درد ناک اذیت 

تم شادی کیوں نہیں کر لیتیں ؟
کیا کروگی آگے کچھ سو چا ہے تم نے ؟
اِس طرح کب تک رہوگی؟ کیسے جیو گی ؟
یہ پڑھائی یہ کتابیں ، یہ سندیں ،نوکری ، یہ سب کب تک چلے گا؟
طلاق لے کر اپنے ماں باپ پر بو جھ بنی ہوئی ہو،لوگ کیا کہیں گے ؟
کبھی سوچا ہے کتنے سوال اُٹھتے ہیں ایسی لڑکیوں پر ؟
اور کچھ نہیں تو یہی سوچ لو کہ کوئی بھی سدا ساتھ نہیں رہتا ۔
ہر کسی کو ایک نہ ایک دن چلے جانا ہے ، اور تم یونہی کب تک کس کے سہارے رہوگی؟
بھائیوں سے اُمید مت رکھنا کہ کل کو وہ تمہیں سنبھالیں گے ۔
یاد رکھنا کوئی کسی کا ساتھ نہیں دیتا اور ہم سب تمہیں تمہارے بھلے کے لیئے ہی سمجھا رہے ہیں ۔
کل کو کوئی سمجھانے والا بھی نہیں ہوگا تو پھر تر سوگی تم ۔
دیکھنا اِس عمر میں کوئی بیاہنے نہیں آئے گا تمہیں ۔
لڑکی کی عمر نکل جائے تو پھر رشتے بھی ایرے غیرے ہی ملتے ہیں ۔
پھر کوئی ایسا ہی ملے گا، جو یا تو خود بھی طلاق یافتہ ہو یا شادی شدہ ،یا پھر بچوں کا باپ ۔
زندگی تنہا گزارنے سے پہلے اِس حقیقت کو سمجھ لو تو بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
یہ کبھی نہ ختم ہونے والے سوالات کی بوچھاڑ عورت کی زندگی کو جہنم بنا دیتی ہے ۔ بے شک یہ دردناک باتیں سمجھانے کے لیئے ہی کی جاتی ہیں لیکن کوئی یہ نہیں جانتا کہ اِس کو سُننے والا کس اذیت سے گزر رہا ہے۔ آخر عورت کے لیے ہی یہ سب کچھ کیوں ؟ کیوں ایک عورت کو ہی ہر امتحان سے گزرنا پڑتا ہے ؟
شادی شدہ ہو یا طلاق یافتہ ، زندگی کی تلخیاں ہمیشہ ایک عورت کا ہی نصیب کیوں بنتی ہیں ؟ کیا عورت کو جینے کا حق نہیں یا پھر مرد کے بغیر جینا گناہ ہے ؟ کیوں ایک عورت کو بوجھ سمجھا جاتا رہا ہے ؟ کیوں آج بھی عورت آزاد ہوکر بھی شخصی آزادی کی محتاج ہے ؟ کیوں ایک طلاق یافتہ کو ایک شادی شدہ مرد ہی بیاہ سکتا ہے ؟ یہ کیسے سوالات ہیں جو کسی بھی حال میں عورت کا پیچھا نہیں چھوڑتے اور سائے کی طرح ساتھ رہتے ہیں ۔کیوں اُسے ذہنی اذیت دی جاتی ہے ؟ اگر ایک عورت اکیلے جینا چاہتی ہے تو اُس سے یہ بے ہودہ باتیں کی جاتیں ہیں ،یہ سب کرنا ہر کسی کے لیئے بہت آسان ہے ،لیکن کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ کوئی عورت خود گھر بسانا کیوں نہیں چاہے گی ؟ کیوں کوئی خود اپنی ذات تک محدود رہنا چاہے گا ؟ یقیناً یہ سب کوئی بھی خوشی سے نہیں کرنا چاہے گا ، کوئی بھی عورت بغیر کسی وجہ کے اپنے لیئے تنہائی منتخب نہیں کرسکتی ،جب ایک لڑکی زندگی کی تلخیوں کو زہر کے گھونٹ کی مانند اپنے حلق سے اُتارتی ہے تو نتیجے میں اُسے اپنے لیئے تنہائی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے ، تاکہ وہ اپنے آنسوؤں کو اپنی ذات تک ہی محدود رکھے ، اپنی روح پر لگے زخموں کو چُھپا سکے۔ ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر کچھ بن جائے اور پھر عام لوگوں کی طرح اُس کی بھی ایک پُر سکون زندگی ہو ،جس میں اپنا گھر ، شریکِ حیات ، اولاد کا ساتھ ہو ، اُن کی ذمے داریاں ہوں ، اُن کی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیئے وہ بھی ایک بامقصد زندگی جیئے ،لیکن جب یہی عورت تنہائی کو زندگی کا ساتھی بنالے تو اِس کی وجہ بھی ایک مرد ہوتا ہے جو اُسے اِس مقام پر لاکر کھڑا کردیتا ہے جہاں وہ خود اپنی ہی ذات میں سمٹ کر رہ جاتی ہے اور لوگوں کے لیئے ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جاتی ہے ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں