آج کے اس پرفتن دور میں جہاں بے بہا قسم کی برائیاں جنم لے رہی ہیں وہیں پہ والدین کا کردار بھی نہ ہونے کے برابر رہ چکا ہے اور معاشرہ بے راہ روی کا شکار .
جوں جوں نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں اس کا منفی استعمال بے پناہ حد تک بڑھتا جا رہا ہے اور بہت تیزی سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے جس کی بنیادی وجہ والدین کی عدم توجہی ہے.
والدین کا خیال ہے کہ پیدائش، تعلیم اور شادی ان کے ذمہ ہے لیکن تربیت کو بہت کم حد تک ترجیح دی جاتی اور اسی وجہ سے آج تعلیم تو ہے لیکن تربیت نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ بات اس کی عکاسی کرتی ہے کہ تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی اور اس کی بنیادی وجہ والدین کی دین سے دوری بھی ہے کیونکہ ان کا رجحان اس طرف ہوتا ہی نہیں ہے.
دو بیٹیوں کی پیدائش پہ ہم مبارکبادیں وصول کرتے تھکتے نہیں ہیں جب سب رشتہ دار ہمیں جنت کی بشارت دے رہے ہوتے ہیں لیکن کیا ہم ان بیٹیوں کی پرورش بھی اس نہج پہ کرتے ہیں جس کی بدولت ہمیں جنت بھی ملے یا پھر ہمارا بھی یہی عام معاشرے کے لوگوں جیسا حال ہے کہ جس طرح لڑکیاں چاہیں اپنی مرضی سے زندگی گزاریں سر پہ دوپٹہ تک نہ اوڑھیں بے پردگی کریں اور پھر آپ ان کی شادی کا بندوبست کر کے جنت کے طالب بن جائیں گے؟
آج کل ماں کو ٹی وی سے فرصت نہیں ملتی اور نہ ہی باپ کے پاس اپنی اولاد کے لیے ٹائم ہے وہ بس بچوں کی ہر ضرورت کو پورا کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور ان کو یہ نہیں معلوم کہ یہی چیزیں جن کی تگ و دو میں وہ بچوں کو وقت نہیں دے رہے یہی ان کے لیے بگاڑ کا سبب بن سکتی ہیں آج والدین نے بچوں کو کھلا چھوڑا ہوا ہے اور وہ کمپیوٹر موبائل ٹیبلٹ وغیرہ کا کس طرح استعمال کرتے ہیں اس بات سے بالکل بے خبر رہتے ہیں اور پھر کوئی مسئلہ پیش آۓ تو دوسروں پہ الزام تراشی سے کام لیا جاتا ہے آج کم عمری میں جو ریپ کے اور گھر سے بھاگ کے شادی والے واقعات سامنے آتے ہیں اس کی بنیادی وجہ ہی اولاد کی تربیت نہ ہونا ہے.
حالانکہ بچے کی تربیت تو ماں کے پیٹ سے شروع ہو جاتی ہے لیکن آج کل کی عورتیں فلموں ڈراموں اور گلے غیبتوں میں مصروف رہتی ہیں جس کی وجہ سے ہر پیدا ہونے والے بچے کا بھی رجحان ایسی چیزوں کئ طرف ہوتا ہے کیونکہ بچے ہمیشہ اپنے والدین کے نقش قدم پہ چلتے ہیں اور ان کا کردار ہی والدین کے کردار کی عکاسی کرتا ہے.
اس معاشرے کے نشیب و فراز مسائل سے آگاہی اور اس کے اثرات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تربیت ایک لازمی جزو ہے جو کہ والدین کے بڑھاپے کا بھی بہترین سہارا بنتا ہے.
اگر اپنے بچوں کو پاس بٹھا کر ان سے گپ شپ نہیں کریں گے ان کے مسائل نہیں سنیں گے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے تو وہ آپ سے دور ہونا شروع ہو جائیں گے کیونکہ ان کو آپ کے پیسوں اور چیزوں کی نہیں بلکہ آپ کے پیار کی ضرورت ہے جو آپ اس کی خواہشات کو پورا کرنے کے باوجود نہ دے سکے.
تربیت ایک لازمی جزو ہے جو کہ بچے کو کبھی بھی آپ سے دور نہیں ہونے دیتی اور آپ واقعتاً اس جنت کے حقدار بن جاتے ہیں جس کی بشارت میرے نبی مکرم پیغمبر آخری الزماں صل اللہ علیہ وسلم نے دی ہے کہ دو بیٹیوں کی پرورش کرکے جب اس کو بیاہتا ہے تو وہ اس طرح ہوگا جیسے میری یہ دو انگلیاں ہیں.
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب والدین اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت کا حق ادا کر کے پھر کسی مومن مرد کے ساتھ اس کا نکاح کر دیتے ہیں تو وہ ایک بہترین اور مضبوط اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھ دیتے ہیں جس کی بدولت اس معاشرہ میں کئی عالم فاضل اور دین کے داعی پیدا ہوتے ہیں.
آج معاشرے سے برائی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اپنی اولاد کو بالکل کھلا مت چھوڑیں اور تھوڑی سی سختی برداشت کرکے ان کو مناسب وقت دیں اور ان کی تربیت اسلامی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوۓ سرانجام دیں ورنہ آپ کے بچے آپ سے بہت دور ہوتے جائیں گے اور آپ قصوروار اس معاشرے کو ٹھہرائیں گے..
اللہ ہمیں اسلامی اصولوں پہ زندگی گزارنے اور بچوں کی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین ثمہ آمین..