نا اہل دشمن

پاکستان اور ہندوستان کو علیحدہ ہو ئے ۷۱ برس تو بیت گئے لیکن ان کے درمیان کی کشیدگی جس میں اتار چڑھاؤ تو آئے لیکن کبھی ختم نہیں ہوئی۔پاک بھارت کشیدہ تعلقات دنیا بھر میں مشہور ہیں۔آپس میں ہمسایہ ممالک ہونے کے باوجود بھی دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ اور خفا ہیں ۔دونوں کو ایک دوسرے سے آزادی تو ملی لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ مسائل بھی ورثے میں ملے جو آزادی کے دن سے اب تک طلب حل کے منتظر ہیں ۔بھارت نے پاکستان کو کبھی علیحدہ ریاست قبول کیا ہی نہیں۔جس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب پاکستان ہندوستان سے الگ ہوا اور پاکستان کے پہلے گورنر قائد اعظم محمد علی جناح کراچی آئے تو اس وقت ملک کے خزانے میں کچھ بھی نہیں تھا ، اصل خزانہ تو ریزرو بینک آف انڈیا میں تھا۔ جس میں سے پاکستان کو۴۶کڑوڑ اثاثے کے طور پہ ملنے تھے ، لیکن اس میں سے صرف ۴۲ کڑوڑ دیاگیا اور وہ بھی قسطوں پہ دیا گیا اور باقی یہ کہہ کر دینے سے انکار کر دیا کہ اس روپے سے پاکستان اسلحہ خرید کر بھارت سے جنگ کرے گا۔ یہ تو تھی ابتدائی مسائل کی ایک چھوٹی سی جھلک لیکن ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ آزادجموں کشمیر ہے۔
کشمیر جس کا ۳۴ فیصدانڈیا کے پاس ہے، ۷۳ فیصد پاکستان کے پاس ہے اور بقیہ ۰۲ فیصد چین کے پاس ہے جو 1962 چین اور بھارت کی جنگ کے بعد چین کے حصہ میں آگیا۔کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے جس کا فیصلہ اقوام متحدہ میں چھوڑا گیا ہے جو کہ اب تک جوں کا توں ہی ہے۔جس کی وجہ سے کئی مظلوم کشمیری بھارتی افواج کی جارحیت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔کئی لوگ مارے گئے ،کئی نے اپنے جسمانی اعضاء کو گنوایا اور کئی اب تک زخمی حالتوں میں مبتلا ہیں۔آزاد جموں کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کو تاریخ میں سرفہرست رکھا جائے گا۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کبھی کم ہی نہیں ہوئی تھی لیکن موجودہ دور میں بڑھتی کشیدگی وجہ بنا پلوامہ میں ہونے والا حملہ۔جس میں ۹ افراد سمیت ۴۰ بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔جس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹہرایا گیا۔بھارت ہمیشہ سے ہی کشیدگی میں پہل کی وجہ رہا ہے۔جس کا اندازہ ہم پلوامہ میں ہونے والے حملہ کے ردعمل سے لے سکتے ہیں۔
یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ بھارت کی انتہاپسند اور نااہل سیاسی قیادت کا روز مرہ کا معمول ہے۔ ایسے اشتعال انگیز بیانا ت کو جاری کرنا۔بھارت نے راتوں رات پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی ۔ جو کہ کوئی بھی آزاد ریاست برداشت نہیں کر سکتی ۔ اس لئے پاکستان کی جانب سے لاہور (سیالکوٹ) بارڈر سے بھی جوابی کاروائی کی گئی۔یہ کشیدگی صرف دونوں ممالک کی سرحدوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا تعاقب دونوں جانب کے شہریوں پر بھی ہو رہا ہے۔
اڑتی گولیوں اور برستے بموں کے درمیان بھی پاکستان امن چاہتا ہے اور اسی وجہ پاکستان نے جینیوا کنونشن کے تحت بھارتی پائلٹ کو اس کے ملک کی جانب روانہ کیااور امن کی بھرپور کوشش کی۔ امن کی اس پیشکش کو دشمن ملک پاکستان کی کمزوری سمجھ بیٹھا ہے ۔ لیکن شاید وہ نااہل اور دشمن ملک جو جنگ کے نعرے لگا رہا ہے وہ اس بات سے محروم ہے کہ یہ دونوں ممالک ہی ایٹمی قوتیں ہیں۔جن کے درمیان جنگ یا فوجی تصادم ایک ایسی تباہی لاسکتا ہے جس سے سب سے زیادہ نقصان ہندوستان کو ہی ہوگا ۔ لیکن یہ بات نہ مکار مودی سرکار کو سمجھ آتی ہے اور نہ ہی بھارتی میڈیا کوجو اپنی نااہل سرکار کی بناء پہ جنگ کا مکمل ماحول تیار کئے بیٹھا ہے۔
اس تمام صورتحال میں امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کا جو پاکستا ن کے لئے مثبت ردعمل سامنے آیا ہے خواہ وہ کسی بھی مقصد سے ہو اس سے اندازہ یہ ہواکہ پاکستان اب اکیلا نہیں اور اس کے ترقی کی جانب بڑھتے قدم اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ پاکستان امن اور ترقی چاہتا ہے۔
اب وقت پاکستانی سیاست دانوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے پہ تنقید کرنے سے بہتر ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں یکجا ہوکر مودی سرکا ر کے ناپاک ارادوں کو نست ونابود کریں اور اپنے ایٹمی سسٹم کو مزید مستحکم بنائیں تا کہ اگر اب بھی انڈیا باز نہ آیا تو پاکستان اس بار اپنے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں اور1971 کی جنگ کا بدلہ بھی لے ڈالے گا اور انڈیا کی اس بربادی کا ذمہ دار مکار نریندر مودی ہوگا جس کے ہاتھ کئی بے گناہ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں۔

حصہ
mm
یمنٰی آصف نے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے اور حال ہی میں آئی بی اے سے ذرائع ابلاغ میں ایچ ای سی سے تصدیق شدہ ٹریننگ مکمل کی ہے ،وہ سیاسی اور سماجی مسائل پہ لکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں