ٹوٹ جائیں وہ ہاتھ جو ناتواں پر اٹھتے ہیں 

نینسی جوں جوں کتاب پڑھتی جارہی تھی اسکے دل کی دھڑکن بڑھتی جارہی تھی اور آنکھیں بھیکتی جارہی تھیں۔کہاں وہ ذات گرامی صلی اللہ علیہ وسلم اور کہاں ان کی امت پر 9/11 کی دہشت گردی کا الزام۔۔۔۔اسے لگا کہ اس کے اور مسلمانوں کے غم سانجھے ہیں۔اس نے سوچا کہ کیا ہماری طرح مسلمان بھی اپنے دین سے دور اور بے راہ روی کا شکار ہو رے ہیں؟وہ سوچنے لگی کہ اس میں انبیاء کا کیا قصور ہے،ان کے لائے احکامات کا کیا قصور ہے وہ تو مالک کائنات نے نازل فرمائے تھے۔اس نے قرآن مجید میں فر مایا ہے”تم کہو،ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر بھی جو ہماری نازل کیا گیا اور جو ابراہیم،اسماعیل،اسحاق،یعقوب اور انکی اولاد کی طرف نازل کیا گیا اور جو موسی اور عیسی کو دیا گیا،ہم ان کے درمیان تفریق نہیں کرتے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں”۔اب اس کا کم وبیش سارا وقت اسی نوعیت کی کتابیں پڑھنے میں گزرنے لگا۔
اس نے فلم “فارن ہائیٹ 9/11″دیکھی۔یہ دیکھنے کے بعد اس کے ذہن میں نئے موضوعات در آئے۔کیا یہ سارا واقعہ ایک ڈھونگ تھا،آخر اس کے محرکات کیا ہیں؟ ایک روز وہ فادر فرنینڈس کے آگے رو دی۔”میری بیٹی میرے دل کے نور!انسانیت کے بارے تمہارے جذبات پر مجھے فخر ہے یہی یسوع مسیح کی اصل تعلیم ہے۔اپنے آنسوؤں سے انسانیت کی کھیتی سیراب کرتی رہنا تمھارا خلوص ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے”۔اس روز نینسی نے اپنی الماری میں حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابوں کو اکٹھے دیکھا تو اس کی پلکیں بھیگنے لگیں اور چہرہ نورانی مسکراہٹ سے جگمگا اٹھا۔
قبرستان میں پرانے کھنڈر کے پاس جارج پادری سے اس قدر احترام سے پیش آیا کہ پادری ورطہ حیرت میں مبتلا ہوگیا۔آتے ہی جارج نے اسے نوٹوں سے بھرا تھیلا حوالے کیا۔جارج نے گڑگڑانا شروع کر دیا”او میرے مہربان باپ!رحم کر۔میں اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔میں اپنی دعا کی قبولیت چاہتا ہوں۔مگر خدا سے نہیں۔اے مقدس فادر آپ سے”۔اس فقرے پر اس کا ڈرامائی لہجہ معنی خیز اور دھیما ہونے لگا۔پادری نے جارج سے استفسار کیا”میرے بیٹے تم کس اذیت میں مبتلا ہو؟ مجھے بتاو”۔جارج نے سرگوشی کے انداز میں صرف ایک لفظ کہا”نینسی”۔صرف ایک رات کے لیے۔مجھے صرف ایک رات کے لیے اس کی قربت درکار ہے۔پادری تو پہلے دھک سے رہ گیا پھراسے وہ اپنے ہی قبیلے کا فرد دکھائی دینے لگا۔تب اس نے مثبت انداز میں سر ہلادیا۔”تمہاری یہ خواہش ضرور پوری ہوگی”۔پادری نینسی کو گفتگو کے جال میں جکڑ نے لگا۔اور پھرنینسی کو جارج کے ساتھ ملاقات کے لیے آمادہ کرلیا۔اس آمادگی سے پہلے پادری نے نینسی سے کچھ وعدے کیے جن وعدوں نے نینسی کو ہر طرف سے لا چار کردیا۔پادری نے نن کو بھی نینسی کے ساتھ رہ  کر اس کو کسی طرح خوف سے نکالنے اور جارج کے ساتھ ملاقات کے لیے رضامند ہونے کا ٹاسک سونپا جو اس نے بھی بھرپور انداز میں پورا کیا۔قبرستان میں درویش کا حلیہ بنائے بیٹھے جارج کو اپنی طرف آتے تین سائے دکھنے لگے۔وہ فورا عبادت کے انداز میں بیٹھ گیا اور اپنی مناجات میں مشغول ہوگیا۔نن فادر کے اشارے سے وہیں رک گئی وہاں سے آگے فادر خود ساتھ ہوا۔
فادر نے جارج سے کہا”اٹھو وقت آگیا ہے”۔جارج ان دونوں کی طرف متوجہ ہوا اور بزرگانہ لہجے میں لب کشاء ہوا۔”نینسی!جو دنیا کی عورتوں کے لیے رحمت ہے۔ فرشتے جس پر فخر کرتے ہیں۔عورتیں جس پر ناز کرتی ہیں۔ہم وہ کام کریں گے جو لازوال تاریخ رقم کرے گا”۔پادری جارج کی شیطانیت پر مسکرانے لگا۔جارج نے نینسی سے کہا “کیا تمھیں میرے ہاتھوں میں محبت محسوس ہوتی ہے؟”جارج نے دونوں ہاتھ کھول دیے۔”نہیں!”نینسی پریشان تھی۔جارج لب کشا ہوا کہ کیسے ہوسکتی ہے جب تک میں تمھیں چھو کر ان سے محبت کا احساس نہ دلواوں؟ یہ کہہ کر جارج نے پادری کو واپس جانے کا اشارہ کیا اور وہ چل پڑا۔نینسی یک دم خوف زدہ ہوگئی۔نینسی کو پہلی بار جارج میں مکمل شیطان نظر آنے لگا۔وہ گڑگڑانے لگی۔مجھے چھونا مت۔لیکن جارج نے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا اور درندگی کی آواز میں بولا ” تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا مقدس باپ بھی میرے اشاروں پر ناچتا ہے”جارج نے آخر کار اپنی اصلیت ظاہر کردی۔
اسے کہتے ہیں “بغل میں چھری منہ میں رام رام” ظاہر میں نیک باطن میں بد۔ایسی مثالیں آج کل ہر جگہ ملتی ہیں۔منافقت سرے عام بازاروں میں بکتی ہے۔جس طرح اشیا کی خریداری کا بازار لگتا ہے اسی طرح منافقت کا بازار بھی لگتا ہے۔کچھ اسے مہنگے داموں خریدتے ہیں اور کچھ اسے سستے داموں لے لیتے ہیں۔جس طرح یہ پادری اپنے ظاہر میں لوگوں کو بھلا معلوم ہوتا ہے اسی طرح آج بھی دو ٹکے کے لوگ اپنے ملک،قوم،مذہب،آباواجداد اور اداروں سے دھوکہ دہی میں مبتلا رہتے ہیں۔ان کا ظاہر تو ملک و قوم کی ترقی کی روشن خیالی کے گرد گھومتا ہے مگر ان کا باطن ملک کی دشمنی میں سرگرداں رہتا ہے۔ہر محاذ پر دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔اچھے اور برے انسان ہر جگہ ملتے ہیں۔لیکن جو ان برے انسانوں سے بچنے کا ایک گر یہ بھی ہوتا ہے کہ جلد از جلد ان کی اصلیت معلوم کرلی جائے۔تاکہ ان کے نقصان سے بچنے کا پلان بھی مرتب کرلیا جائے۔تاریخ شاہد ہے کہ ایسے لوگوں نے بہت نقصان کیا اپنا بھی اور اپنے کاز کا بھی۔۔ اسے ہم دْوسرے الفاظ میں قول و فعل کا تضاد بھی کہہ سکتے ہیں۔یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جب کسی بھی معاشرے میں انصاف کی عدم فراہمی ، عوام کے بنیادی حقوق کی عدم دستیابی اور غریبوں کا استحصال ہو تو پھر معاشرے میں طرح طرح کی بْرائیاں جنم لیتی ہیں اور ان بْرائیوں کو بنیادی طور پر ہم انتقامی کارروائی بھی تصّور کر لیں تو کوئی حرج نہ ہوگا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں