دوسری عورت

ہانیہ 2 سال کی تھی جب اُس کی ماں کا انتقال ہو گیا، باپ نے دوسری شادی کر لی کیونکہ اس وقت ہانیہ کو ماں اور گھر کو ایک عورت کی ضرورت تھی۔
کیونکہ شاید کوئی کام والی ہانیہ کی دیکھ بھال اس طرح سے نہ کر پاتی،جیسے کہ ماں کر سکتی تھی۔
یوں ہانیہ کو بچپن میں ماں کا پیار مل گیا اور ہانیہ کے بابا کو ان کا خیال رکھنے والی بیوی(فرہین بیگم)۔
مگر جب ہانیہ بڑی ہوئی اور اس کے سوتیلے بہن بھائی اس کو کم پڑھی لکھی ھونے اور شکل و صورت میں ان سے کم تر ہونے کے طعنے دینے لگے ان کا سلوک ہانیہ کے ساتھ بالکل بھی اچھا نہ تھا اُس کی ہر چیز اُس سے چھین لی جاتی۔(حتیٰ کہ اُسکے حصے کا پیار بھی)اور ہانیہ کی سوتیلی ماں جو بچپن میں اسے اپنی بیٹی کی طرح پیار کرتی تھی اب وہ بھی بدل چکی تھی، آخر کار اپنا خون اپنا ہی ہوتا ھے،اور ہانیہ کونسا اُن کی سَگی اولاد تھی۔
ہانیہ نے ایف۔اے کیا تھا، جبکہ ہانیہ کے تینوں سوتیلے بہن بھائی کالج اور یونیورسٹی جاتے تھے۔ علینا(جو کہ سب سے چھوٹی تھی) نے 3rd Year میں ایڈمیشن لیا تھا آکسفورڈ یونیورسٹی میں،جبکہ صارِم اور ایشل(جو کہ جُڑواں تھے) ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے، ڈاکٹری کی ڈگری ملنے میں بس ایک ہی سال باقی تھا۔
ہانیہ نے کبھی اُنہیں سوتیلا نہ سمجھا بلکہ وہ تو انہیں اپنے سگوں سے بڑھ کر چاہتی تھی، چھوٹا مان کر ان کی ہر غلطی کو نظرانداز کر دیتی۔ اور اُس کے بابا جان بھی اُسے یہی سمجھاتے کہ معاف کرنے والا ہی خدا کے نزدیک ھے، اور وہ ہر بار یہی سوچ کر بڑے پَن کا مظاہرہ کرتی۔
ہانیہ علینا کے ساتھ سوتی تھی، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب رہے گا کہ جو کمرہ ہانیہ کا تھا وہ اب اس کا اکیلے کا نہیں بلکہ علینا کا بھی تھا جو کہ اُس کی سوتیلی بہن تھی۔
یوں اس نے دو سال کی عمر میں ماں کو کھو دینے کے بعد باپ کے پیار کو بھی کہیں دوسرے رشتوں میں بنٹتے دیکھا۔
رشتے والی نے بتایا کہ دبئی کا کوئی لڑکا ھے یہاں (پاکستان) شادی کا خواہشمند ھے، دُبئی کا نام تو جیسے سُنتے ہی فرہین بیگم کے رال ٹپکنے لگے، جھٹ سے ھاں کر دی!!۔۔۔۔۔۔
ظہور میاں’……ہانیہ کیلئے رشتہ آیا ھے لوگ کافی سلجھے، پڑھے لکھے اور سب سے بڑھ کر پیسے والے ھیں،
ماشاء اللہ بہت ہی نیک اور شریف لڑکا ھے دُبئی میں ان کا ذاتی گولڈ کا بزنس ھے اور اپنی ہانیہ بیٹی تو راج کرے گی راج… (جہاں اس بات میں پچاس فیصد سچائی تھیں وہیں بقایاپچاس فیصد فرہین بیگم نے بات کو بڑھا چڑھا کر ہانیہ کے باپ کے آگے پیش کیا)۔
ھاں تو ٹھیک ھے نا اب میں تو عورتوں کی باتوں میں نہیں بول سکتاہانیہ تمھاری بھی بیٹی ہے جو تمھیں بہتر لگے دیکھ لو، بعد میں مَیں بھی مل لوں گا۔
شادی تو کرنی ہی ھے ہانیہ کی، تم دیکھ لو جو مناسب لگے پھر انہیں کسی روز گھر بلا لو چائے پر……
فرہن بیگم نے خوشی…. ھاں جی ٹھیک ھے!!!
ظاہر ھے ہانیہ کے بعد فرہین بیگم نے اپنی سگی اولاد کو بھی تو بیاہنا تھا آخر کب تک اُسکا بوجھ اُٹھاتیں۔
کچھ دن بعد لڑکے والوں کو گھر بلوایا گیا….
لڑکا چونکہ ابھی دُبئی سے نہیں آیا تھا اس لئے اس کی خالہ اور ماں ہی آئیں تھیں، ان کے سامنے فرہین بیگم نے ہانیہ کو بھی بلایا، حالانکہ انہیں ہانیہ میں کوئی دلچسپی نہ تھی یہ تو ہانیہ کی ماں کی ہی ضد تھی کہ ایک بار ہانیہ سے بھی ملاقات ہو جائے تو بہتر، اُنہوں نے ہانیہ کو دیکھتے ہی پسند کر لیا کیونکہ وہ کافی سُگھڑ اور کام کاجی لڑکی تھی آج کے دور کی لڑکیوں سے کافی مختلف۔
