کیا حق اور ناحق کی تشخیص ممکن ہے؟

بے ترتیبی زندگی کو خراب کرتی چلی جاتی اور یہ بے ترتیبی کب ، کیسے اور کہاں سے آجاتی ہے ہمیں اس کا علم اس وقت ہوتا ہے جب بے ترتیبی بہت کچھ بگاڑ چکی ہوتی ہے اور ہمیں کہیں دور لا چکی ہوتی ہے ۔ کسی دانانے خوب کہا کہ اندھیرے کا اپنا کوئی وجود نہیں درحقیقت روشنی کی عدم دستیابی اندھیرا کہلاتی ہے۔ بالکل اسی طرح سے بے ترتیبی بھی ترتیب سے دھیان چونکنے کے باعث وجود میں آجاتی ہے اور اس بے ترتیبی پر دھیان نا دیا جائے تو ترتیب کے نقوش مٹنا شروع ہوجاتے ہیں(ہمارے ملک کے بہت سارے ادارے اسکا منہ بولتا ثبوت ہیں) اور یہ وہ نقوش ہوتے ہیں جو سوائے کاش کہ کچھ بھی نہیں چھوڑتے ۔ ہر انسان اس حقیقت سے بہت اچھی طرح واقف ہے کہ موت کا کوئی وقت متعین نہیں ، اگر تعین ہے تو اس کا علم سوائے خالق کے اور کسی کو بھی نہیں۔یہ غیر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ انسان تمام عمر ابہام کے سمندر میں غوطہ زن رہتا ہے اور آخر کار اسی سمندر میں ہاتھ پاؤں چلانے کی سکت ختم ہونے کے باعث غرق ہوجاتا ہے ۔
دنیا آج سچ اور جھوٹ کے درمیان جھول رہی ہے ، شائد کہنے والے نے یہ آج کے دور کیلئے ہی کہا تھا کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ کی شکل اختیار کرلے لیکن اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ سچ ختم ہوجائے گاسچ تو ایسی دائمی حقیقت ہے جو ایک نا ایک دن قدرت سامنے لے ہی آتی ہے ۔ انسان کی انفرادی اہمیت اس کی سچائی ہے اس کا ذمہ دارانہ رویہ ہے بصور ت دیگر آج ہر انسان پیسے کے پیچھے پاگل ہوچکا ہے جس کے حصول کیلئے بیدریغ بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کہ بس پیسے کا حصول ممکن بنانا ہے۔کاروبار جھوٹ پر ہورہے ہیں، سامنے سامنے جھوٹ بولے جاتے ہیں ماتھے پر نماز کا نشان اور زبان پر جھوٹ ۔ سچ کی عدم دستیابی سچ کو بھی غائب کرنے کی ایک سازش دیکھائی دے رہی ہے جس میں آپ ، آپ اور ہم سب بھی اسکا حصہ ہیں۔
معلوم نہیں دنیا کو امن و امان کا گہوارہ بنانے کا خواب کس نے دیکھا ہوگا اور معلوم نہیں اسکی کیا سمجھ ہوگی، یہ ایک انتہائی ڈراؤنا خواب ثابت ہورہا ہے ۔اس امن کے متوالے نے اگر امن کیلئے ذاتیات پر مبنی کوئی منشور مرتب دیا تھا تو وہ کوئی انتہائی ظالم آدمی تھا۔آج دنیا میں بڑے بڑے ادارے حقوق انسانی کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ نجی اور سرکاری ادارے انسانیت کی خدمت کی مد میں ادارے کے سالانہ بجٹ میں خطیر رقم رکھتے ہیں اور خرچ بھی کرتے ہیں۔ انسانیت کی بقاء کیلئے اربوں کھربوں ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں۔جسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی طرح دنیا امن و سلامتی سے رہنے والی جگہ بن جائے۔لیکن یہ امن و سلامتی کی رہنے کی جگہ جب ہی ممکن ہوسکتی ہے جب تمام انسانوں کے حقوق مساوی ہوجائیں ، طبقاتی نظام ختم ہوجائیں، گورے کالے کا فرق ختم ہوجائے۔مختصراً یہ کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کا آخری خطبہ دنیا پر نافذ العمل کردیا جائے۔
ہم جس کسی سے بھی ملتے ہیں وہ بہت بھلا مانس دیکھائی دیتا ہے لیکن معلوم نہیں کیوں کچھ دیر کہ بعد ملنے والا پہلے ملنے والے کی وہ وہ کہانیاں سماعتوں کی نظر کرتا ہے اور بے اعتباری کو بھرپور تقویت پہنچاتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے ہر فرد یہ کہتا ہے کہ وہ جو کہہ رہاہے اسے سنا جائے اور اس پر ہی عمل کیا جائے یہ وہ فلسفہ ہے جو کہ ہمارے حکمرانوں نے مرتب کر رکھا ہے اور جب وہ صاحب اقتدار ہوتے ہیں تو بس ایسے ہی کرتے چلے جاتے ہیں ۔ یعنی پوری قوم کی سوچ کو بادشاہت کی ذہنیت کے مقابلے میں لاکر کھڑا کردیا ہے ۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان میں سیاست دانوں کی کوئی شخصی ساکھ نہیں ہے ، ہر شخص ہی نجی بیٹھکوں میں ان معززین کو طرح طرح کے القابات سے پکارتے ہیںیہ بھی ممکن ہو کہ یہ سب جانتے ہیں ، ایک اندازے کیمطابق لوگ کسی نا کسی مجبوری کے تحت ان کے پیچھے چلنے پر مجبور ہیں۔ اس مجبوری سے ہم پاکستانی کب چھٹکارا حاصل کرینگے ؟ مشکل یہ ہے کہ ابھی آپ چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کر کے دیکھ لیں، سبق آموز واقعات رونما ہونا شروع ہوجائینگے۔ پاکستان کو جہاں پانی کیلئے ہنگامی بلکہ جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی نوبت آچکی ہے بلکل اسی طرح تعلیم کی مکمل بحالی کیلئے بھی جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کیساتھ ساتھ انہیں یقینی بھی بنانا ہوگا۔
گزشتہ حکومتوں نے کبھی بھی پاکستان کی روح پر لگے زخموں کے حالات سے عوام الناس کوآگاہ نہیں کیا، کسی نے سڑکیں بنانے پر ساری توجہ مرکوز رکھی اور عوام کو سڑکوں پر رہنے دیا اور دوسری حکومت کا کیا تو اب صحیح طرح سے منظر عام پر جلوا افروز ہوا چاہتا ہے۔ موجودہ حکومت کو ابھی مشکل سے چاریا پانچ مہینہ ہوئے ہیں جہاں ایک طرف تو انتہائی بری حالت میں پہنچے زخموں پر سے بیدریغ پردہ ہٹا یا ہے تو وہیں ہنگامی بنیادوں پران زخموں کے علاج معالجے کے بندوبست کئے جا رہے ہیں۔موجودہ حکومت کا ہر وزیر ایک پیشہ ور ماہر کی طرح اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف عمل ہے جس کی وجہ بابائے قوم کا فرمان کام ، کام اور کام ہے ۔ ستر سالوں سے پاکستان ایسے لوگوں کا منتظر تھا جو پاکستان کے اپنے ہوں اور جن کا پاکستان اپنا ہو، جنہیں بھاگ بھاگ کر ملک سے باہر جانے کی نا پڑی رہے اور جو اپنے ہم وطنوں کیساتھ دکھ سکھ میں شریک ہوں۔
بہت دنوں سے لکھنے پر دل آمادہ نہیں ہورہا تھا لیکن اس یقین کیساتھ پھر بر سر پیکار ہوا ہوں کہ بہت تھوڑے وقت میں پاکستان نا صرف خودکفیل بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی شرائط کو پورا کرتا دیکھائی دے گااور اللہ کے حکم سے ہر پاکستانی کو حق اور ناحق اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھائی دینے لگے گا۔ہم پاکستانی بے ایمانی ، جھوٹ اور نفرت کو ترک کردینگے۔ پھر پاکستان سے خوف ،خوفزدہ ہوکر بھاگتا دیکھائی دے گااور ہم پاکستانی ساری دنیا کے سامنے سر اٹھا کر جی سکینگے اور اپنی اپنی زندگیاں ترتیب سے گزار سکیں گے۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں