نو مسلم بہنوں کا سفرِ اسلام اور احساسات

بولتے بولتے وہ خاموش ہو گئی، نظر اٹھا کے دیکھا تو اس کا چہرہ آنسؤں سے تر تھا۔ چند لمحے خاموش رہ کر دوبارہ گفتگو شروع کی، تو آواز لرز رہی تھی۔ بس یہی الفاظ دہراتی گئی،
“میں بہت شرمندہ ہوں اپنی پچھلی زندگی پر”۔

کون سی زندگی تھی جو اتنی اذیت اور بے سکونی میں گزار دی؟
آزاد زندگی ۔۔۔
مگر اس آزادی کی خاطر تو ہم اپنا ایمان داؤ پر لگا دیتے ہیں، اور وہ اسی آزادی میں قید تھی۔

پھر اگلے مقرر کی باری آئی ۔۔۔

کچھ دیر تو سامعین پر نظریں گاڑی رکھیں ۔۔۔
جیسے اس دین کے رشتے سے قائم ہونے والی محبت کو دل میں اتار رہی ہو،
نظروں میں محفوظ کر رہی ہو۔
اور پھر اس کے الفاظ بھی اسی روشن منظر میں کھو گئے،
جذبۂ تشکر سے اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
“مجھے سمجھ نہیں آرہی کیا بولوں ۔۔۔ اللہ کا شکر کہ اس نے اس راہ کی جانب میری راہنمائی فرمائی”

یہ آنسو کیوں؟
اسلام قبول کرنے پر یہ اطمینان،
حق کے یہ متلاشی ۔۔۔
ایک بار ڈٹ گئے تو مڑ کر نہیں دیکھا پیچھے کیا چھوڑ آئے ہیں۔

پھر ایک اور آواز آئی ۔۔۔
“مجھے عبادت کا یہ طریقہ بہت مضحکہ خیز لگتا تھا، یہ سجدہ کرنا کتنا عجیب اور برا انداز ہے ۔۔۔
لہٰذا میں نے نماز اور بالخصوص سجدے کا مذاق اڑانا شروع کر دیا ۔۔۔
اور یہ مسلمانوں کے کپڑے ۔۔۔
یہ کیا کہ جسم کو اتنا ڈھانپ لیا جائے ۔۔۔
جسم بھی کوئی چھپانے کی چیز ہے؟
اور اب مجھے سجدے سے زیادہ اور کوئی انداز محبوب نہیں ۔۔۔
نماز سے زیادہ اور کوئی کام عزیز نہیں ۔۔۔
اور ان کپڑوں میں اپنے آپ کو بہت محفوظ محسوس کرتی ہوں ۔۔۔ ”

ابھی ان الفاظ کو ذین نشین کر رہی تھی کہ اگلے مقرر کی بات نے میری بے ربط سوچوں کو ایک اور موڑ دے دیا

“میرا تو دین ہی نہیں تھا،
لیکن میرا دل کرتا تھا کسی مافوق الفطرت طاقت سے کچھ مانگوں ۔۔۔
لیکن میرے دین میں جب کوئی خدا ہی نہیں تو مانگنا کیسا ۔۔۔
پھر میڈیا پر عیسائیوں کو ہاتھ جوڑ کر مانگتے دیکھا ۔۔۔
میں نے بھی ہاتھ جوڑ لیے اور کہا ۔۔۔
۔۔۔ اے میرے پیدا کرنے والے، اگر تُو کہیں موجود ہے تو مجھے کوئی نشانی دکھا دے، مجھے میرے مقصدِ وجود سے آشنا کر دے،
مجھے اپنی پہچان کرا دے، زندگی کی حقیقت بتا دے، میرا دل گواہی دیتا ہے کہ تُو کہیں موجود ہے مگر کہاں؟ ۔۔۔
اور اب میں نہ صرف عربی زبان کی معلمہ ہوں، بلکہ میرے سینے میں قرآن بھی محفوظ ہے”

وہ بولتی گئی مگر میری سوچ کہیں پیچھے رہ گئی ۔۔۔
اس کے خوبصورت انداز اور بہترین مخارج و تلفظ کے ساتھ پڑھی گئی آیت ۔۔۔
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ

“میں نے ہندؤں کا طریقہ دیکھا اور مجھے لگا ان کی ہر بات سچی ہے،
مگر میرے دل میں ایک سوال تھا، کہ یہ آدھا انسان اور آدھا ہاتھی،
یہ کیسی شکل ہے خدا کی؟ ۔۔۔۔ جس نے اتنی خوبصورتی سے انسان کو پیدا کیا وہ خود بدصورت کیسے ہو سکتا ہے؟”

یہ سفر ۔۔۔
تاریکیوں سے نور کا،
باطل سے حق کا ۔۔۔ کفر سے اسلام کا ۔۔۔

“یہ آپ لوگ میڈیا پر مغربی ممالک کے جن افراد ہو بہت ہنستا ہوئے دیکھتے ہیں ۔۔۔
یہ تو جھوٹی ہنسی ہوتی ہے ۔۔۔ کیمرے کی آنکھ آپ کو ان کی زندگی نہیں دکھاتی ۔۔۔
میں آپ کو بتاتی ہوں ۔۔۔
وہاں لوگوں کے پاس بہت پیسہ ہے، ہر طرح کی آسائشیں ہیں، سارا سال ملکوں ملکوں سفر کرتے ہیں ۔۔۔
میری امی کے گھر بھی کئی نوکر ہیں، بس حکم دیتی ہیں اور کام لمحوں میں ہو جاتا ہے،
سیر و تفریح کے لیے پوری دنیا گھوم لی ہے،
مگر میری ماں کا دل مطمئن نہیں ۔۔۔ وہ شدید مایوسی کا شکار ہیں ۔۔۔
اور یہ مغرب کے ہر فرد کا وہ حال ہے جو ٹی وی نہیں دکھاتا ۔۔۔
مغرب کے لوگ دنیا کی ہر نعمت سے مالا مال ہیں اور ان نعمتوں کو دیکھ کر مسلمان ان کی نقل کرتے ہیں ۔۔۔
مگر مسلمان یہ نہیں جانتے کہ یہ دل ایمان کی دولت سے خالی ہیں”

اور اس کے بعد اس کا ہر لفظ ہتھوڑے کی طرح برستا گیا ۔۔۔
امت کے حال کو چھپانے کے لیے اور اپنے دل کو جھوٹی تسلی دینے کے لیے میں نے جو شیش محل کھڑا کیا تھا،
وہ یکے بعد دیگرے زمین بوس ہوتا گیا ۔۔۔

“مجھے سمجھ نہیں آتی یہ میڈیا ہمیشہ مسلمانوں کو برا بنا کر کیوں پیش کرتا ہے ۔۔۔
ہمیشہ انکے برے حال کو دنیا کے سامنے کیوں لاتا ہے”

اور پھر اگلی آواز ۔۔۔

“میں مسلمانوں سے بہت مایوس تھی،
انکا رویہ مجھے روز اسلام سے دور کرتا گیا ۔۔۔
مگر پھر میں نے سوچا،
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ میں ایک دین کو اس کی کتاب کی بجائے اس کے پیروکاروں سے جانچ رہی ہوں ۔۔۔
بس اس دن کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا یہ مسلمانوں سے دین نہیں سیکھنا ۔۔۔
سیکھنا ہے تو قرآن سے ۔۔۔ نبی کی باتوں سے”

افسوس، ہم نہ صرف اپنا نقصان کرتے ہیں بلکہ اپنے دین کی لوگوں کے سامنے بدترین تصویر پیش کر دیتے ہیں ۔۔۔

اور یہ لوگ، یہ پیارے انسان ۔۔۔
کتنی اذیتیں جھیل کر یہ سفر طے کرتے ہیں ۔۔۔
اور منزل پر ہم سے پہنچ جاتے ہیں ۔۔۔
ایمان کی دوڑ میں ہم سے بھی آگے نکل جاتے ہیں ۔۔۔
اور ہم مغرب کی تقلید میں ہی مگن رہ جاتے ہیں ۔۔۔

اس دین کی نعمت کی قدر کوئی ان نو مسلموں سے پوچھے ۔۔۔
ان صحرا کے مسافروں سے پوچھے،
جو پیاس کو اپنے پاس طلب نہیں کرتے ۔۔۔
بلکہ خود چل کر کنویں کو تلاش کرتے ہیں ۔۔۔
پیاس سے نڈھال ۔۔۔ تھک کر چور ۔۔۔
اور پھر ہدایت کا چشمہ ان کے دل میں پھوٹ پڑا،
کلمۂ شہادت پڑھتے وقت ان پر رقت طاری ہو گئی ۔۔۔
گھر بار اس ہدایت کی خاطر چھوڑ آئے،
اپنے گناہوں پر شرمندہ، مگر پر عزم ۔۔۔ کہ اب رہتی زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ کی اطاعت میں صرف کرنا ہے،
جس رب نے دلوں کو منور کیا اس کا شکر ادا کرنے کے لیے ساری زندگی بھی بہت کم ہے۔

اور پھر کچھ اور الفاظ کانوں سے ٹکرائے اور دل کی گہرائیوں میں اتر گئے ۔۔۔

“مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے ایمان پر فخر کریں اور مغرب کی طرف نہ دیکھیں، انکی تقلید سے بچیں ۔۔۔
اور اپنے حسنِ اخلاق سے اس امت کو زوال سے نکال کر عروج کی منزلوں کی جانب گامزن کر دیں ۔۔۔
میں نے اس سچے دین کی تلاش میں اپنا سب کچھ کھو دیا، اور اس کی قیمت سے واقف ہوں،
تو آپ سب کو پیدائشی مسلمان ہونے کے ناطے اس حق کو پانے کے کچھ کھونا نہیں پڑا،
نہ دنیا سے لڑنا پڑا ۔۔۔ نہ اپنا گھر بار چھوڑ کر کہیں ہجرت کرنی پڑی ۔۔۔
یہ اسلام کی سرزمین ہے، یہاں اسلام پر یوں عمل پیرا ہوں کہ دنیا کے ہر گوشے میں دین کا پرچم سربلند ہو جائے ۔۔۔
اپنے ایمان کی حفاظت کریں ۔۔۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کریں ۔۔۔
اپنے قول و فعل سے بہترین اخلاق کا ثبوت دیں ۔۔۔
یہ نعمت انمول ہے، اور صرف قسمت والوں کو اللہ نصیب کرتا ہے”

اور یہ نو مسلم ۔۔۔ جنت کے راہی ہمیں بھی ایک رستہ دکھا گئے

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے تھا

حصہ

جواب چھوڑ دیں