آم کے آم………گٹھلیوں کے

نماز جمعہ کے خطبہ میں خطیب تقریر کر رہا تھا ۔ مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے ایک حرف کے بدلے دس نیکیاں رکھی ہیں۔اگر تم نیک کام کرو گے تو تمہیں آخرت میں جنت سے نوازا جائے گا جہاں حوریں ہوں گی۔ دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی اور جنت کی زندگی ہمیشہ قائم رہے گی وغیرہ وغیرہ………مولوی صاحب کی تقریر کا سامعین پر گہرا اثر ہورہا تھا اور سب کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ جنت کے خواہش مند ہیں اور وہ مولوی صاحب کی ہدایات پر عمل کریں گے اور زیادہ سے زیادہ نیک کام کر کے جنت میں گھر بنائیں گے۔ اسی طرح مسجد کے چندہ جمع کرنے کے وقت بھی کچھ ایسے ہی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں اور جنت کی بشارت دی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیک اعمال کے بدلے میں اللہ جل شانہ‘ اپنے بندوں کو ابدی زندگی میں جنت سے نوازیں گے اور برے اعمال کے بدلے میں دوزخ میں ڈالیں گے۔ جنت اور جہنم ہمارے ایمان کا حصہ ہیں اور ان دونوں پر ایمان لانے کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
ہم ذرا غور کریں تو ہم میں سے ہر کوئی نماز پڑھتا ہے تو جنت کے لیے، روزہ رکھتا ہے تو جنت کے لیے، کوئی بھی نیک عمل کرتا ہے تو جنت کے لیے، خیرات کرتا ہے تو جنت کے لیے۔ اور برائی سے رکتا ہے تو جہنم کے خوف سے، جھوٹ نہیں بولتا تو جہنم کے خوف سے، چوری چکاری یا رشوت نہیں لیتا تو جہنم کے خوف سے۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم کوئی بھی عمل کریں یا وہ جنت کے لالچ میں کرتے ہیں یا جہنم کے خوف سے برے کاموں سے رکتے ہیں۔ تو ہماری یہ ساری زندگی ہی لالچ پر مبنی نظر آتی ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے بلکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہم کوئی بھی نیک عمل خدا کی خوشنودی کے لیے نہیں کرتے بلکہ جنت کے حصول کے لیے ہی کرتے ہیں حالانکہ ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا کہ ہماری عبادت یا نیک عمل اللہ تعالیٰ نے قبول بھی کر لیا ہے۔ جنت تو تب ہی ملے گی نا جب اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ اپنی بارگاہ میں ہمارے اعمال کو قبول فرمائے گا اور اس نے ہمارے نیک اعمال رد کر دیے اور ہماری نمازیں ہمارے منہ پر دے ماریں تو کیا کریں گے؟
ایک بار ہمارے آقا کریم ﷺ سے ایک صحابیؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے اپنا نیا مکان تعمیر کیا ہے آپ وہاں قدم رنجہ فرمائیں تاکہ خیر و برکت ہو۔ آپ ﷺ نے قبولیت بخشی اور ان صحابیؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ مکان کا معائنہ کرتے ہوئے آپ ﷺ کی نظر ایک کمرے میں روشن دان پرپڑی تو آپ ﷺ نے صحابی سے دریافت فرمایا کہ یہ سوراخ کیوں رکھا ہے تو صحابیؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ اس میں سے ہوا اور روشنی کمرے میں آئے گی۔ آپﷺ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تو یہ کہہ دیتا کہ اس سوراخ سے اذان کی آواز آئے گی تو جب تک یہ روشن دان قائم رہتا تمہیں ثواب ملتا رہتا اور ہوا اور روشنی تو پھر بھی آتی ہی رہتی۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر ہم نماز خالصتاً اللہ کی خوشنودی اور رضا کے لیے قائم کریں ، روزہ اللہ کی رضا کے لیے رکھیں حج کو اللہ کا حکم سمجھ کر ادا کریں، زکوٰۃ اللہ کے حکم کے مطابق اداکریں، دوسروں کی مدد اللہ کی خوشنودی کے لیے کریں، کوئی بھی نیک عمل کرتے ہوئے نیت یہ ہو کہ اللہ نے اس کام کا حکم دیا ہے اور میں اس کے حکم کی بجا آوری کے لیے یہ نیک عمل کررہا ہوں تو پھر اللہ جل شانہ‘ ہماری نمازیں ہمارے منہ پر بھی نہیں مارے گا بلکہ ہمارے تمام نیک اعمال اپنی بارگاہ میں قبول بھی فرمائے گا۔ اسی طرح کسی بھی برائی کا ارتکاب کرنے سے پہلے اس برائی سے اس لیے رک جاؤ کہ اللہ نے اس کام سے منع فرمایا ہے اور اس کام کے کرنے سے اللہ ناراض ہو جائے گا تو یقین رکھیں کہ اس خوف خدا کے عوض بھی نیکیاں نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی اور دوزخ کی آگ تو صرف اللہ کے خوف کی وجہ سے ہی حرام ہو جائے گی باقی رہی بات جنت کی تو جنت تو پھر پکی ہوئی نا کہ جب اللہ نے ہمارے نیک اعمال قبول کرلیے تو اس کے بدلے میں اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے تو جنت تو ضرور ملے گی لیکن اگر ہم نیکیاں صرف جنت کے حصول کے لیے ہی کریں گے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وہ نیکیاں اللہ قبول بھی کرتا ہے یا نہیں۔
اس لیے ہمیں کوئی بھی نیک عمل اللہ کی خوشنودی کے لیے کرنا چاہیے اور برائی سے اللہ کے خوف کی وجہ سے رکنا چاہیے نہ کہ جہنم کے خوف سے۔ اس طرح اللہ ہم پر راضی ہوجائے گا اور جب اللہ راضی ہوگیا تو پھر ساری کائنات اس کی ہے جس سے اللہ راضی ہوجائے ورنہ ساری زندگی کی عبادت عبث ہے۔ اگر ہم اللہ کی رضا کے لیے عبادت کریں گے تو اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ یقینی طور پر جنت بھی مل جائے گی۔ اسے کہتے ہیں ’’آم کے آم……. گٹھلیوں کے دام‘‘۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں