پاکستان میں قانون کی حکمرانی۔ ۔۔دیوانے کا خواب

چیف جسٹس صاحب نے ان اسکولوں کے بارے میں ہدایت جاری کی ہیں جن کی فیس 5000سے زائد ہے۔ جب کہ ہماری فیس تو محض 4999روپے ہے۔سپریم کورٹ کا کوئی ایسا حکم نامہ ہے جس میں لکھا ہوا ہو کہ پانچ ہزار سے کم فیس لینے والے اسکولز بھی فیس کم کریں۔ اگر ہے تو سامنے لاؤ ۔ ورنہ فیس بھرو۔ یہ حکم نامہ جاری ہونے کے بعد کئی اسکولوں نے من مانی کرتے ہوئے اپنی فیسیں بڑھادی ہیں کیوں کہ تلوار پانچ ہزار سے زائد فیس لینے والے اسکولوں پر لٹکی ہے ناکہ ڈھائی ہزار روپے سے زائد لینے والے اسکولوں پر۔
چیف جسٹس صاحب کا یہ حکم ان والدین کے لیے تو ضرورخوشی کا باعث ہے جن کے بچے بڑے اورعالیشان اسکولز میں پڑ ھ رہے ہیں جن کے لیے پانچ ہزار کی رقم کچھ بھی نہیں ۔ مسئلہ تو ان غریب والدین کے لیے ہے جن کے لیے پانچ سو روپے بھی ایک بہت بڑی رقم تصور کی جاتی ہے۔ وہ کس طرح اپنے بچوں کو پڑھارہے ہیں اس کا حال وہ جانے یا خدا جانے۔ چیف جسٹس صاحب کو اس کا علم نہیں،اور نہ ہی حکمرانوں کو اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ والدین کس طرح فیسیں ادا کرتے ہیں۔ حکومت ٹیکس لے کر ایک طرف ہوجاتی ہے اور بھگتناغریب عوام کو پڑتا ہے۔
جن صاحب کے دو بچے ہیں اور دونوں ہی اسکول جانے کی عمر کو پہنچ چکے ہیں ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ معیاری تعلیم کی عدم فراہمی اور بڑھتی فیسیں ہیں۔ ایک دوست سے کل ملاقات ہوئی ،اس نے پانچ ہزار روپے ادھار مانگے۔ ساتھ ہی وجہ بھی بتائی کہ 10تاریخ تک بچوں کی اسکول کی فیس جمع کرانی ہے ۔ میں نے پوچھاپانچ ہزار روپے فیس؟ جس پر اس کا جواب تھا ۔ہاں ۔ ایک ماہ کی فیس 2700روپے ہے اور جنوری کے ساتھ جون کی فیس بھی طلب کی گئی ہے۔ جو ٹوٹل 5400روپے بنتے ہیں۔ ایک بچہ محلے میں ہی ایک گھرمیں قائم اسکول میں پڑھتا ہے اس کی فیس کم ہے اس لیے وہ تو بھردی ہے مگر دوسرا بچہ مہنگے اسکول میں پڑھتا ہے ۔اس لیے اس کی فیس زیادہ ہے۔ بچوں کو الگ الگ اسکول میں بھیجنے کی وجہ پوچھنے پراس نے بتایا کہ دوسری کلاس تک علاقے میں تعلیم دلاوا سکتا ہوں کیوں کہ اس سے آگے کی تعلیم وہاں پر اس قابل نہیں کہ بچوں کو بھیجا جاسکے کیوں کہ میٹرک اورمڈل پاس ٹیچر ہیں ، اس لیے دوسرا بچہ اب تیسری کلاس میں ہے اوروہ ایک مہنگے اسکول میں جاتا ہے ۔ مہنگے اسکول میں کیا معیاری تعلیم ہے۔؟ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ پہلے وہ مہنگانہیں تھا،لیکن اب انہوں نے اپنی فیسیں بڑھادی ہیں ،میں نے دوسراسکول تلاش کیا جہاں بچوں کا داخلہ کراسکوں مگر وہاں پر اس سے بھی زیادہ فیسیں ہیں اس لیے مجبوری ہے بچوں کو یہیں پڑھارہا ہوں۔ تمہاری تنخواہ کتنی ہے۔جس پر جواب ملا ،بیس ہزار روپے۔ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ جس مکان میں رہتا ہوں وہاں کا کرایہ بھی 10ہزار روپے ہے۔ ایک شخص جس کی تنخواہ 20ہزار روپے ہووہ کس طرح اپنے دوبچوں کو پڑھاسکتا ہے ، کس طرح ان کی دیکھ بھال کرسکتا ہے ،کیا وہ انہیں اچھا کھانا پینا کھلاسکتا ہے۔ ان سب سوالوں کاایک ہی جواب نا ں میں ملتا ہے۔
اس ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر چیز کا قانون موجود ہے مگرافسوس کی بات یہ ہے کہ عملدرآمد کسی پر نہیں ۔اسکول والے اپنی مرضی سے فیسیں بڑھادیتے ہیں ،مالک مکان اپنی مرضی کا کرایہ بڑھا دیتا ہے ،بجلی اورگیس والے اپنی مرضی کا بل بھیج دیتے ہیں ،سبزی فروش اپنی مرضی کے مطابق سبزی بیچتا ہے ،دودھ والے مرضی کی قیمتیں وصول کرتے ہیں ،پرچون کی دکان پر ہر چیز اپنی مرضی کے نرخ پر بک رہی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی،سرکاری اداروں میں چلے جائیں تو وہاں بھی یہ ہی صورت حال ہے ۔ کورٹ میں سوروپے والا اسٹامپ پیپر250روپے کا بک رہا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ وکلاء کے بھی الگ الگ ریٹ ہیں ۔ جونیئر اپنی مرضی کے پیسے بٹورتا ہے اورجب کیس خراب ہوجاتا ہے تو پھر سینئر اپنی مرضی کے پیسے وصول کرکے اس غریب کو کنگال کردیتا ہے۔ شہر میں کسی بھی جگہ چلے جائیں تو پارکنگ کے نام پر الگ الگ پیسے وصول کیے جاتے ہیں ،پارک جائیں تو مرضی کی انٹری فیس وصول کی جارہی ہے ،اسپتال جائیں تو وہاں پر مریض اوراس کے لواحقین کا الگ خون چوسا جاتا ہے۔ میڈیکل پر ادویات اپنی مرضی کے نرخ پربک رہی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی اپنی مرضی کے ہیں کوئی بیس روپے تو کوئی بدمعاشی سے تیس روپے وصول کررہا ہے۔ رکشہ ،ٹیکسی بک کراؤ تو ان کے پیسے بھی اپنی مرضی کے ہوں گے۔ ایک رکشہ 100روپے لے رہا ہے تو دوسرا 150روپے بٹور رہا ہے۔ یونین کونسل آفس میں برتھ سرٹیفیکیٹ کے ریٹ بھی مرضی کے ہیں ،جس کی فیس دو سوروپے ہے اس کی فیس تین سو روپے وصول کی جارہی ہے۔ سڑکوں پر کھڑے پولیس اورٹریفک پولیس اہلکار بھی اپنے اپنے جیب خرچ اپنی اپنی مرضی کے مطابق وصول کررہے ہیں ۔ کوئی ڈرا کر پیسے وصول کررہا ہے تو کوئی اندھے قانون کا سہارا لے کر لوٹ رہا ہے ۔ ایک ہیلمنٹ کا بہانہ بنا کر سو روپے لے لیتا ہے توروڈ کے کونے میں کھڑا پولیس اہلکار تلاشی کے بہانے دو سو روپے نکال لیتا ہے۔ مطلب کوئی محکمہ ایسا نہیں جہاں پر لوٹ مار نہ مچی ہو۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ محترم چیف جسٹس صاحب اور وزیراعظم صاحب اورتمام بااختیار افسران اپنے اپنے مفادات کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب ڈیم بنانے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں مانا کہ ڈیم ہماری بقا ہے اور یہ ایک احسن قدم ہے جو انہوں نے اٹھایا ہے لیکن عوام کی طرف کون دیکھے گاان کے مسائل کون حل کرے گا؟ وزیراعظم صاحب کرپشن کے خاتمے کا خواب بیچ رہے ہیں اور باقی وزرا اور افسران اپنی اپنی کرسی بچانے کے لیے تگ ودو کررہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو خالصتا عوام کے لیے سوچتا ہو۔جو ان کا دکھ دسمجھتا ہو ان کی تکلیف پر لبیک کہتا ہوں۔ ایسا اس ملک میں شاید کوئی نہیں۔ اور یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ ان مسائل کے بارے میں ان ارباب اختیار کو علم ہی نہ ہو۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر انہیں اپنی کرسی پر بھی بیٹھنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ مگرپھر بھی وہ لوگ ہم پر حکمران بنے بیٹھے ہیں۔
ایک غریب شخص کبھی بھی ان لوگوں تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس کا عملی مظاہرہ وہ روز صبح وشام سڑکوں اور میڈیا پر دیکھتے ہیں۔ جہاں پروٹوکول کے نام پر سڑکیں بند کردی جاتی ہیں ،جہاں پروٹوکول کے نام پر پولیس شہریوں سے بدمعاشی پر اترآتی ہے۔ ایسے میں کوئی کس طرح ان تک پہنچ سکتا ہے۔ اول تو اس غریب کو دفتر کے باہر موجود چوکیدار ہی اندر نہیں جانے دیتا اور اگر کسی طرح وہ اندر پہنچ بھی جائے تو پہلے سیکرٹری، پھراپوائمنٹ اورپھر پیون سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ آخر میں ملاقات کاشوقین ملاقات کرکے مایوس ہی لوٹتا ہے کیوں کہ سامنے سے ایک ہی جواب ملتا ہے کہ اچھا دیکھتے ہیں۔ اوریہ وہ جملہ ہے جو پاکستان میں ہر وقت ہر جگہ ہر افسر کے منہ پر ریڈی میٹ تیار رہتا ہے۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں