وتیرہ یا وطیرہ؟

    کہتے ہیں ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔‘‘ حافظ محمد ادریس صاحب علم و فضل میں بحر ذخار ہیں لیکن عمر میں ہم سے چھوٹے ہیں، اس لیے ان کے مضامین میں سہو کی نشاندہی خطا نہ سمجھی جائے۔ بلاشبہ حافظ ادریس ایک دانشور اور بڑے قلم کار ہیں۔ وہ ایک علمی ادارے کے سربراہ بھی ہیں، اس لیے یہ خدشہ ہے کہ ان کے سہو کو لوگ سند نہ بنالیں کہ حافظ ادریس نے لکھا ہے تو یہی صحیح ہوگا۔ فرائیڈے اسپیشل کے گزشتہ شمارے (30 جون تا 6 جولائی) میں مرحوم رائے بخش کلیار کے بارے میں ان کا ایک بہت اچھا مضمون پڑھا۔ اس مضمون میں انہوں نے ’’وتیرہ‘‘ کو وطیرہ لکھا ہے۔ یہ بہت عام غلطی ہے لیکن حافظ صاحب کو عربی پر بھی عبور ہے اس لیے انہیں گریز کرنا چاہیے تھا۔ وتیرہ عربی ہی کا لفظ ہے لیکن بغیر ’ط‘ کے۔
    ایک شعر حاضر ہے:
    یار کو لاکھا جمانے کا وتیرہ ہو گیا
    دعوت لب، خونِ ناحق کا ذخیرہ ہو گیا
    وتیرہ تو عربی کا لفظ ہے لیکن بہت سے لوگ ہندی کے لفظ ’’ناتا‘‘ میں ’ط‘ شامل کرکے اسے معرب کرلیتے ہیں یعنی ’ناطہ‘ یا ’ناطا‘۔
    حافظ ادریس صاحب سے بہت معذرت کے ساتھ، انہوں نے اپنے مذکورہ مضمون میں کئی جگہ ’’بال آخر‘‘ لکھا ہے۔ یہ کیا ہے؟ بال بروزن دال، گال، جال وغیرہ۔ بال آخر لکھا جائے گا تو لوگ پڑھیں گے بھی اسی طرح۔ اسے ’’بل آخر‘‘ کون پڑھے گا؟ اگر بالآخر کا املا مشکل ہے تو بال آخر کی جگہ بل آخر ہی لکھ دیا ہوتا۔ کم از کم تلفظ تو صحیح ہوتا۔ اس قباحت سے بچنے کے لیے ’آخرکار‘ لکھ دیا ہوتا۔ کل کوئی بالکل کو بھی ’بال کل‘ لکھنے لگے گا۔ ماہر لسانیات رشید حسن خان مرحوم کی تحریک یہی تھی کہ جو الفاظ جس طرح بولے جاتے ہیں اسی طرح لکھے بھی جائیں مثلاً ’بلکل‘ اور ’بل آخر‘۔ لیکن کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طرح رشید حسن خان کا مقصد عربی املا سے دور کرنا تھا، اسی لیے انہوں نے ’اعلیٰ‘ کا املا ’اعلا‘ کردیا۔ شاید وہ بھارتی مسلمانوں کو ہندی سے قریب لانا چاہتے ہوں۔ ’بالکل‘ بھی دراصل ’بالکلّیہ‘ ہے۔ ’لاکن‘ عربی کا لفظ ہے اور قرآن کریم میں اسی طرح آیا ہے، لیکن اردو میں آکر یہ ’لیکن‘ ہوگیا اورلام پر کھڑا زبر غائب ہوگیا۔
    حافظ صاحب نے مرحوم رائے خدا بخش کلیار کے منہ سے سنا ہوا شیخ سعدی کا ایک شعر درج کیا ہے کہ:
    دیدۂ سعدی و دل ہمراہ توست
    تا پنداری کہ تنہا می روی
    ہوسکتا ہے کہ مرحوم کلیار اسی طرح پڑھتے ہوں اور ممکن ہے کہ کمپوزنگ کی غلطی ہو، ورنہ صحیح شعر یوں ہے:
    دیدۂ سعدی و دل ہمراہ تست
    تانہ پنداری کہ تنہا می روی
    دوسرے مصرعے میں سہو ’نہ‘ رہ گیا جس سے مفہوم متاثر ہوجاتا ہے۔ سچی بات ہے کہ شعر تو ہمیں بھی صحیح یاد نہیں رہتے اور حافظ ادریس کی تو بے پناہ علمی مصروفیات ہیں۔
    اخبارات میں ’’بیزارآنا‘‘ پڑھنے میں آتا ہے، جب کہ ہمارے خیال میں بیزار کے ساتھ ’ہونا‘ آنا چاہیے، یا پھر بیزار ہوجانا۔ ’بیزار‘ فارسی کا لفظ ہے۔ اس کے بھی دو حصے ہیں یعنی ’بیز‘ اور ’آر‘۔ بیز فارسی قدیم میں سیر ہوجانے، دل بھر جانے کو کہتے تھے اور ’آر‘ کلمۂ نسبت ہے۔ مطلب تو معلوم ہی ہے ناراض، ناخوش، خفا، ملول وغیرہ۔ اسی طرح ’بیابان‘ بھی فارسی میں ’بے آباں‘ تھا۔ یعنی بے آب وگیاہ، غیر آباد جنگل، ویرانہ وغیرہ۔
    ایکسپریس نیوز سے ایک صاحب رفیع اللہ میاں نے ’بربریت‘ کے استعمال پر ہمارے اعتراض پر اعتراض کرتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ جو لفظ متروک ہوچکا ہے اسے ڈسکس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں سوائے دوسروں کے سینے سے ٹھنڈی سانسوں کے اخراج کے۔ انہیں چاہیے کہ لوگوں کو وقت کے ساتھ ایجوکیٹ کریں، ماضی میں جاکر نہیں۔ باربیرازم متروک ہوگیا۔ اب یہ انگریزی میں بھی استعمال نہیں ہوتا اور اس کی جگہ ٹیررازم نے لے لی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہم بہت پیچھے کی تاریخوں میں جیتے ہیں۔
    رفیع اللہ میاں! اس مشورے کا بہت شکریہ، لیکن بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ آپ نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیسے کرلیا کہ باربیرازم (’بربرازم‘ یا ’بربریت‘) اب متروک ہوچکا ہے! انگریزی لغات میں تو موجود ہی ہے، انگریزی میں آج بھی بربرازم استعمال ہوتا ہے۔ ٹیررازم بالکل الگ چیز ہے اور ٹیررسٹ یا دہشت گرد کوئی بھی ہوسکتا ہے، گو کہ عموماً اشارہ مسلمانوں ہی کی طرف ہوتا ہے۔ اب اگر مسلمان یورپ کے فاتح بربروں سے منسوب بربریت کے استعمال پر مطمئن ہیں تو کیا کیا جاسکتا ہے۔ بوسنیا ہرزیگوینا میں سربوں نے جس درندگی کا مظاہرہ کیا اس پر کسی نے اسے ’سرب ازم‘ یا ’سربیت‘ کا نام نہیں دیا کیونکہ مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے والے بھی یورپی ہی تھے جنہوں نے اقوام متحدہ کی پناہ میں آئے ہوئے 8 ہزار بوسنیائی مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ بہت سے الفاظ متروک ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے الفاظ لے لیتے ہیں۔ الفاظ متروک نہیں ہوا کرتے بلکہ ان کا استعمال کم ہوجاتا ہے۔ انگریزی میں شیکسپیر نے اپنی نظموں میں جو الفاظ استعمال کیے ہیں اب وہ عام طور پر استعمال نہیں ہوتے، لیکن جب انگریزی ادب پڑھایا جاتا ہے تو شیکسپیر کا مطالعہ لازم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اردو کے قدیم شعرا اور نثر نگاروں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ اردو ادب کا حصہ ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جن الفاظ کو متروک قرار دیا جائے وہ لغات میں بھی موجود ہیں اور ادب میں بھی۔ عربی کے کئی الفاظ جو شاید عام عربی بول چال میں استعمال نہ ہوتے ہوں لیکن قرآن کریم اور احادیث میں ہونے کی وجہ سے زندہ ہیں اور مفسرین ان کی تشریح کرتے ہیں۔ یہی حال عربی کی قدیم شاعری کا ہے جو عربی ادب کا حصہ ہے اور آج بھی پڑھائی جاتی ہے۔ اگر کسی لفظ کا معنیٰ مجھے نہیں معلوم تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ متروک ہوگیا۔ جن الفاظ کا استعمال کم ہوگیا ہے ان کے احیاء کی ضرورت ہے، نہ کہ انہیں بھلادینے کی۔ ہماری اطلاع کے مطابق رفیع اللہ اب نثری نظمیں بھی کہنے لگے ہیں۔ انہیں بھی متروکات کو زندہ کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔
    اس پر یاد آیا کہ گزشتہ دنوں ایک مضمون میں ’’کُندی کرنا‘‘ پڑھا۔ پڑھ کر مزا آگیا کہ یہ لفظ بھی بقول کسے متروک ہوگیا تھا۔ کندی (کاف بالضم) ہندی کا لفظ ہے۔ اردو میں اس کا مطلب مارپیٹ، زدوکوب کرنا ہے۔ عام طور پر خواتین بچوں کو کندی کرنے کی دھمکی دیتی ہیں۔ کندی اصل میں اس موگری یا ڈنڈے کو کہتے ہیں جس سے دھوبی کپڑے دھوتے ہوئے انہیں کوٹتے ہیں۔ گھروں میں خواتین بھی کپڑے دھوتے ہوئے چپٹا سا ایک ڈنڈا استعمال کرتی ہیں جو کثیرالمقاصد ہوتا ہے اور کسی کو کوٹنے میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ موگری سے کپڑوں کی سلوٹیں نکالنے کو بھی کندی کرنا کہتے ہیں۔ ’کندی گر‘ ریشمی اور عمدہ کپڑوں کو صاف کرنے والا، جِلا دینے والا۔ اور ’کُندہ‘ فارسی میں موٹی لکڑی کے ٹکڑے کو کہتے ہیں، یا وہ لکڑی جس پر قسائی (قصاب) گوشت رکھ کر قیمہ بناتے ہیں۔ اب تو قسائیوں کی زبان میں اسے ’مڈّی‘ کہتے ہیں۔ ایک ’کندہ ناتراش‘ بھی ہوتا ہے یعنی بے تمیز، بے سلیقہ، جاہل وغیرہ۔ ہمیں لڑکپن میں اس لقب سے عموماً واسطہ پڑتا تھا۔ اچھا تھا کہ مطلب ہی معلوم نہیں تھا۔
    اسی املا کے ساتھ ایک اور کندہ بھی ہے۔ اس میں کاف پر زبر (بالفتح) ہے لیکن بہت سے لوگوں سے کُندہ سننے میں آیا۔ کَندہ کہتے ہیں کھدا ہوا۔ کندہ گر کا مطلب ہے نقش و نگار کھودنے والا۔ کندہ کرنا، کھودنا، یہ فارسی کا لفظ ہے۔ ایسے ہی ایک لفظ ’کتبہ‘ ہے۔ عربی کا لفظ ہے، اس میں بھی ’ک‘ پر زبر ہے، لیکن لوگ اس پر پیش رکھ کر کُتبہ بنادیتے ہیں۔

    حصہ

    3 تبصرے

    1. آداب کے بعد عرض ہے کہ
      اپ کی تحریر سے میں بہت محظوظ ہوگیا. اور اردو زبان کے الفاظ کی ادائیگی اور لکھائی کے حوالے سے بہت ساری غلطیوں سے آشنا ہوگیا.
      میری اردو بھی بہت کمزور ہے. ہمیشہ الفاظ کی درستگی کے لئے انٹرنیٹ پر گوگل کرتا رہتا ہوں. اج میں وتیرہ بمقابلہ وطیرہ سے پریشان ہوکر گوگل کی راہ لی تو اپ کی اس عمدہ تحریر تک پہنچ گیا. اور میرا ایک وتیرہ ہے کہ جس کسی سے بھی ایک حرف کا بھی میرا اصلاح ہوتا ہے میں ان کا شکر گزار ہوتا ہوں. لہٰذا میرا نذرانہ شکریہ قبول فرمائیے گا.
      اردو کے ادیبوں سے گزارش ہے کہ اس طرح روز اردو کے الفاظ کی درستگی کے لئے اپنے علوم و فنون کو قلم بند کرکے خرکارہ گوگل کے حوالے کرتے رہیں گے تو یقیناً ہر اس حقدار متلاشی تک پہنچ جائیں گے جو لفظ لفظ کے لئے گوگل کے بیابانوں، صحراؤں، دریاؤں، سمندروں اور جنگلوں کو چھاتے پھر رہے ہوتے ہیں.
      نیک خواہشات کے ساتھ
      نثار کریم

    جواب چھوڑ دیں