جہد مسلسل سے ممکن ہے کامیابی۔

کسی بھی محنت و لگن سے کام کرنے والے شخص کی یہ دلی خواہش اور سوچ ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کی منزلیں پا تا ہوا کامیابی کے بام عروج پر پہنچ جائے اور کامیاباں ہی سمیٹتا جائے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ محنت کئے بغیر کامیابی کے حصول کی تگ و دو میں مضطرب رہنا غیر دانشمندی کے ساتھ ساتھ احمقوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہے ۔چنانچہ ہمارے معاشرے میں کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ’’ناکامی ‘‘ سے ہمیشہ خائف رہتے ہیں ناکامی ایک بُری اور متنفر شے سمجھی جاتی ہے جس کی فقید المثال مثالیں ہمیں اسکولوں ، مدارس ، کالجز ، یونیورسٹیز سمیت مختلف دیگر شعبوں کے امتحانات کے بعد برآمد شدہ نتائج کی صورت میں ملتی ہیں۔ امتحان میں ناکامی یعنی فیل ہونے پر ہم احساس کمتری میں متبلا ہونے سے دل برداشتہ ہوکے فیل ہونے کو اپنے لئے باعث ندامت سمجھ کر مزید پڑھائی کرنے کو خیر باد کہہ دیتے ہیں اور اس طرح ہم ناکامی یعنی فیل ہونے سے منہ پھیر کر اس سے راہ فرار اختیار ہونے کو ہم اپنے لئے موزوں حل سمجھتے ہیں۔جو غیر دانشمندی کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ہم اگر اپنی ناکامی کا موجب بننے والی کمی کوتاہیوں پر نظریں ڈالیں تو ہمارے سوالات کے جوابات ملنے میں ہمیں دیر نہیں لگے گی اور اس کے علاوہ اگر ہم دنیا کے کسی بھی کامیاب شخص کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں ۔تو ہمیں اس کی کامیابی کے پیچھے ایک طویل داستان پڑھنے کو ملے گی اور اس داستان میں اس شخص کے حالات زندگی کے نشیب و فراز اور کہانیاں نقش ہوں گی۔کیونکہ اس شخص نے جہد مسلسل اور مستقل مزاجی سے اپنے مصمم ارادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی منزل کا تعین کیا ہوتا ہے اور پھر وہ منزل یعنی خواب کی تعبیر پر نکلے سفر کے ہر وہ کرب و اذیت کے مراحل سے گزر گیا ہوتا ہے جس سے وہ مد مقابل ہوا ہو۔تب ہی وہ کامیابی سے ہمکنار ہوا جاسکتا ہے اور اس بات کو بھی ہمیں اپنی دانست میں پیوست کرنی ہوگی کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے کئی سالوں کی ناکامی اور اس کے بعد تسلسل کے ساتھ محنت ہوتی ہے اور اگر ہم دانشمند حضرات کے افکار و خیالات کے سانچوں میں ڈھل کر ان کے بتائے اور دکھلائے ہوئے رستوں کو عمیق نظری سے دیکھ لیں تو ہمیں یہ سبق بھی ضرور ملتا ہے کہ ناکامی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے اور اس سیڑھی پر پہلا قدم رکھنے کا نام اپنی منزل کو اپنا ہدف بنا کر تواتر کے ساتھ محنت کرنا ہے۔ہم محنت اور مستقل مزاجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر ہی منزل مقصود تک کے سفر میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور ہم زندگی کے نشیب و فراز میں ناکامی کی موجب بننے والی غلطیوں کا ادراک اور سدباب کرکے ہی کامیابی کے پہاڑ کو عبور کرسکتے ہیں۔کامیابی کے حوالے سے خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ ’’ ایک شخص علم حاصل کرنے کا اشتیاق رکھتا تھا لیکن وہ شاید کمی بیشی و کوتاہیوں کے باعث کامیاب نہ ہو پا رہا تھاچنانچہ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ علم حاصل نہیں کرے گا ایک دن اتفاق سے اس کا گزر ایک پہاڑ سے ہوا۔ جس کی چوٹی سے پانی ایک چٹان پر مسلسل گر رہا تھا اور اس تسلسل نے چٹان پر ایک شگاف پیدا کردیا تھا۔طالب علم نے گِرتی چٹان پر پانی کے قطروں کو دیکھا اور کہا کہ پانی نے اپنی لطافت کے باوجود مسلسل بہہ کر چٹان کی کثافت میں یہ شگاف پیدا کردیا تھا ۔تو میں کیوں علم حاصل نہیں کرسکتا؟سو اللہ کی قسم! میں بھی ضرور علم حاصل کروں گا۔پھر وہ علم کی دھن میں لگ گیا اور کامیاب ہوگیا۔اگرہم مندرجہ بالا مثال کو سامنے رکھ کر زندگی کے تمام شعبوں میں ایمانداری اور جہد مسلسل کو اپنا شعار بنا لیں تو کامیابی و کامرانی کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی ترقی میں بھی ہم اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں