اولڈ سے ماڈرن ازم کا سفر

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ جہاں آج کل دودھ خالص نہیں ملتا وہاں پرانے وقتوں میں دور پار کے رشتے بھی خالص،مخلص اور سچے ہوا کرتے تھے لوگوں میں لحاظ اور شرم رشتوں میں مضبوطی کی سب سے بڑی وجہ تھی۔بڑوں کا مان ان کا ادب ہی سب کچھ تھا۔ایک وہ لوگ تھے ایک ہم لوگ ہیں کہ وقت کی رفتار میں اندھا دھند بھاگتے اس دور سے اس دور کا سفر بہت تیزی سے طے کر گئے ہیں، یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ ، ہم سچ سے جھوٹ کی طرف، ایمانداری سے بے ایمانی کی طرف، حلال سے حرام کی طرف، شرم سے بے حیائی کی طرف ، ادب سے بے بے ادبی کی طرف، قناعت سے لالچ کی طرف ،خالص سے ملاوٹ کی طرف، اعتبار سے دھوکے کی طرف، اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ بڑھتے ہی چلے گئے ہیں اور ان باتوں میں پوری طرح مہارت بھی حاصل کر چکے ہیں ، جی ہاں یہ بات کہنے میں ہمیں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی کہ ہم ترقی کر چکے ہیں، پہلے وقتوں میں لوگوں کے گھروں میں سامان سمیت ان کی عزتیں بھی محفوظ تھی جبکہ آج کل ہماری مسجدوں میں جوتوں کی کوئی گارنٹی نہیں رہی (مین ہول) کے ڈھکن تک غائب ہوجاتے یہاں تک کہ بازاروں میں رکھے گئے پانی کی ڈرم کے ساتھ زنجیر سے بندھے معمولی پلاسٹک کے گلاس بھی ہمارے باشعور ہونے کی اعلی مثال ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ جہاں ہماری روایتی اقدار،ہماری ثقافت ہماری عزتوں کی کوئی ضمانت نہیں رہی وہاں ہماری عادات واطوار کیا اس قابل ہیں جو ہمیں عالم اسلام اور پوری دنیا کے سامنے ایک مہذب قوم کے مہذب شہری ظاہر کر پائے؟ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ اور مثالی معاشرہ دے رہے ہیں؟ بحیثیت ایک قوم ایک فرد کیا ہم تمام اعتراضات حکومت کے سر ڈال کے بری الذمہ ہوسکتے ہیں کیا ہم عوام کا کوئی فرض نہیں کہ ہر بندہ اپنا کام احسن طریقے سے ادا کرے اور بنائے گئے قوانین کی مکمل پاسداری کرے ۔ملک میں پھیلی بدامنی کی روک تھام کیلئے بہتر سے بہتر حکمت عملی کرسکے۔۔کیا بازاروں میں عورتوں کو گھورنے والے مرد اپنے بیٹوں کی تربیت ایسی کر پاتے ہیں کہ وہ دوسروں کی بیٹیوں کو عزت دے، کہتے ہیں بچوں کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہے ، پہلے مائیں سارا وقت بچوں کی تربیت میں لگا دیتی تھی آج کل روتے بچوں کو ریمورٹ یا موبائل دے کے بہلا دیا جاتا ہے ۔پہلے کتابیں کم اور ادب ذیادہ ہوتا تھا،اب کتابوں کا بوجھ اٹھایا نہیں جاتا اور ادب لفظ سے بھی نا واقف ہو چکے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ہمارے ملک کے نوجوان دوسروں کی ماؤں اور بیٹیوں کو اپنی مائیں اور بہنیں سمجھیں تو ملک میں 80% جرائم اور بے راہ روی کا ویسے ہی خاتمہ ہو جائے گا پر بات ساری ماں کی تربیت کی ہے وہ ایک ماں کی تربیت ہی تھی جس نے شیخ عبدالقادر جیلانی کو ولی بنا دیا، آج ہم جس مقام پہ کھڑے ہیں جس ماڈرن ازم کی طرف چل نکلے ہیں جس بے راہ روی کا شکار ہو چکے ہیں اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے دماغوں کو مثبت سوچ کی راہوں پہ گامزن کریں ،شدت پسندی سے خود کو بچائیں ، گلی محلوں میں کوڑا کرکٹ کی لڑائی پہ ایک دوسرے کے جانی دشمن نہ بن جائیں۔۔ امیر طبقہ غریبوں کو بھی انسان سمجھے بے جا نمود و نمائش سے کسی کی دل آزاری نہ ہو، پیسوں کی لالچ میں اتنے اندھے نہ بن جائیں کہ چور اور ڈکیت بن کے اپنا مستقبل تباہ کر لیں ، ایک مثبت سوچ رکھنے والا شخص ایک گھر پر اور ایک گھر کئی گھرانوں پہ اور گھرانے مل کے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہم اکیلے کیا کر سکتے ہیں، یہ نہ سوچیں بلکہ یہ سوچیں کہ ایک بہتر معاشرے کی تخلیق میں آپ نے کیا کردار ادا کرنا ہے جو دوسروں کے لئے مثال بنے جیسے کہ عبدالستار ایدھی کا نام رہتی دنیا کے لئے مثال ہے، دنیا میں آئے ہیں تو موت بر حق ہے کیوں نہ ایسا کام کیا جائے کہ زندگی میں بھی لوگ فائدہ اٹھائیں اور مرنے کے بعد بھی دلوں میں زندہ رہے، بیشک یہی انسان کی اصل کامیابی ہے۔ ذرا نہیں مکمل ٹھنڈے دماغ سوچئے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں