باغی ڈرامہ 17 جولائی 2018 کو ایک مشہور ٹی وی چینل پر ٹیلی کاسٹ ہوا ۔ یہ سوشل میڈیا فیم ماڈل قندیل بلوچ عرف فوزیہ پر بنایا ہے۔ اپنے نشر ہونے کے وقت یہ متنازع ہوچکا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس کو اچھا کہا، تو کچھ نے تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اسے معاشرے کو بے راہ روی کی طرف گامزن کرنے کی سازش کہا کیونکہ یہ ڈرامہ ایک ماڈل قندیل بلوچ کی ذاتی زندگی پر مبنی تھا۔ اس کا نام باغی رکھا گیا یعنی ایک ایسی لڑکی کی کہانی جس نے معاشرے کے اصولوں سے بغاوت کی اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کیلیے یا ماڈل بننے کیلیے۔ بعض لوگوں کے مطابق یہ ڈرامہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جو ہمارے معاشرے کیلیے بےراہ روی کا باعث بن سکتی ہے۔ کیونکہ یہ بھی سچ ہے، لوگ اس بات کو اور اس چیز کو جلد ہی اڈپ کرتے ہیں جو وہ میڈیا پر دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ قندیل بلوچ عرف فوزیہ بتول ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ جو اپنے خاندان والوں کے ساتھ گائوں میں رہتی تھی۔ اسکی ایک بڑی بہن شادی شدہ تھی۔ جس کا شوہر اسے مارتا تھا، جس پر فوزیہ ایسے کئی بار اپنے شوہر سے طلاق لینے کا مشورہ دے چکی تھی۔وہ کئی بار اپنے شوہر سے طلاق ملنے کے باوجود دوبارہ شوہر کے گھر واپس بلالی جاتی ہے، وہ بھی خاندان اور گائوں کے بڑوں کے زور کی وجہ سے۔
شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کے وہ خواب جو اس نے میڈیا پر آنے کیلیے دیکھے تھے، وہ بکھر سے گئے تھے۔ اس نے سوشل میڈیا پر وڈیوز اپ لوڈ کرکے مشہور ہونے کی کوشش کی۔ اس میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوگئی تھی، کہ لوگ اسے اب جاننے لگے تھے۔ لیکن پھر بھی یہ وہ مقام، وہ شہرت نہ حاصل کر سکی تھی، جسکے وہ خواب دیکھ کر اس میڈیا میں آئی تھی۔اکثر لوگ اس کی حد سے زیادہ بولڈ وڈیوز کی وجہ سے اعتراض کرتے تھے۔ لیکن قندیل بلوچ عرف فوزیہ لوگوں کے اعتراض کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی وڈیوز اپ لوڈ کرتی رہی، جس میں وہ اپنے اوپر اعتراض کرنےوالوں کو بھی سناتی کہ اسے ان کی تنقید سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اب آتے ہیں اس اصل بات کی طرف جس کیلیے یہ سب بیان کیا گیا ” کہ وہ اچھی لڑکی تھی یا ایک بری لڑکی تھی کیا وہ میڈیا کو بدنام کررہی تھی یا اس کا اصل آئینہ لوگوں کو دیکھا رہی تھی یا فریب اور دھوکہ کی دنیا میں گم ایک معصوم سی لڑکی۔
ایکٹر نوید رضا سے جب اس ڈرامہ کہ بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا جواب میڈیا کے دوسرے لوگوں سے بہت مختلف تھا ۔ انھوں نے اس بات پر اعتراض اٹھایا کہ اس موضوع کو دکھانے والوں نے یہ موضوع ہی کیوں چنا ، کیا ان کو عورتوں میں اور اہم شخصیات نظر نہیں آئیں، ڈرامہ ہی بنانا تھا تو محترمہ فاطمہ جناح اور بلقیس بانو پر اب تک کیوں نہیں بنایا۔
میڈیا نے اسے غیرت کے نام پر قتل کا رنگ دیا اگر یہ سچ ہے تو تب اس بھائی کی غیرت کہاں تھی جب وہ اسی بہن کی کمائی کھا رہا تھا ، تو بہت سے لوگوں نے اسے پیسوں کیلیے اپنی بہن کو مارڈالا ۔
یہ تو سچ ہے کہ وہ سوسائیٹی کیلیے رول ماڈل نہیں تھی ، کہ اس پر ڈرامہ بنایا جائے ، ہاں اس کا قتل غلط ہوا ہے، اس نے اپنی زندگی میں جو کام کیا اسکی وہ خود ذمہ دار ہے۔ لیکن اسکے بھائی نے پیسوں کیلیے قتل کر دیا۔ اس قتل کو غیرت کے نام پر قتل کہنا غلط ہوگا یہ ایک نفسیاتی ذہنی مریض کا عمل تھا ۔ جس پر ڈرامہ بنا کر اس لڑکی کو معاشرے کیلیے رول ماڈل دکھانے کی کوشش کی گی ،جس نے اپنی ضد اور اپنا شوق پورا کرنے کیلیے میڈیا انڈسٹری جوائن کی اور وہ طریقے اپنائے جو اگر ہماری نوجوان نسل اپنانے لگے تو بے راہ روی کی طرف گامزن ہوسکتی ہے۔ یہ سچ ہے یہ میڈیا اسے لوگوں پر ڈرامہ کیوں نہیں بناتا جو اس معاشرے کی اصلاح کا باعث بنے جن کو فالو کر کے ہم اپنی نوجوان نسل کو بے راہ روی کی طرف جانے سے روک سکیں ۔ نہ کہ انھیں بڑوں سے بدتمیزی اور گھر سے بھاگنے ، گھر توڑنے ، طلاق کو عام اور معمولی سی بات سمجھنے لگیں کہ ہر بات پر اس کی کی دھمکی دینا اور اس قسم کی سوچ ڈال دیں کہ وہ اپنی ضد اور خواہش یا اپنی مرضی پوری کرنے کیلیے کسی بھی حد تک چلے جائیں، اسی کو جائز اور صحیح سمجھیں۔ کیا ہمارے لیے اب ماں باپ کی عزت گھر اور چار دیواری کوئی معنی نہیں رکھتی۔
یہ ہم کیا سکھانا چاہ رہے ہیں اپنی نسلوں کو اور دنیا والوں کو کیا بتانا چاہ رہے ہیں کہ ہمارے یہاں سازشی اور بد تہذیب لوگ رہتے ہیں ۔ جن لوگوں کو ہم اپنی عوام کو مثال بنا کر دکھا رہے ہیں۔ وہ کیا دے رہیں ہیں بولڈنیس اور شدت پسندی ، صرف ایک فقرہ “میرا دل میری مرضی ” یعنی آپ جو چاہے کریں۔ خدارا ایسے ڈرامے بنا کر اس قوم کے مستقبل کو دائو پر مت لگائیں۔ ہمیں شدت پسند نوجوان نہیں ،صحیح سوجھ بوجھ رکھنے والے نوجوان چاہییں۔