بچےکا پہلا تربیتی ادارہ گھرہوتا ہے،ابتدائی تربیت ماں اور باپ دونوں کرتے ہیں۔آج سے تقریباً١٠ سال قبل کی بات ہےکہ والدین بچوں کویہ تربیت دیتے تھے کہ بڑوں کی عزت کرو ،انہیں پلٹ کر جواب نہ دو ،جب کہ آج کل اس کا الٹ ہی ہے والدین خود انہیں یہ سیکھاتے ہیں کہ کوئی تمھیں کچھ بھی کہے تو سامنے سے جواب دےدو۔یہی وجہ ہے کہ پہلے کے بچے ناصرف احترام اور لحاظ کرتے تھے،اس کے ساتھ ساتھ والدین کے فرمانبردار بھی تھے۔
تربیت میں تیزی سے بدلتے ہوۓ رویے کا اہم سبب جدید دور کی بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی ہے۔جس میں سب سے زیادہ کردار موبائل فون کاہے۔نئی نسل کے ہاتھوں میں چھوٹی عمر سے ہی موبائل دے دیے جاتے ہیں جس میں وہ گیمز کھیلتے ہیں،نظمیں سنتے ہیں ۔کسی بھی قسم کی الیکٹرانک اشیاء انسانی دماغ کے لیے نقصان کا باعث ہوتی ہے۔یہ ٹیکنالوجی نئی نسل کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور قابلیت کو متاثر کر رہی ہے۔موبائل میں بچے اتنا مشغول ہوجاتے ہیں کہ بڑوں کی بات پر کان نہیں دھرتے۔ پہلے زمانے کے بچوں کو اب کی نئی نسل سےموازنہ کیا جاۓ تو آج کے بچے سست اور پڑھائی لکھائی سےدور نظر آتے ہیں
بچے کا ذہن چھوٹی عمر میں صاف ہوتا ہے یہ وہ عمر ہوتی ہے کہ جب اسے جو سیکھایا سمجھایا جاۓ تو اس کا ذہن تاعمر اس بات کو تسلیم کر لیتا ہے ۔ ماں باپ اور بڑے بزرگ بچوں کےسامنے کس طرح سے بات کرتے ہیں ،کن الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں ،ان کا اپنوں سے میل جول کیسا ہے یہ سب کچھ تربیت کے زمرے میں آتا ہے۔مثال کے طور پر بچے کو تم سے مخاطب کیا جاۓ تو وہ بھی ہر کسی کو تم سے ہی مخاطب کرے گا تو اس طرح سے اس میں بڑے چھوٹے کی تفریق نہیں ہوگی ۔لہٰذا جب بچے سے بات کرتے وقت اسے آپ سے مخاطب کیا جاۓ گا تو نہ صرف وہ اس لفظ کو کہے گا بلکہ اسکی تربیت بھی بےمثال ہوگی ۔بچے کے سامنے چھوٹے سے چھوٹا لفظ بھی بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
ابتدإ میں تو بچے اپنے گھر یعنی والدین اور بڑوں سے بدتمیزی سے پیش آتے ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ ان کی بدتمیزی بڑھتی چلی جاتی ہے ۔جب اسکول جانا شروع کرتے ہیں تو استاد جو ماں باپ کی جگہ پر ہوتےہیں ان سے بھی بدتمیزی کرتے ہیں یہ سب باتیں گھر سے ہی سیکھائی جاتی ہیں مگر آج کل گھر میں ان باتوں پر روک ٹوک کرنے کی بجاۓ شہ دی جاتی ہے ۔کچھ وقت پہلے ہی کی بات ہے کہ استاد اگر شاگرد کو سزا دیتا یا اسے ڈانٹتا تو جب وہ گھر جاکر بتاتا تو اس کے والدین اس سے یہ کہتے تھے کہ یقیناً تم نے ہی کچھ ایسا کیا ہوگا جو استاد نے تمھیں سزا دی مگر آج کل کے والدین اسکول جاکر کہتے ہیں کہ آپ نے ہمارے بچے کوڈانٹا کیسے، اسے ہاتھ کیسے لگایا یہ وہ باتیں ہیں جو بچے کی تعلیم اور تربیت دونوں پر گہرا اثر ڈالتی ہے ۔ بچے کی ہر شرارت کو نادانی سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیےکیونکہ وہ نادان شرارتیں ہی آگے جا کر اس کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہیں۔مزید یہ کہ والدین کو بچے کی بےجا خواہشات پر رضامند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پھر بچہ ضدی ہوجاتا ہے اور اپنی ہر بات منوانے کی ضد کرتا ہے۔
اہم اور خاص بات تربیت کی جاتی ہے سیکھائی نہیں جاتی ۔بچہ اس وقت تک کسی بات پر عمل نہیں کرے گا جب تک وہ آپ کو یعنی اپنے بڑوں کو کرتے نہیں دیکھے گا ۔مثلاً آپ نماز پڑھتے ہیں تو آپ کو دیکھ کر نماز پڑھتا ہے ،آپ کتاب پڑھتے ہیں تو آپ کو دیکھ کر اس کو بھی کتاب پڑھنے کا شوق ہوتا ہے ۔ایسی بہت سی باتیں ہیں جن پر غور کیا جاۓ تو بچے کی تربیت خودبخود بہتر اور پھر بہترین ہوتی چلی جاۓ گی۔
یہی وجہ ہے کہ پہلے کی تربیت اور اب کی تربیت میں کافی حد تک فرق نظر آتا ہے اگر یہ کہا جاۓ تو غلط نہ ہوگا کہ کہیں نہ کہیں مستقبل کا انحصار تربیت پر ہوتا ہے ۔والدین کو چاہیےکہ بچوں کو بڑوں کا ادب کرنا اور چھوٹوں سے محبت سے بات کرنے کا سلیقہ سیکھا کر انہیں معاشرے کا باعزت شہری بنائیں۔