بغیر کسی انتظار کے لڑکے کی اماں نے بٹوے سے انگوٹھی نکال کر ہانیہ کو پہنا دی، یُوں منگنی کی رسم موقع پر ہی ادا کر دی گئی، اور لڑکے والوں کے اسرار پر جمعے کو نکاح کی تاریخ طے پائی۔
بدھ کو لڑکے نے آنا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ جلد از جلد رُخصتی ہو جائے کیونکہ لڑکا(سرمد) دو مہینے کی چھٹی پاکستان آ رہا تھا۔
ہانیہ کی رُخصتی چار بندوں کی موجودگی میں سادگی سے نکاح پڑھوا کر کر دی گئی، وہ کمرے میں سجی سنوری دلہن کے جوڑے میں،چہرے پر گھونگھٹ ڈالے بیڈ پر بیٹھی تھی………….
کمرے کا دروازہ ایک بار ہلکا سا کٹھکٹانے کے بعد دُلھے میاں کمرے میں داخل ھوئے..
پہلے تو رسمی سے چند اک جملوں میں ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اُس کی تعریفیں کی گئیں، اور پھر اگلے ہی لمحے ہانیہ پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔۔۔
”ہانیہ تم واقعی بہت اچھی ہو اور خوبصورت بھی، مگر میں پہلے سے ہی شادی شُدہ ہوں میری بیوی بھی دُبئی کی ہی ھے، وہ پاکستان نہیں آنا چاہتی تھی اس لیے امی کہ خواہش تھی کہ میں پاکستان میں شادی کروں، اور انہیں تم پسند آ گئی……….
ہانیہ….. نے ہڑبڑاہٹ اور پریشانی میں اپنے سر پر سجے دوپٹے کو اُتار کر نیچے پھینک دیا، اور ہونٹوں پر لدی سرخی انگلیوں کے پوروں سے مَسل دی۔
سرمد نے جونہی اپنا ھاتھ ہانیہ کیطرف بڑھایا تو ہانیہ نے اُسے پیچھے جھٹک دیا….
دیکھو ہانیہ میں چاہتا تو یہ سب تم سے چھپا سکتا تھا مگر میں مزید تمھیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا….
سرمد کے تمام الفاظ اس وقت ہانیہ کو سوئیوں کی طرح چُبھ رہے تھے۔ ہانیہ نے اپنے بابا کو فون کر دیا…
اور صوفے سے چپک کر زمین پر بیٹھ کر رونے لگی، اُس کی سسکیوں میں ڈوبی آواز سن کر وہ فوراً سے وہاں پہنچ گئے۔
وہاں پہنچتے ہی ہانیہ اپنے باباجان سے لپٹ کر رونے لگی، تمام صورتحال جاننے کے بعد ہانیہ کی ماں نے اُسے سمجھایا کہ جلدبازی سے کام نہ لے جو ہونا تھا سو ھو گیا مگر ہانیہ نے اُن کی ایک نہ سنی اور وہاں رہنے سے انکار کر دیا، یوں مجبوراً سرمد کو ہانیہ کو طلاق دینی پڑی۔
ہانیہ کے واپس گھر لوٹنے کے بعد فرہین بیگم کا رویہ اس کے ساتھ مزید بدتر ھو گیا۔ فرہین بیگم کو اب ہانیہ ایک آنکھ نہ بھاتی تھی، وہ ہر وقت اُسے جلی کٹی سناتیں رہتیں…….. اور ہر وقت ساس کی طرح طعنے دے کر کوستی رہتیں،
کہ تم خود غرض ہو اور کچھ نہیں تو اپنی جوان بہنوں کا ہی خیال کر لیتی شادی والی رات ہی طلاق لے کر بیٹھ گئی، اب اُن سے کون کرے گا شادی……
تب پہلی بار ہانیہ کو اپنی ماں کی شدت سے یاد آئی تھی، کیونکہ اگر یہاں اُسکی سگی ماں ہوتی تو کبھی یہ سب نا کہتی اُسے۔
عِدت پوری ہوتے ہی فرہین بیگم نے رشتے والی کو گھر بلوا کر پانچ ہزار ہاتھ پر ڈالے اور کہا کہ کوئی اچھا سا رشتہ ڈھونڈ کر لائے بیشک رنڈوا ہی کیوں نہ ہو۔
ہفتے بھر میں رشتے والی اپنے ساتھ ایک عورت کو لے کر آئی اُس نے اپنے بیٹے(جنید) کیلئے ہانیہ کو پسند کر لیا، جُنید کی پہلی بیوی (نورِ فلک) کو کینسر تھا شادی کے 3 سال بعد ہی وہ چل بسی تھی۔
خیر اس بار بھی ہانیہ کی شادی اس کی خاموشی کو ھاں سمجھ کر کر دی گئی، کم سے کم اس بار ہانیہ یہ تو پہلے سے جانتی تھی جنید کی زندگی میں آنے والی وہ پہلی عورت نہیں ھے۔اُس سے کچھ بھی چھپایا نہیں گیا تھا اور پھر جنید بھی اُس کیلئے واقعی ایک اچھا شوہر ثابت ہوا تھا۔
یوں اس نے اپنی زندگی میں سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا تھا……. کیونکہ وہ جان چکی تھی کہ اس کی قسمت میں کسی کا پہلا پیار بننا تھا ہی نہیں ۔۔۔!

حصہ

جواب چھوڑ دیں