یہ کہانی ہے اس عورت کی جو کہ خدا کی بہت خوبصورت اور حسین تخلیق ہے۔جس کو میرے رب نے بہت پیار سے بنایا، سنوارا اور دنیا میں اتارا۔رب کی اپنی اس تخلیق سے محبت کا اندازہ ہمیں اس بات سے ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنی ذات کا ایک وصف اس کے اندر پیدا کیا یعنی تخلیق کا وہ عمل جو کہ میرے رب کی صفت ہے وہ اس نے عورت میں پیدا کیا۔کوئی بھی مرد کتنے ہی بڑائی کے دعوے کیوں نہ کر لے وہ یہاں اس عورت کے آگے سر جھکانے پر مجبور ہو جاتا ہے جو کہ اللہ نے اس کی ماں کی صورت میں پیدا کردی۔اللہ نے اپنی محبت کی مثال بھی ماں کے حوالے سے دی کہ وہ “اپنے بندے سے ستر مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔”اس عورت کی عظمت کو آج کی عورت کہیں تعلیم کے نام پر ،کہیں آزادی کے نام پر کہیں ترقی اور کہیں لبرل ازم کے نام پر خود اپنے ہاتھوں ملیا میٹ کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔
اس صدی میں اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ ترقی غالباً عورت نے ہی کی ہے۔فیشن ،کپڑے،جیولری، باہر گھومنا پھرنا، اکیلی لڑکیوں کا تفریح کے نام پر بازاروں میں،مال میں ،بے خوف اور بے حجابانہ پھرنا،کو ایجوکیشن میں لڑکوں کے ساتھ کپل بنا کر ناچ گانا کرنا۔ہر آفس میں ریسیپشن پر موجود مسکراتی ہوئی لڑکی،ہر مال میں فٹنگ والے بےہودہ لباس میں جگہ جگہ اپنے جسموں اور چیزوں کا اشتہار لگاتی لڑکیاں ،کوئی کھیل کا میدان ہو یا کسی جگہ کوئی افتتاحی یا اختتامی تقریب، وہاں بھی ناچتی، لہراتی لڑکیاں ترقی کے نام پر اپنا استحصال کرواتی نظر آتی ہیں۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ عورتیں کیسے زندہ ہیں جو گھروں تک محدود ہیں یا جن کی زندگی اپنے گھر،شوہر اور بچوں تک محدود ہے،اور ان عورتوں کو تو شاید زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں جو کہ شرعی پردہ کرتی ہیں ۔عورت کی اس نام نہاد ترقی نے دراصل معاشرے میں کیسی فحاشی اور بےامنی اور بے حیائی کو جنم دیا ہے اس بات کا عورت کو خود اندازہ نہیں۔ہر دوسرے دن چھوٹی چھوٹی پھول جیسی بچیوں کا جسمانی استحصال ہو رہا ہے۔پھر بھی ان کی مائیں ان کو مختصر لباس پہنانے سے اجتناب نہیں کرتیں۔
عورت کی ترقی جس میں جہاز اڑانے سے لے کر اب تو موٹر سائیکل چلانے تک سب کچھ شامل ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب عورت نہ کرتی تو کیا دنیا میں کوئی کمی رہ جاتی۔نسلوں کی جس تعمیر کا ذمہ اللہ نے عورت کو دیا۔اس سے منہ موڑ کر کیا وہ معاشرے میں ذہنی اور عادی مجرموں کو فروغ نہیں دے رہی۔ہمارے گھروں کے بچے ہی باہر جا کر اغوا، قتل، ریپ،ڈکیتی اور لوٹ مار جیسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ماں باپ کے پاس فرصت ہی نہیں کہ بچوں کی تربیت یا ان کو معاشرے کا کارآمد فرد بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔باہر نکل کر عورت کو کس طرح اپنے آپ کو پیش کرنا ہے یا پھر مرد کو کس طرح نگاہ نیچی رکھنا ہے یا عورت کی عزت کس طرح کرنی ہے یہ انہیں پتہ ہی نہیں۔ہمارے بچے یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ تو یہود و نصاری کی ان سازشوں کا شکار ہیں کہ جس میں عورت کو مظلوم بناکر اس کو اس کی راجدھانی سے محروم کر دیا گیا ہے۔اور گھر میں رہنے والی ملکہ کو باہر کی زینت بنا دیا گیا ہے ۔اس کو بتایا جاتا ہے کہ تم صرف ہانڈی روٹی اور بچے پیدا کرنے کے لیے نہیں ہو تمہیں دنیا میں بہت بڑے بڑے کام کرنے ہیں۔ارے انہیں کوئی یہ بتائے کہ نسل سنوارنے سے بڑا اور کوئی کام کیا ہو گا جو ایک عورت کے ذمہ اللہ نے لگا دیا۔تعلیم ضرور حاصل کریں لیکن اس کو گھر اور بچوں کی تربیت کو بہتر سے بہتر انداز میں کرنے کے لیے ۔یا جن شعبوں میں مثلا ًتعلیم اور صحت کے میدان میں عورت کا ہونا ضروری ہے ۔وہاں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کریں۔یہ معاشرہ، اس کا بکائو میڈیا سب کے سب عورت کو محض مال بیچنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں اور عورت اپنی اس بے عزتی پر بہت خوش بھی ہے۔ فیشن شوز کے نام پر جس طرح اس کے جسم کی نمائش لوگوں کے سامنے کی جاتی ہے،اس کی اداؤں کو جس طرح بیچا جاتا ہے کیا یہی ترقی ہے۔پہلے کی مسلمان خواتین اپنے مردوں کے شانہ بہ شانہ جنگوں میں بھی شرکت کرتی تھیں، تلوار بازی، تیر اندازی، گھڑ سواری بھی سیکھتی تھیں۔لیکن صرف اس وقت کے لیے اگر ان کے گھر ،ان کے قبیلے، یا ان کے اوپر حملہ ہوجائے تو اپنا دفاع کر سکیں۔اپنے شوہروں کو، اپنے بچوں کو، اپنے بھائیوں کو، جنگ کے لیے اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے بھیجتی تھیں۔غازی ہوں یا شہید،نمناک آنکھوں اور مسکراتے لبوں سے ان کا استقبال کرتی تھیں۔یہ تھیں ترقی یافتہ خواتین جوکہ صرف گھر چلانا ہی نہیں بلکہ تلوار چلانا بھی جانتی تھیں۔آج کی عورت اس ترقی کے نام پر اپنے آپ کو پلیٹ میں رکھ کر مردوں کے آگے چارے کے طور پر پیش کر تی ہے اور پھر سہولتیں حاصل کر کے اپنے آپ کو کامیاب تصور کرتی ہیں۔یہ کہاں کی ترقی اور کہاں کا لبرل ازم ہے۔اگر آج میں اپنے بچوں کی ذہنی اور جسمانی تربیت کرنے کے قابل نہیں ہوں تو میں ہر گز ایک کامیاب عورت یا کامیاب ماں نہیں کہلا سکوں گی۔چاہے میں کتنی پڑھی لکھی کیوں نہ ہوں،کتنے ہی اہم عہدے پر کیوں نہ بیٹھی ہوں ۔ایک ناکام ماں،ناکام بیوی اور ناکام بیٹی ،کامیاب عورت کہلانے کی ہرگز حقدار نہیں ہے ۔اگر عزت سے گھر بٹھا کر روٹی کھلانے والا مرد آج ظالم ہے اور باہر چارہ ڈال کر روٹی دینے والا مرد ہمدرد اور ماڈرن ہے تو بس سمجھ لیجیے کہ ایسے معاشرے کی تباہی کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