بخل رزائلِ اخلاق میں سے ہے۔ یہ کم عقلی اور بد تدبیری کی علامت ہے۔ بخیل انسانوں کے ہاں مبغوض اور اللہ کے ہاں نا پسندیدہ شخص ہے۔ یہ ایک ایسی خصلتِ بدہے جو انسان کی ایک عادت یا زندگی کے ایک پہلو ہی پر اثر نہیں ڈالتی بلکہ اسکی سوچ اور عمل دونوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔ بخل انسان کو اس طرح جکڑ لیتا ہے کہ وہ تمام عمر بلکہ موت کی سرحد تک اس کے اثر سے نکل نہیں پاتا۔
قرآن کریم میں دس (۱۰) مقامات پر واضح انداز میں اور چھ (۶) مقامات پر ضمناً بخل کا ذکر آیا ہے۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
(ومن یبخل فانّما یبخل عن نّفسہط واللہ الغنیّ وانتم الفقرآء ج ) سورۃ محمد، ۳۸
جو بخل کر تا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کر رہا ہے۔ اللہ تو غنی ہے تم ہی اس کے محتاج ہو۔
بخل کے معنی: کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑ لینے، اس کا حریص بننے اور دوسروں سے روک رکھنے کے ہیں۔
بخل میں ’’امساک‘‘ (یعنی کسی چیز کو روک لینا) اور ’’منع‘‘ خرچ نہ کرنے، عطا نہ کرنے کی صفات پائی جاتی ہیں، مزید براں بخیل احسان سے رکنے والا شخص ہے۔
بخل معنی کے لحاظ سے کرم کا عکس ہے۔ کرم کے معنی میں عطیہ، سخاوت اور خرچ کرنا شامل ہے جبکہ بخل میں نہ صرف روکنا بلکہ خرچ کی جگہ پر روک لینا مراد ہیں۔
امام راغب اصفہانی کا قول ہے: ’’بخل ان چیزوں کو روک رکھنے کا نام ہے جسے روکنے کا آپ کو کوئی حق نہ ہو‘‘۔
سورۃ المعارج میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: (واذا مسّہ الخیر منوعاً)
اور جب اسے(انسان کو) خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو روکنے لگتا ہے (بخیل بن جاتا ہے)۔
الجرجانی کا قول ہے: ’’بخل اپنے لئے مال جمع کر نے کا نام ہے‘‘۔
الشحّ: بخل ہی کی صورت ہے مگر اس میں حرص کی شدت اسے بخیل کی عادت ثانیہ بنا دیتی ہے۔ اور شحّ سے بچنے والوں ہی کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: (ومن یوّق شحّ نفسہ فاولائک ھم المفلحون) الحشر، ۹
(اور جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لئے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔)
بخل اورشحّ میں فرق: بخل ہی کی شدید صورت شحّ ہے، بخل انسان دوسروں کے معاملے میں کرتا ہے تو شحّ اپنوں کے معاملے میں بھی بخیلی اور حرص کا نام ہے، جو بخل سے شدید تر ہے، بلکہ خود بخل کی بھی اصل جڑ وہی ہے۔ اسی صفت کی وجہ سے آدمی دوسروں کا حق ماننا اور ادا کرنا تو در کنار، اس کی خوبی تک کا اعتراف کرنے سے جی چراتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں سب کچھ اسی کو مل جائے، اور کسی کو کچھ نہ ملے۔ دوسروں کو خود دینا تو کجا، کوئی دوسرا بھی اگر کسی کو کچھ دے تو اس کا دل دکھتا ہے۔ اس کی حرص کبھی اپنے حق پر قانع نہیں ہوتی، بلکہ وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے، یا کم ازکم دل سے یہ چاہتا ہے کہ اس کے گرد و پیش جو چیز بھی اچھی ہے اسے اپنے لئے سمیٹ لے، اور کسی کے لئے کچھ نہ چھوڑے۔(تفہیم القرآن، جلد پنجم، ۳۹۶)
رسول اللہ ﷺ نے شحّ کو ان بدترین انسانی اوصاف میں شمار کیا ہے جو فساد کی جڑ ہیں۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اتقوا الشحّ فانّ الشّحّ اھلک من قبلکم، حملھم علی ان سفکوا دماء ھم واستحلوا محارمھم۔ (مسلم، مسند احمد، بیہقی، بخاری فی الادب) یعنی شح سے بچو، کیونکہ شحّ ہی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا۔ اسی نے ان کو ایک دوسرے کے خون بہانے اور دوسروں کی حرمتوں کو اپنے لئے حلال کرنے پر اکسایا۔
ایک اور حدیث میں ظلم ، فجور، اور قطع رحمی پر آمادہ کرنے اور اسی بنا پر ان پر عمل کا سبب بھی شحّ کو بیان کیا۔
حضرت ابو ہریرۃؓ کی روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایمان اور شحِّ نفس ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے‘‘۔(ابن ابی شیبہ، نسائی، بیہقی فی شعب الایمان، حاکم)
بخل انسان کے لئے کس قدر نقصان دہ ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا: دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے ریوڑ میں گھس کر اتنا نقصان نہیں کرتے جتنی مال وجاہ کی چاہت انسان کا دین برباد کر دیتی ہے۔(ترمذی)
بخل انسانی صفات میں کمی اور حیوانی صفات کے غالب آجانے کی دلیل ہے۔جب وہ مال کا بندہ بن جاتا ہے تو نہ رب اس سے راضی رہتا ہے نہ مخلوق۔ ایک مقولہ ہے کہ سخی شخص کے دشمن بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں جبکہ بخیل کی اولاد بھی اس سے بغض رکھتی ہے۔
حکماء میں سے کسی کا قول ہے: ’’رزق تقسیم شدہ ہے، حریص محروم رہے گا، حاسد مغموم رہے گا، اور بخیل ملامت زدہ ہو گا‘‘۔
بخل کی کئی قسمیں ہیں:
البخل بالنفس
آدمی اپنے آپ سے بخل کرتا ہے اور وہ راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتا، کیونکہ وہ دنیا پرست ہے اور دنیا داری ہی میں مال لگاتا ہے،اسکے برعکس جودو سخا کا حامل شخص راہِ خدا میں اور خاص طور پر اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے مال خرچ کرتا ہے۔قرآن کریم بخیل کی کیفیت کو یوں بیان کرتا ہے:
(وامّا من بخل واستغنی ۔ وکذّب بالحسنی۔ فسنیسّرہ للعسری) اللیل، ۸۔ ۱۰
اور جس نے بخل کیا اور( اپنے خدا سے) بے نیازی برتی، اور بھلائی کو جھٹلایا، اس کو ہم سخت راستے کی سہولت دیں گے۔
یہاں بخل سے مراد نیکی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ نہ کرنا ہے، یعنی وہ بے نیازی برتتا ہے اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اس کی رضا حاصل کرے، دنیا کے فائدے کے لئے وہ مال لٹاتا ہے مگر اس دینے والے کو راضی کرنے کے لئے دمڑی نکالنا بھی اس کے لئے بوجھ بن جاتا ہے، لیکن بخیل جس راستے کو اختیار کرتا ہے وہ حقیقت میں سخت راستہ ہے، اگرچہ اس میں مادی فائدے اور دنیوی لذتیں اور ظاہری کامیابیاں ہیں۔
البخل بالجاہ
یہ صاحبِ منصب اور اعلی مرتبے والے شخص کا بخل ہے، جو مسکینوں اور حاجت مندوں کی ضروریات پر خرچ نہیں کرتا، اور کسی مصیبت زدہ کی حاجت روائی سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اپنی مالداری، طاقت اور اثرو رسوخ کے پندار میں مگن وہ جب دوسروں کے حقوق مسخ کرتا ہے، کمزوروں کی داد رسی نہیں کرتا تو وہ خود اپنی نگاہوں میں بھی ذلیل ہوتا ہے، اور جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اس سے بھی قدم قدم پر لڑ کر اسے آگے بڑھنا پڑتا ہے، دنیا خواہ اس کے زور کے آگے دب جائے، لیکن کسی کے دل میں اس کے لئے خیر خواہی، عزت اور محبت کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا، حتی کہ اس کے شریک کار بھی اسے ایک خبیث آدمی ہی سمجھتے ہیں۔ (دیکھئے تفہیم القرآن، جلد ششم، ص۳۶۳)
(فذلک الّذی یدعّ الیتیم۔ ولا یحضّ علی طعام المسکین) الماعون، ۲۔۳
(پس یہی ہے وہ شخص جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں اکساتا۔)
البخل بالعلم
یہ بخل کی سب سے قبیح صورت ہے، یعنی صاحبِ علم اس علم کو دوسروں تک نہیں پہنچاتا، وہ علم کو چھپاتا ہے۔ اس علم کے ذریعے دوسروں کو نصیحت کرتا ہے نہ اس علم کی تدریس کرتاہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
(الذین یبخلون ویأمرون النّاس بالبخل ویکتمون ما آتاھم اللہ من فضلہ) النساء، ۳۷
(اللہ کو ایسے لوگ پسند نہیں ہیں جو بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کی ہدایت کرتے ہیں، اور جو کچھ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے اسے چھپاتے ہیں۔)
البخل بالتصدّق
اللہ تعالی نے بخیل کو مال جیسی نعمت سے نوازا ہے مگر وہ اس میں سے اسی کی راہ میں خرچ نہیں کرتا، اور اس خرچ کا موقع اسی وقت آ تا ہے جب وہ مال کے نقصان، بیماری، کاروبار کی بدحالی، کھیتی کے نقصان وغیرہ میں سے کسی خطرے سے دوچار ہوتا ہے، اسی لئے بخیل ایسے موقع پر اللہ کے حضور نذر مان لیتا ہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو نذر ادا کروں گا۔اور اس خرچ کے عقب میں بھی اس کا طمع یا خوف کار فرما ہوتا ہے اس لئے اسے بخیل کا صدقہ کہا گیا ہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لا یأتی ابن آدم النذر بشیء لم یکن قدّر لہ، فیستخرج اللہ بہ من البخیل، فیؤتینی علیہ ما لم یکن یؤتینی علیہ من قبل۔ صحیح البخاری، ۶۶۹۴۔
(ابنِ آدم کے لئے نذر وہی کچھ لاتی ہے جو اس کی تقدیر میں پہلے سے لکھا ہوتا ہے، بس اس کے ذریعے اللہ بخیل کا مال نکلواتا ہے، اس طرح بخیل وہ مال خرچ کر دیتا ہے جو اس کے بغیر نہیں کرتا۔)
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر احمد ہارون بخیل شخص کی درجہ بندی اس طرح کرتے ہیں:
بخل ایک روایتی عادتِ بد ہے، یہ سب سے زیادہ مادہ (یعنی مال)کی محبت اور حقوق کی عدم ادائیگی میں دکھائی دیتی ہے، امیروں کا بخل سب سے کریہہ ہے، اور اولاد، عزیز واقارب اور مہمانوں سے بخل کرنا تنگ دلی کی بدترین صورت ہے۔
بخیل دنیا میں ایک محروم شخص ہے اور آخرت میں مال کے سبب جکڑا ہوا، وہ فرائضِ مکتوبہ یعنی زکاۃ ادا نہیں کرتا تو یہی سونا چاندی اس کے وبال کا ذریعہ بنے گا۔
(الّذین یبخلون ویامرون النّاس بالبخلط ومن یّتولّ فانّ اللہ ھو الغنیّ الحمید) (الحدید، ۲۴)
(جو خود بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بخل پر اکساتے ہیں۔ اب اگر کوئی روگردانی کرتا ہے تو اللہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔)
یعنی انکی تنگ دلی اس درجے کی تھی کہ جس خدا پر ایمان لانے اور جس رسول کے پیرو ہونے اور جس دین کو ماننے کا دعوی کرتے تھے، اس کے لئے خود ایک پیسا دینا تو در کنار ، دوسرے دینے والوں کو بھی یہ کہہ کر روکتے تھے کہ کیوں اپنا پیسا بھاڑ میں جھونک رہے ہو۔
(والّذین یکنزون الذّھب والفضّۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشّرھم بعذاب الیم۔یوم یحمی علیھا فی نار جھنم فتکوی بھا جبابھم وجنوبھم وظہورھم ھذا ما کنزتم لانفسھم فذوقوا ما کنتم تکنزون) سورۃ التوبۃ، ۳۴۔۳۵
(جو لوگ سونا اور چاندی کو جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک سزا کی خوش خبری دو۔ ایک دن آگے گاکہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا ۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزا چکھو۔)
حضرت عبد اللہ بن عمر کی رائے میں (کنز) یعنی جمع شدہ مال سے وہ مال مراد ہے جس پر زکوۃ ادا نہ کی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ بخیل ساری عمر مشقت اور شقاوت میں گزار دیتا ہے، وہ ہر وقت مال کمانے اور اسے جمع کرنے میں لگا رہتا ہے،اور اس سے راحت اور لطف نہیں اٹھا سکتا، کیونکہ زندگی کی مہلت ختم ہو جاتی ہے، اور اس کی آنکھ بند ہوتے ہی وہ ان وارثوں کا مال بن جاتا ہے جنہیں اس نے تمام عمر محروم رکھا، پھر اس کا حال کیا ہو گا کہ تمام عمر اس نے فقیرانہ زندگی گزار دی لیکن قیامت کے دن اسے اس مال کا حساب دینا ہو گا۔
حضرت ابو سعید خدریؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
خصلتان لا تجتمعان فی مؤمن: البخل وسوء الخلق۔
یعنی دو خصلتیں جو کسی مسلمان کے اندر جمع نہیں ہو سکتیں: بخل اور بد خلقی۔ (ابو داود، ترمذی، بخاری فی الادب)
(سیطوّقون ما بخلوا بہ یوم القیامۃط وللہ میراث السّموت والارضط) (آل عمران، ۱۸۰)
’’جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں، وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لئے ہے۔‘‘
یعنی زمین و آسمان کی ہر چیز جو کسی بھی مخلوق کے پاس ہے وہ اللہ کی ملک ہے، جو ان چیزوں کو بچا بچا کر رکھتا ہے، اور اللہ کے مال کو اس کی راہ میں دل کھول کر استعمال نہیں کرتا، وہ قیامت کے دن اس کے گلے کا طوق بنے گا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی دو قسم کے کرداروں کو مدِ مقابل کرتا ہے، ایک خود غرض اور زر پرست، جسے خلق اور خالق کسی کے حقوق کی فکر نہیں، وہ بس جمع کرنے اور گننے میں لگا رہتا ہے:
(الذی جمع مالا وعددہ ۔ یحسب أنّ مالہ أخلدہ) سورۃ الھمزۃ، ۲۔۳
’’جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھا، وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا‘‘۔
بخیل مال داری کے غرور میں مبتلا رہتا ہے، مال کو جمع کرنا اور اسے گن گن کر رکھنازر پرست کے بخل کی تصویر کشی ہے، وہ مال گننے میں اتنا منہمک ہے کہ اسے موت یاد نہیں رہتی۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے حیاتِ جاودانی بخش دے گا، اور اسے یہ خیال کبھی نہ آتاکہ ایک وقت اسے یہ مال چھوڑ کر خالی ہاتھ اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔
دوسرا کردار خدا پرست، فیاض اور ہمدرد انسان کا کردار ہے، جو خدا اور خلق دونوں کے حقوق کا خیال رکھتا ہو، اپنے حلال طریقے سے کمرائے ہوئے مال سے خود کھائے، دوسرے بندوں کو بھی کھلائے اور دل کھول کر نیک کاموں میں خرچ کرے۔
پہلا کردار اللہ کو سخت نا پسند ہے اور دوسراپسندیدہ، اسی سے دنیا میں صالح سوسائٹی بنتی ہے، اور یہی آخرت میں فلاح کا موجب ہے۔
شیطان کے ساتھی اس بات کو عقل مندی خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی دولت سنبھال سنبھال کر رکھیں، اور ہر وقت اس میں اضافے ہی کے بارے میں فکر مند رہیں، جبکہ اللہ کی بصیرت کا نور پانے والے اپنی کمائی کو ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد اسے دل کھول کر بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔
بخیل کی نفسیات:
بخیل خوف اور شک کا شکار شخص ہے، وہ ہر وقت اسی ڈر میں مبتلا رہتا ہے کہ کہیں یہ مال ختم نہ ہو جائے، اسے مال کے دوام کی صورت یہی نظر آتی ہے کہ اسے محفوظ رکھے اور خرچ سے بچائے۔
بخیل ہر وقت وسوسوں میں گھرا رہتا ہے کہ کہیں اس کا مال ضائع نہ ہو جائے، یا خرچ کرنے سے وہ مفلوک الحال نہ ہو جائے، اس لئے وہ جس قدر خرچ بھی کرتا ہے اس سے لطف نہیں اٹھا سکتا۔
بخل ایک چھوتی مرض ہے، اگر آپ بخیلوں کے ساتھ رہیں گے اور انہیں دوست بنائیں گے تو لازماً انکی بری عادت آپ میں بھی آ جائے گی، کیونکہ بخیل اپنی بخیلی کو حسنِ عمل اور کفایت شعاری بنا کر پیش کرتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے: (فذلک الّذی یدعّ الیتیم۔ ولا یحضّ علی طعام المسکین) الماعون، ۲۔۳
وہی توہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا۔
اس آیہ کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ بخل ایمان بالآخرت کے کمزور ہونے کی علامتوں میں سے ہے۔اور یہ قبیح اخلاقی رذائل میں سے ہے، اگر آدمی خدا کے حضور پیشی اور جواب دہی کا قائل ہو تو ایسی بخیلی اس سے سرزد نہیں ہوتی کہ یتیم کا حق مارے، اس پر ظلم ڈھائے اور اس کو دھتکارے، اور مسکین کو نہ خود کھانا کھلائے نہ کسی سے کہے کہ اسے کھانا دو۔
بخیل کی نگاہ محض دنیا کی ظاہری دولت پر ہوتی ہے اسی لئے وہ خرچ شدہ مال کو تلف شدہ سمجھتا ہے اور جمع شدہ کو عزت وشرف کی علامت۔ ایک کہاوت ہے کہ : بند مٹھی سے مصافحہ ممکن نہیں۔بخیل اپنے مال پر زندگی لگا دیتا ہے لیکن زندگی ختم ہوتے ہی مال اسے چھوڑ دیتا ہے۔بخیل کی مثال اس پیاسے اونٹ کی سی ہے جس کی پیٹھ پر پانی لدا ہو۔
خرچ کرنے والے سر آنکھوں پر اور بخیل ذلیل ہوتے ہیں، سب سے اچھا خرچ اس شخص پر ہے جسے اس کی توقع نہ ہو۔
بخیل کی بخیلی صرف مال تک محدود نہیں رہتی، بلکہ ایسا شخص اپنے تمام تصرفات میں بخل ہی برتتا ہے، محبت اور شفقت کے اظہار میں، مسکراہٹ بکھیرنے میں، تسلی وتشفی دینے میں، گویا بخیل دینے کے ہر عمل سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔عمر گزرنے کے ساتھ انسان کے بہت سے عیوب چھٹ جاتے ہیں لیکن بخل پہلے سے بڑھ کر جوان ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بھی بخیل کہا جو ان کا ذکر آنے پر درود نہیں بھیجتا۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’البخیل، من ذکرت عندہ فلم یصلّ علیّ‘‘۔ رواہ الترمذی
بخیل وہ ہے جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے تو وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔
بخل ایسا مرض ہے کہ وہ دینے کے ہر عمل پر کاٹ لگاتا ہے، اگرچہ وہ چند کلمات کے ذریعہ اظہارِ محبت ہی ہو۔
بخل کے بارے میں اسلام کی اتنی واضح ہدایات کا نتیجہ ہے کہ مسلمان امت بحیثیت قوم سب سے بڑھ کر فیاض اور فراخ دل ہیں۔
اللھم انی اعوذبک من الھم والحزن، واعوذبک من العجز والکسل، واعوذبک من الجبن والبخل، واعوذبک من غلبۃ الدین وقہر الرجال۔