“میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں”‎

اس کی خاموش اور سہمی ہوئی آنکھوں نے مجھے کئی راتوں تک سونے نہیں دیا ہاتھ میں جھولتا دودھ کاخالی فیڈر بالکل اسکی خالی خالی حیران و پریشان آنکھوں کی طرح۔۔۔۔
کچھ سوال تھے اس کی ان خالی آنکھوں میں،دودھ کے اس خالی فیڈر میں بلکہ اسکا پورا وجود اس لمحے سراپا سوال بنا ہواتھا ایک ایسا سوال جس کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔۔۔۔
کچھ کھونے کا سوال کچھ چھن جانے کا سوال ان زخموں کے بارے میں جو اس کی معصوم جسم اور روح نے کچھ لمحے پہلے جھیلے،ایسے زخم جن کو کبھی بھرنا نہیں تھا جو اسکے معصوم ذہن کے لیئے شائد قابل قبول نہ تھے، ایسے زخم ایسے گھائو جس نے اس سے رونے سسکنے اور چیخنے کی بھی صلاحیت چھین لی۔۔۔۔۔۔
“سانحہ ساہیوال” کی بازگشت کتنے دونوں تک کانوں میں سنائی دیتی رہی،ہر آنکھ اشک بار ہر چہرہ پرملال،انصاف کی امید جو ہر گزرتے دن کے ساتھ دم توڑ گئی۔۔۔۔۔
ہمارے لیئے یہ سانحہ ایک خبر تھا ہر آنے والی خبرکی طرح پرانکے لیئے واقعی سانحہ تھاجن پر یہ بیت گیا ایک ایسا سانحہ جوان ننھے وجودوں کے لیئے تا عمر ناقابل فراموش و ناقابل تلافی ٹھہرا،۔۔۔۔۔
خوف و دہشت، عدم تحفظ،بے اعتباری،تنہائی اور ایسے بہت سے منفی جذبات جو ان کے وجود میں پیوست کر گیااوران کے وجود کو لہو لوہان کر گیا۔۔۔۔
خون میں لت پت لاشیں گولیوں سے چھلنی جسم پکار پکار کے کہ رہے تھے “میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں کہ سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے”
یہ دنیا کی عدالتیں ہیں جو بانجھ ہیں جہاں انصاف نہیں، جہاں عدل ناپید،جہاں گواہاں غائب،جہاں سفارش کا دور دورہ ،جہاں رشوت و چاپلوسی عام،جہاں کے منصف و قاضی اور قانون کے رکھوالے خود مجرم و قاتل وہاں کہاں کا انصاف اور کیسی امید عدل۔۔۔۔۔
امید اگر کہیں باقی ہے تو بس اسی ایک عدالت سے جسے ابھی قائم ہونا ہے،جسے ہر جابر وقت ہر سفاک مجرم بھلائے ہوئے ہے، اور اسی بھلاوے نے اسے بے باک کردیا ہے،اس دن مظلوم کا خون خود گواہ ہوگا،مجرم کے ہاتھ اور پاوں جو یہاں شریک جرم تھے خود اس کے خلاف حجت کے لیئے کافی ہونگے،اس دن وہ منصف ہوگا جس سے بڑا کوئی منصف نہیں،اسکی جناب میں نہ کسی کی سفارش کام آئے گی نہ ہی فدیہ قبول کیا جائے گا، وہ دن ہوگا جب انسانیت کے قاتلوں کو پیشانی کے بالوں سے پکڑ کے گھسیٹا جائے گا،اوراسکی بے آواز لاٹھی ہر خطاکر پیٹھ پر برسے گی پھرہر دیکھنے والی آنکھیں دیکھ لے گی انصاف کسے کہتے ہیں عدل کیسے قائم ہوتا ہے منصف کسے کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
ہاں اب ہر مظلوم و مقتول اسی حشر کا منتظر ہے جسکے برپا ہونے میں اب زیادہ وقت نہیں تاریخ گواہ ہے جب ظلم وجبر حد سے بڑھتا ہے توپھر قیامتیں ہی برپا ہوا کرتی۔۔۔۔۔۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں