(جزیرۃ العرب سے عمرہ)
سفرِ ِ سعادت
ہمیں جزیرۃ العرب میں داخل ہوئے تیسرا دن تھا جب صاحب نے دفتر سے آتے ہی خوشخبری سنائی: ’’عمرہ کا پروگرام بن رہا ہے ان شاء اﷲ‘‘۔ کب، کیسے، کس کے ساتھ ؟؟ ایک ساتھ کئی سوال ذہن پر ابھرے، ہم نے فوراً تلبیہ پڑھنی شروع کر دی، آج تو گویا قسمت کھل گئی تھی۔ اگلے دو تین دن تیاریوں میں گزر گئے، یہ سفر مبارک بھی تھا اور عین سعادت بھی۔ نئے احرام خریدے گئے (حالانکہ پاکستان سے آنے والے سامان میں بھی ایک احرام خاص طور پر رکھا گیا تھا)، ہمیں آنے والی جمعرات کو ’’حملے‘‘ کے ساتھ جانا تھا، (’’حملہ‘‘ سعودی عرب میں بس کے ذریعے سفرِ سعادت کے لئے مستعمل ہے، شاید ہر عمومی سفر کے لئے بھی استعمال ہوتا ہو، ہم نے تو عمرے والی بسوں کے ہی عقب میں لکھے ہوئے دیکھا)، اور اس سفر کا خوشگوار پہلو یہ تھا کہ ہمارے نئے نئے دوست احباب ہمراہ تھے، یعنی اپنی کمیونٹی کے افراد اکٹھے عمرہ کرنے جا رہے تھے، ایک تو سفرِ شوق اور پھریہ قرآن کے تعلق سے جڑنے والوں کا سفربھی تھا، بس خوشی کے سارے لوازمات پورے ہو رہے تھے، اور جس کے نہ جانے کی خبر ملتی اس پر ہمیں بھی افسوس ہوتا۔
۱۳ اکتوبر کو سفر شروع ہونا تھا، اس سے پہلے ہی ہم نے خوب زادِ راہ (جوسسز، پانی، پھل، کھانا، وغیرہ) اکٹھا کر لیا، بچے اور صاحب واپس آئے تو سب کچھ تیار تھا، انہوں نے جلدی جلدی تیار ہو کر سامان باہر رکھا، ایک ڈاکٹر صاحب ہمیں لینے آگئے اور دن ڈھائی بجے سے قبل ہم مقررہ مقام پر پہنچ گئے، تقریباً سبھی لوگ پہنچ چکے تھے، بس میں داخل ہوئے تو قدرے گرمی کا احساس ہوا، اس سفر مبارک کا آغاز ہی شکوے سے نہیں ہونا چاہئے، ہم نے خود کو دعا کی جانب متوجہ کیا، آہستہ آہستہ سب افراد سیٹوں پر بیٹھ گئے، اگلی سیٹوں سے آواز بلند ہوئی، گاڑی میں ٹھنڈک کافی کم ہے، ہمارے صاحب نے ہماری طرف دیکھ کر تائید چاہی، ہم دعا کی کتاب کو پنکھا بنائے ہوا لے رہے تھے، ڈرائیور بولا: ’’صاب بس سپیڈ پکڑے گی تو ٹھنڈک بھی ہو جائے گی‘‘، ہمیں گرمی کا احساس ہوتا تو کھڑکی سے جھانک کر سپیڈ کا اندازہ کرنا چاہتے، گاڑی فراٹے بھر رہی تھی، اور اسی رفتار سے پسینہ چوٹی سے ایڑی کا سفر طے کر رہا تھا، ہم نے پھر بے بسی سے دائیں بائیں دیکھا، سبھی گرمی سے بے حال نظر آئے، سوائے ڈرائیور کے، جسے یقین تھا کہ سفر شروع ہونے پر اے سی کام کرنے لگے گا۔ چھوٹے بچے بس کی رفتار پکڑنے اور اے سی کے تکنیکی تعلق سے بے خبر منہ کھول کر رونے لگے، اب انتظامیہ کو بھی احساس ہوا کہ دس گیارہ گھنٹے کا سفر اس تنور میں نہ ہو سکے گا، انہوں نے ڈرائیور کو ذرا درشتی سے اے سی تیز کرنے کو کہا، ڈرائیور نے اپنا بیان دہرانے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ اسے ڈانٹ کر بس روکنے کا حکم دیا، ڈرائیور نے بس کنارے کی جانب کر کے روک دی، امیر صاحب نے موبائل نکالا اور حملہ آفس کا نمبر ملایا: ’’میں ۔۔۔۔۔ بات کر رہا ہوں، آپ نے جو بس بھیجی ہے اسکا اے سی کام نہیں کر رہا، ہم فلاں جگہ کھڑے ہیں دوسری بس بھیجو ‘‘، دوسری جانب سے مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی، مگر یہ کیا، دوسری جانب کی آواز (یعنی پورا مکالمہ ہمیں بھی سنائی دے رہا تھا، ) اور یہ آواز ہمارے اندازے کے مطابق گاڑی کے اگلے حصّے میں سے آرہی تھی، ایک صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو متوجہ کیا: ’’یہ تو ڈرائیور کا نمبر ملا دیا ہے آپ نے، وہی جواب دے رہا ہے‘‘، اس گفتگو کے بعد بس میں ٹھنڈک میں اضافہ تو نہ ہو سکا، البتہ سواریوں کے مزاج میں شگفتگی ضرور پیدا ہو گئی۔
پھر بس چلنے کا اشارہ ہوا، کہ بریدہ اپنے دفتر چلو، وہاں جا کر بس تبدیل کرواتے ہیں، حملہ والوں سے بات بھی ہو گئی، اور بریدہ میں ایک پٹرول پمپ پر بس روک لی گئی، نمازِ عصر کا وقت تھا، خواتین مصلی النساء (عورتوں کا نماز کا حصّہ) میں داخل ہو گئیں، اور مرد مسجد کے مرکزی حصّے میں۔ نماز ادا کر کے خواتین کمر سیدھی کرنے کو لیٹ بھی گئیں، اور آہستہ آہستہ باہر سے چائے کافی اور بچوں کی آئسکریم وغیرہ آنی شروع ہوگئی، وقت گزرنے کے ساتھ یہ خیال بھی پریشان کر رہا تھا کہ وقت گزر رہا ہے، کچھ خواتین ذکر اذکار میں، کچھ میل ملاقات میں مشغول تھیں جب کسی بچے نے آکر آواز لگائی: ’’دوسری بس آگئی!!‘‘، سب تیز قدموں سے باہر نکلے، مگر یہ کیا؟ اس بس سے مسافر باہر نکل رہے تھے، یعنی یہ دوسری عمرہ زائرین بس تھی! سب پھر واپس آگئے، اس عزم کے ساتھ کہ اب کے مصدقہ اطلاع کے بغیر باہر قدم نہ نکالیں گے۔ ایک مرتبہ پھر باہر آجانے کی آواز آئی، مگر اکثر خواتین ٹس سے مس نہ ہوئیں، پھر مردوں میں سے کسی کی آواز آئی، باہر آجائیں، باہر وہی بس کھڑی تھی، سابقہ تنور! ہم ہچکچاتے ہوئے اندر داخل ہوئے، بیٹھ کر فضا کا جائزہ لیا، گرمی میں کچھ کمی محسوس ہوئی، یہ آفتاب کے مغرب کی جانب جھک جانے کے سبب تھا، یا واقعی اے سی کی کارکردگی بہتر ہو گئی تھی ، ابھی ہم شش و پنج میں تھے کہ ایک صاحب نے ڈرائیور سے پوچھا، بھئی راستے میں تمہارا اے سی تنگ تو نہیں کرے گا، ڈرائیور نے پورے یقین سے کہا: ’’صاحب اے سی بالکل ٹھیک کام کرے گا، بلکہ اتنا ٹھنڈا کرے گا کہ آپ کو کمبل کی ضرورت پڑے گی‘‘، اس آخری دعوے کو سب نے ہی مبالغہ سمجھا، بلکہ مسکرا کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا، اب اسے کیا ٹوکنا، پہاڑی محاورہ ہے: ’’کَچھ گھوڑا تے کَچھ مدان‘‘، یعنی گھوڑا بھی موجود ہے اور میدان بھی، ابھی تصدیق ہوا چاہتی ہے۔ ابھی سفر شروع ہوئے آدھا گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ ڈرائیور کے دعوے کی تصدیق شروع ہو گئی، پہلے تو اے سی کے سوراخوں سے نکلنے والی ٹھنڈک نے سب کو مسرور کیا، سب نے اﷲ کا شکر ادا کیا، بلکہ دماغ ٹھنڈے ہوئے تو زادِ راہ کے تھیلے بھی ڈھیلے ہونے لگے، کہیں سے جوس نکلے، کہیں سے پھل، جو بھی اپنا تھیلا ڈھیلا کرتا سوغاتیں بس کے اندر چاروں جانب پھیل جاتیں، ایک صاحب کھجور اسکے خوشوں سمیت لائے ہوئے تھے، اور سب سواریاں حسبِ ضرورت اور حسبِ خواہش اپنی پسند کی کھجوریں چن رہی تھیں، مجھے نبی رحمت ﷺ کے وہ صحابی یاد آگئے جو نبی ﷺ اور اصحاب کو اپنے باغ میں لے گئے تھے اور کھجور کا خوشہ لا کر آ پ کے سامنے رکھا تھا، اور استفسار پر کہا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ آپ ﷺ اپنی پسند سے کھجوریں چن کر تناول فرمائیں، واقعی یہاں بھی خوشے میں لگی ہوئی کھجوریں پکی ہوئی بھی تھیں، ادھ پکی بھی اور کچھ سخت بھی، سب لوگ حسبِ ذائقہ لیتے جا رہے تھے، ڈاکٹر ادی (سندھی میں بہن کو کہتے ہیں، انہیں اسی نام سے بلوانا پسند ہے) ڈھیر سارے انڈے ابال کر لائی تھیں، جو بس میں ’’آنڈے، گرم آنڈے‘‘ کی صدا کے ساتھ تقسیم ہو رہے تھے، سینڈوچز بھی تھے، اور مٹھائی بھی، یہ اجتماعی سفر کی برکت تھی کہ جو کچھ بھی پیش ہوتا سب کو بانٹ کر کچھ بچ بھی رہتا، بس میں دو چار جگہ کوڑا ڈالنے کے لئے تھیلے باندھ دیے گئے تھے، اور اتنی خوشگوار فضا اور پیٹ پوجا کے بعد دعائیں مانگتے ہاتھ ڈھیلے پڑنے لگے، اورعمرہ زائرین آہستہ آہستہ نیند کی وادی میں پہنچ گئے، بس میں یہاں وہاں ہلکی پھلکی حرکت اور زادِ راہ کھلنے اور اب کی بار ان سے بچوں کے کمبل چادریں سویٹر وغیرہ نکلنے شروع ہوئے، جو لوگ حملہ بس کے ذریعے عمرے کے عادی تھے وہ پورے لوازمات کے ساتھ موجود تھے، جب کے ہم جیسے نوواردوں نے صاحب کی اکلوتی ٹوپی بھی بس کے نچلے حصّے میں بیگ میں محفوظ رکھی ہوئی تھی۔ ایک بیگم صاحبہ نے بچوں کے ٹھنڈے ہونے کی دہائی دی، ڈرائیور سے فرمائش کی گئی کہ اے سی ذرا آہستہ کر دو، وہ ٹس سے مس نہ ہوا، کچھ دیر بعد باصرار مطالبہ دہرایا گیا، پھر بھی کچھ نہ ہوا، آخر ایک ذمہ دار صاحب نے حکم دے کر کہا: ’’اے سی آہستہ کر دو، بچے ٹھنڈے ہو رہے ہیں‘‘، ڈرائیور نے بھی سپاٹ لہجے میں جواب دیا: ’’صاحب اے سی کی تار انجن کے ساتھ ایڈجسٹ کی تھی، اے سی آہستہ کروں تو انجن بند ہو جاتا ہے‘‘، اس خبر نے ہماری رہی سہی حرارت بھی منجمد کر دی، ہم نے آرام سے ہینڈ بیگ سے دوپٹہ نکال کر صاحب کی طرف بڑھا دیا، جو بس کی کھڑکی کا پردہ لپیٹ کر خود کو برفانی لہروں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
نمازِ مغرب کے لئے بس روکی گئی تو واپسی پر سب کے ہاتھ میں چائے یا کافی کے کپ تھے، ٹھنڈی ٹھنڈی بس میں گرم گرم کافی عجب مزا دے رہی تھی، زادِ راہ میں سے انڈے اور بسکٹ وغیرہ بھی نکل آئے تھے، قافلے کے لڑکے بس کی پچھلی نشست میں اکٹھے ہو گئے تھے، اور کچھ سہیلیاں ایک طرف!
ہماری بس شاید عفیف شہر سے گزری تو یہاں نماز کا وقت تھا، مسجد سے نماز کی آواز آرہی تھی اور بازار سنسان، دکانیں انواع واقسام کے سامان سے لدی ہوئی تھیں مگر نہ کوئی بیوپاری تھا نہ خریدار!! سعودی عرب میں آنے کے بعد یہ خوبصورت منظر دل میں کھب کر رہ گیا، قرآن کی آیۃ ’’والذین ان مکناھم فی الارض لأقاموا الصلاۃ ۔۔ ‘‘ کا عملی نمونہ!!
کچھ دیر بعد بس نے رفتار آہستہ کی اور اعلان ہوا کہ یہاں پر نمازِ عشاء اور عشائیہ کا وقفہ ہے، نیچے اترے، کھانے کے لوازمات اٹھائے، سامنے سرائے نما عمارت تھی جس پر تحریر تھا، ’’شقق مفروشہ مجاناً‘‘، یعنی یہ کارپٹڈ چھوٹے چھوٹے حجرے فری آف کاسٹ ہیں، یہاں پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر جس حجرے پر چاہے قبضہ کر لیجئے، اور کھانا کھا کر باقیات سمیٹ لیجئے، اگرچہ کئی حجرے ایسے تھے جہاں کھانے والوں نے بعد والوں کی سہولت کا خیال نہیں رکھا تھا، سب نے انتہائی کم وقت میں توشہ دان کھولے، ہر ایک اپنا کھانا نکال کر دوسرے حجرے والوں کو بھجوا دیتا، یہاں بھی بچے بہترین قاصد بنے ہوئے تھے، کھانے اور نماز سے فارغ ہو کر بس میں پہنچے تو جہاں چائے کی خوشبو منتظر تھی، وہاں کچھ اصحاب نئے کمبل خرید کر مزے سے لپیٹے بیٹھے تھے۔
باقی سفر اس حال میں گزرا کہ ہم سردی سے بچنے کے لئے کبھی ہاتھوں کی گرمائش سے کام لیتے اور رگڑ کے اصول سے ایک پاؤں سے دوسرے کو گرم کرتے، ہمارے ساتھ بیٹھی صاحبزادی بھی رگوں میں خون جمنے کی شکایت کر رہی تھی، اور بیٹا اپنے گالوں پر ہاتھ پھروا کر بہادر بننے کی کوشش کر رہا تھا، کہ وہ کتنی بہادری سے سردی کا مقابلہ کر رہا ہے، دانت بجائے بغیر!! خدا خدا کر کے میقات آیا، ہم تو خوش تھے، کچھ دیر مسجد میں وقت گزار آئیں گے، مگر مردوں نے اگلا سفر احرام میں گزارنا تھا، اب بے رحم اے سی کے مقابلے میں تلبیہات کی گرمی تھی، مردوں کے کمبل اتر چکے، سر ڈھانپ نہیں سکتے، کوئی سلا کپڑا، بنا ہوا سویٹر پہن نہیں سکتے، مگر تلبیہہ کی پکار نے سب کو گرم کر دیا، بقیہ سفر کہیں سے سردی کی آواز نہ سنائی دی، ہم خواتین تو ویسے ہی مزے میں تھیں، ہمارا لباس ہی ہمارا احرام تھا، سوائے چہرہ کھولنے کے!!!
ابتدائے سفر میں ہونے والی تاخیر نے ہمارا کافی نقصان کر دیا تھا، ہم مکہ پہنچ کر بھی حرم کی نمازِ فجر سے محروم تھے، ہوٹل میں نمازِ فجر ادا کر کے ہم عمرے کے مناسک کی ادائیگی کے لئے نکل کھڑے ہوئے، باہر نکلے تو کچھ اندازہ نہ تھا کہ حرم کتنا دور ہے، ایک صاحب سے سمت معلوم کر کے چلنا شروع کر دیا، ایک ٹیکسی حرم کی آواز لگا کر کھڑی بھی ہوئی مگر ہم نے کچھ زیادہ توجہ نہ دی، اتنے طویل سفر نے ویسے بھی تھکا دیا تھا، قدموں کی رفتا ر آہستہ ہونے لگی، صاحب کافی آگے نکل جاتے، پھر رک کر ہمارا انتظار کرتے، ہمارے گھٹنے سے اٹھنے والی ٹیسیں ہمیں بار بار مجبور کر دتیں اور ہم تلبیہہ کے بجائے آیاتِ شفا پڑھنے لگتے، آخر کارصاحب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو انہیں ہماری حالت کا اندازہ ہوا، ایک ٹیکسی رکی اور ہم اس میں بیٹھ گئے، جس نے حرم کے کافی قریب اتار دیا، حرم میں داخل ہوئے تو اشراق کا وقت تھا، ایک خوبصورت صبح!! حرمِ کعبہ کی صبح کا کیا کہنا!!مطاف میں قدم رکھا تو ایسے لگا ساری تھکاوٹ دور ہو گئی ہے، جسم کی بھی اور روح کی بھی!!
خانہ کعبہ کی پرشکوہ عمارت پوری شان سے کھڑی تھی، اسکے گرد گردش کرتے پروانے، اﷲ سے رحمت اور مغفرت مانگ رہے تھے، دنیا و آخرت کی بھلائیاں اور اور آگ سے نجات کے خواہش مند تھے۔ اس دن اور اس وقت طواف کرنے میں بہت مزا آرہا تھا، یہ ہماری بہت بڑی حسرت تھی کہ اﷲ اپنے گھر کے کہیں قرب و جوار میں آباد کر دے، اور ہم بار بار حاضری دے سکیں، اور یہ دعا کئی برس کے انتظار کے بعد پوری ہوئی تھی، اس عمرے کی شان ہی نرالی تھی، اور اسکا سرور بالکل جدا!!
طواف کے سات چکر پورے کر کے ’’واتخذوا من مقام ابراہیم مصلّی‘‘ پڑھتے ہوئے مطوفین کے دائرے سے نکل کر مقام ابراہیم کے عین پیچھے پہنچے اور دو رکعت نماز ادا کی، دعا مانگتے ہوئے کعبہ نگاہوں کے سامنے تھا، اپنے وجود کی کم مائیگی کا احساس ہو رہا تھا، اور رب کی بے انتہا رحمتوں کا، بے اختیار دل سے دعا نکلی: ’’ربّ اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علیّ وعلی والدیّ وان اعمل صالحاً ترضاہ، ۔۔۔ ‘‘(اے اﷲ مجھے توفیق دے کے میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پرکی ہیں، اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو راضی ہو جائے ۔۔ )۔
آبِ زم زم سے سیراب ہو کر صفا مروہ کی جانب چلے، لیکن سعی کی جانب اٹھتے قدم ڈگمگانے لگے، میری ٹانگوں کی ہمت جواب دینے لگی، وہیں سعی کے ایک ستون کے ساتھ کچھ دیر کے لئے بیٹھ گئی، میاں اور بچے پریشان، سب مل کر اﷲ سے دعا مانگنے لگے، اسی رب نے ہمت دی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھانے شروع کئے، صفا سے مروہ تک پہنچتے دو مرتبہ سستانے کو بیٹھی، حضرت ھاجر ؑ نے سات چکر کیسے لگائے ہوں گے، پانی کی تلاش بھی اور زمین پر لیٹے بچے کی فکر بھی، سبز روشنیوں کے درمیان جب شوہر اور بیٹے اور دنیا کے تمام مرد بھاگ بھاگ کر اس سعی کا اکرام کر رہے ہوتے ، میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی حضرت ھاجرؑ کے کردار کو سوچتی چلی جاتی، وہ تمام نعمتیں جو انکے ذریعے ہمیں ملیں، ان میں ایک زم زم بھی ہے، جو دوا بھی ہے، سیرابی بھی اور شفا بھی، اسکے فضائل اتنے ہیں کہ جس نیت سے استعمال کریں وہی حاصل ہوتی ہے، اور حضرت عبد اﷲؓ اسے قیامت کے دن حشر کے میدان کی پیاس سے بچنے کی دعا کے ساتھ پیتے!!
سعی کے چوتھے چکر میں جب مروہ سے صفا کی جانب جا رہے تھے، تو درمیان میں سیڑھیوں کے پاس ایک وہیل چیئر رکھی تھی، صاحب نے بیٹے سے کہا، ذرا دیکھنا کسی کی تو نہیں ہے، ہم جب تک وہاں پہنچے اسے کسی نے نہ لیا، بلکہ جو لوگ اس کے پاس بیٹھے تھے وہ بھی اٹھ کر چلے گئے، ہم نے دیکھا تو اسکے سائیڈ پر لکھا تھا ’’وقف للحرمین الشریفین‘‘، بس اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے میں اس پر بیٹھ گئی، اور باقی کی سعی آسان ہو گئی، اب گزشتہ سب دعاؤں کے ساتھ انکے لئے خاص دعائیں بھی تھیں جو اس کرسی کو دھکیل رہے تھے، خاص طور پر بیٹے کے لئے جو دوہرا اجر کما رہا تھا، پھر اس عطیہ ء حرم کو ہم نے اگلے دن تک استعمال کیا۔ ہمارے بیٹے کو بار بار احساس ہو رہا تھا کہ اسے حرم سے باہر نہیں لے جانا چاہئے، اسے بھی تسلی دلائی کہ یہ اﷲ کے مہمانوں کے لئے عطیہ ہیں، استعمال کریں اور چھوڑ دیں۔
ہم حرم سے باہر نکلے، ٹیکسی لی اور شاہراہ الھجرہ کی جانب رخ کیا، اندازے کے مطابق ہوٹل کے قریب ایک پاکستانی ریستوران کے سامنے ٹیکسی سے اتر گئے، ناشتا لیکر ہوٹل کی جانب چلے، مگر معلوم ہوا، کہ یہ تو ہمارا ہوٹل نہیں ہے، گتا نما ٹرے سے چائے کے چار کپ الٹ کر سڑک پر گر چکے تھے اور ہم ’’جواہرۃ القصر الابیض‘‘ ڈھونڈ رہے تھے، ایک ٹیکسی والے کو ہوٹل کا کارڈ دکھایا تو وہ بولا، اس پر تو انکے ہوٹلوں کی پوری چین کے نام ہیں، آپ نے کس والے میں جانا ہے، اور اس صبح مٹر گشت کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ مکہ میں ہوٹلوں کی کثرت کے ساتھ ناموں کی مماثلت بھی کافی زیادہ ہے، کوئی منارۃ قصر الابیض ہے تو کوئی جواہرۃ القصر الابیض، اور اسی سے ملتے کئی نام۔ ہم نے اسکا انگریزی ترجمہ کیا تو بہت سے ہوٹل ’’وائیٹ ہاؤس ‘‘ تھے، امریکہ کا وائیٹ ہاؤس اس سے زیادہ پر تعیش ہو تو بھی ان قصر الابیض کی شان اس سے کہیں زیادہ تھی، ان میں اﷲ کے مہمان ٹھہرتے ہیں، ہم انہیں سوچوں میں گم تھے جب صاحب نے ٹیکسی روکی اور اس نے کچھ نشانیاں پوچھ کر ہمیں ہمارے ’’قصر الابیض‘‘ میں پہنچا دیا۔
چند گھنٹے بعد ہم پھر جمعہ ادائیگی کے لئے حرم کے باہر موجود تھے، اندر جانے کی گنجائش موجود نہ تھی، اس لئے ہم نے صحن میں ایک جگہ پڑاؤ ڈال دیا، جمعہ ادائیگی کے بعد ہمارے بھانجے مجاہد اور انکی بیگم حرا سے بھی ملاقات ہو گئی، ہم رات تک اکٹھے رہے، رات گئے مجاہد نے ہمیں ٹیکسی لے دی اور اپنے طور پر اسے بہت اچھی طرح راستہ سمجھا دیا، ڈرائیور نے اس وقت تو سر ہلا دیا، مگر راستے کی بھول بھلیوں میں ہوٹل پھر گم ہو چکا تھا، ڈرائیور جو شاہراہ الھجرۃ پر پہنچ کر راستہ پوچھ رہا تھا، بیٹے نے ہمیں نیند سے اٹھایا: ’’ امی جان اسے راستہ بتا دیں،ذرا بتا تو دیں رائٹ ہینڈ کو کیا کہتے ہیں؟ ہم نیم غنودگی میں بولے : سیدھے ہاتھ! اور وہ سر پکڑ کر بولا:’’ اماں جی، عربی میں‘‘ ہمارے عربی جواب سے پہلے ڈرائیور خود ہی ایک جانب مڑ چکا تھا، کیونکہ ٹریفک کی روانی میں خلل آرہا تھا، آخر کار بس گروپ کے ایک ساتھی کو صاحب نے فون کیا تو انہوں نے ڈرائیور کو سمجھایا، یوں ہم رات گئے منزل پر پہنچے۔
اگلی صبح فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد مدینہ کی جانب سفر شروع ہوا، بس فراٹے بھرتی مدینہ کی جانب جا رہی تھی، اور ہمارے دل خوشی سے سرشار!!! جس قدر درود و سلام کا ہدیہ پیش کر سکتے تھے، اسی جانب متوجہ تھے، درمیان میں کچھ دیر آرام بھی کیا، بس راستے میں دو مقامات پر رکی، اور ضروریات کی ادائیگی کے بعد پھر بس چل پڑی، مدینہ آنے سے پہلے ہی اس کی خوشبو دل و دماغ کو معطر کر رہی تھی، ظہر کی نماز کے وقت بس نے حرمِ نبوی کے بالکل قریب اتارا، اذان ہو چکی تھی، قدم تیزی سے صحنِ مسجد کی جانب گامزن تھے، بمشکل صحن میں پہنچے تھے کہ اقامت اور پھر جماعت شروع ہو گئی، جو باوضو تھے وہ پہلی رکعت ہی میں شامل ہو گئے، نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد باب عثمان بن عفان سے مسجدِ نبوی میں داخل ہوئے، بس سے اترتے ہوئے جو ہدایات دی گئی تھیں، ان میں نماز کی ادائیگی کے کچھ دیر بعد کھانے اور پھر واپسی کا پروگرام تھا، مسجدِ نبوی کی اپنی ہی ایک تاریخ تھی، اتنی محبت سے بنائی گئی مسجد نے ہر دور میں محبت ہی کے مناظر دیکھے ہیں، ہر جانب حسن ہی حسن اور درو دیوار سے ٹپکتا نور!! دل چاہتا تھا بس ہماری پیشانی ہو اور حرمِ نبوی کی سرزمین ہو، رب سے مناجات کا اس سے بہتر موقع کہاں ملتا، اتنے تھوڑے سے وقت میں کیا کیا کیا جائے، اﷲ تعالی ہر لمحہ کے اجر کو بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے، اور بار بار حرمین کی جانب لے کر آئے، ہر بار شوقِ ملاقات پہلے سے دو چند ہو جائے، اور اﷲ ہمیں اپنے قلیل لوگوں میں شامل کر لے، آمین۔
وقت ہمارے ہاتھ سے پھسلا جا رہا تھا، کچھ دیر میں واپسی کا بلاوا آگیا، ہم صحنِ مسجد میں پہنچے، گروپ منتظمین نے مزیدار بریانی اور ڈرنکس کا انتظام کر رکھا تھا، ہر خاندان کو انکے افراد کے مطابق کھانا اور سفرہ(ڈسپوزیبل دسترخوان) دیا گیا، مزے دار کھانا تھا، ابھی کچھ ٹائم باقی تھا، ہمیں برقع لینا تھا، رضیہ بہن کی مہارت خوب کام آئی، روانگی کے مقررہ وقت سے پہلے ہم واپس آگئے تھے، اور اب سفر کی آخری منزل شروع ہو گئی، مدینہ سے القصیم، بس میں بیٹھتے ہی اکثر مسافر نیند کی وادی میں کھو چکے تھے، بس پٹرول ڈالنے رکی تو کئی مسافر نیچے اترے، چائے، بسکٹ، ڈرنکس اور کئی لوازمات، بس چلنے کے بعد زادِ راہ کے کئی لفافے ڈھیلے ہو رہے تھے، اور ان سے واپسی کی انٹر ٹینمنٹ کا سامان نکل رہا تھا، کسی نے کھجوریں پیش کیں، کسی نے مٹھائی، کسی نے بسکٹ اور کچھ اور بھی، آنکھیں کھلیں تو گپوں کا سلسلہ بھی چل نکلا، بچے بڑے سب ایک جیسے ہی ہو گئے، کسوٹی کھیل شروع ہوا، اور پتا بھی نہ چلا کہ کب شخصیت بوجھتے بوجھتے فلمیں اور گانے بوجھنے پر آگئے، کئی مسافر اس بے مقصد ایکٹیوٹی پر بے چین ہو رہے تھے، ایک سٹاپ پر بس رکی تو ایک ذمہ دار نے ہولے سے ایک ساتھی کے کان میں سرگوشی کی، عمرہ سفر سے واپسی پر ایسے گیمز نہیں ہونے چاہئیں، اور یہ تذکیری پیغام ایک سے دوسرے تک بڑی سرعت سے پھیل گیا، بس دوبارہ چلی تو مسافر پھر سنجیدگی اختیار کر چکے تھے، دوبارہ ذکرِ الہی کی جانب متوجہ تھے: ’’آئبون تائبون عابدون، لربّنا حامدون‘‘۔
عشاء کے بعد بس القصیم کی حدود میں داخل ہوئی تو بچوں کو یاد آرہا تھا کہ ان کا ہوم ورک ابھی تک مکمل نہیں ہے، خواتین رات کے کھانے کے لئے فکر مند تھیں ، اور چپکے چپکے انتظامات سوچے جا رہے تھے۔
یہ ایسا سفر تھا جو تا دیر یاد رہے گا، اترنے سے پہلے ایک دوسرے کا شکریہ اور آئندہ کے لئے ایسے ہی سفر کا عہد!!
***
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...