باجی جی اپنی جماعت والوں سے کہیے نا ہمارے علاقے میں کنواں کھدوادیں، باجی بہت پریشانی ہے آپ کو ہماری نسلیں دعائیں دیں گی—
صغراں— خولہ کے پاس ہر دوسرے دن اپنا کوئی نہ کوئی دکھڑا لے کر آجاتی— کبھی جہیزبکس —کبھی قرض کبھی علاج کی مد میں— کبھی گھر کی مرمت—
صغراں تم لوگ اتنے مسائل میں رہتے ہو اتنی بڑی برادری ہے اور تمہاری پارٹی تمہارے ہی ووٹوں سے جیتتی ہے پھر بھی تم لوگ بنیادی ضروریات سے محروم ہو—
کیوں۔۔؟
باجی!— بس جی ہماری پارٹی کچھ نہیں کرتی— بس جی ووٹ لیتی ہے، ہمارے باپ دادا انھی کو ووٹ دیتے آرہے ہیں اور باجی ووٹ سے کیا ہوتا ہے— غریبوں کے مسائل تو ویسے ہی رہتے ہیں— باجی الیکشن سے پہلے سندھ سے سائیں جی آتے ہیں ۔خوب دنگل ہوتا ہے۔ ہمیں روز کھانا ملتا ہے۔ گلیاں صاف ہوتی ہیں۔ الیکشن والے دن گاڑی میں بٹھا کر ووٹ ڈلوانے لے جاتے ہیں— جی بس پھر کچھ نہیں باجی– آپ کی جماعت والے تو بہت خدمت کرتے ہیں۔ صغراں نےگویا سچائی سے اعتراف کیا ہو۔
تو تم لوگ کیوں ان کو ووٹ دیتے ہو جو تم لوگوں سے ووٹ مسائل کا خاتمہ کرنے کے لیے مانگتے ہیں لیکن خاتمہ نہیں کرتے آخر کس لیے تم ان کو ووٹ دیتے ہو؟
خولہ نے زچ ہو کر صغراں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
باجی جی—! بات آپ کی صحیح ہے لیکن ووٹ تو ہم اپنوں کو ہی دینگے نا؟
صغراں کا جملہ سنتے ہی خولہ کے تیزی سے مسالہ پیستے ہاتھ رک گئے —اس کے ہاتھوں میں مرچیاں سی بھر گئیں
وہ سوچنے لگی ہم کون ہیں؟؟
— ہم وہ جو ملک بھر میں مفت ہسپتال چلا رہے ہیں۔
— ہم وہ جو ملک بھر میں مفت معیاری تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں۔
— ہم وہ جو یتیموں بیواوں بے سہارا لوگوں کے لیے پناگاہیں بنا رہے ہیں۔
— ہم وہ جو ملک میں آنے والی ہر قدرتی آفات میں پیش پیش ہیں۔
— ہم وہ جو عوام کے اوپر مہنگائی کے تابڑ توڑ حملے کرنے پر سب سے پہلے آواز اٹھانے والے۔
— ہم وہ جو ﷲ اور رسولﷺ کے پیغام کو ملک کے چپے چپے میں پہنچانے والے۔
— ہم وہ جو بنا کسی معاوضے کے فلاح وبہبود کا کام کرنے والے۔
— ہم وہ جو بنا کسی عصبیت کے دشمن سے بھی گلے ملنے والے۔
— ہم وہ جو اس ملک میں آنے والے ہر مسئلے پر اٹھنے کھڑے ہونے والے۔
— کیا ہم اپنے نہیں ہیں؟؟؟
کیا ہم آپ کے نہیں ہیں؟؟؟