڑھاتے ہیں۔ مختلف طرح کے کورس بھی سیکھتے ہیں۔ بہت سی ایسی ویب سائٹ ہیں جن میں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے غرضیکہ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کسی بھی چیز کا استعمال مثبت کریں یا غلط کریں۔ رابطے بہت بڑھ گئے مگر میل جول ختم ہوچکا ہے۔ یہ کسی ایک گھرانے کا قصہ نہیں بلکہ تقریبا ً گھر گھر کی یہی کہانی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ انسانی نفسیاتی اور سماجی قدریں داؤ پر ہی لگ گئی ہیں۔انٹر نیٹ ٹیکنالوجی کے فوائد تو صحیح لیکن اس کے بے تحاشا استعمال نے اپنوں سے اپنائیت چھین لی ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں