پرانے دن، پرانی راتیں اور نیا سال

انسان کی پیدائش دراصل اس کے دائمی انجام کی جانب پیش قدمی کا آغاز ہوتا ہے۔ ہر سال کیک کاٹے جاتے ہیں خوشیاں منائی جاتی ہیں تحفے تحائف دئے جاتے ہیں، پیدائش کے دن کو بھرپور طریقے سے منایا جاتا ہے۔ ان خوشیوں کو منانے کو قرب الہی کے شوق کا اظہار کہا جائے تو یہ زیادتی ہوگی کیونکہ کوئی بھی انسان مرنے کیلئے تو پیدا ہواہی نہیں (مرتے دم تک ایسا ہی سمجھتا اور چاہتا ہے)۔سال گزرتے رہتے ہیں عمر کی سیڑھیاں چڑھنے کا سمجھ کرہم سب اترتے رہتے ہیں ۔بچپن سے لڑکپن سے جوانی اور پھر بڑھاپا جو اس بات کی علامت سمجھا جاتا ہے کہ بس اب پیر کسی بھی وقت اپنی دائمی جائے پناہ میں پڑنے والا ہے ، جس اندھیرے سے نکل کر دنیا کی چکاچوند روشنی میں روتے ہوئے آئے تھے اب پھر اسی اندھیرے کی طرف لوٹنے کا وقت آیا چاہتا ہے ۔ جب ہم رو رہے تھے تو سب خوشیاں منا رہے تھے اب ہم غم اور خوشی سے ماورا ہوکر واپس جا رہے ہیں تو سب زارو قطار رو رہے ہیں۔ پھر نیا سال آئے گا پھر لوگ خوشیاں منائینگے بس فرق اتنا ہوگا کہ کچھ نئے لوگوں کا اضافہ ہوگا اور کچھ پرانے لوگ نہیں ہونگے ۔ دنیا ایسے ہی چلتی چلی جا رہی ہے ، لیکن انسان کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ وہ مرنے کیلئے پیداہوتا ہے ۔قارئین محسوس کر رہے ہوں کہ یہ مایوسی کی باتیں ہیں، کیا آپ اس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ ہمارے آس پاس ایسے کتنے ہی لوگ تھے جو گزشتہ کل تک ہمارے ہمارے ساتھ تھے۔ انسان نجی حیثیت میں زندگی کی ترجیحات مرتب کرتا ہے اور میں کا عنصر لا محالہ غالب آجاتا ہے ۔ وہ افراد انسانیت کے مرتبے سے افضل قرار پائے جواپنی میں کو ذبح کرتے ہوئے آگے بڑھے اوررہتی دنیا تک کیلئے امر ہوگئے۔
معلوم نہیں ملک کے کتنے شہروں میں آج بھی پانی نہیں آئے گا اور دن میں کاندھوں پر بستہ لادنے والے کاندھے شام کو پانی بھرنے کیلئے برتن بھی اٹھائے دیکھائی دینگے، معلوم نہیں ملک کا کتنا حصہ تاریکی میں ڈوبہ رہیگا، معلوم نہیں کتنے لوگ ہسپتالوں کے دالانوں میں روتے سسکتے رات گزارینگے، معلوم نہیں کتنے لوگ سرد خانوں میں اپنے کسی عزیز کی لاش رکھوانے کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے ہونگے، معلوم نہیں کتنی مائیں اپنے بچھڑے ہوئے بچوں کیلئے زاروقطار رورہی ہونگی، معلوم نہیں کتنے ہی گھروں میں فاقہ ہوا ہوگا ، معلوم نہیں زندگی اپنی بے رحمی اور سفاکی پر بہت ہی شور شرابے سے کہیں جشن منا رہی ہوگی۔کتنے ہی ہمارے درمیان پرانی راتوں اور پرانے دنوں میں ایسے الجھے ہوئے ہونگے کہ انہیں نئے سال تو کیا اپنی اور اپنے بچوں کی تاریخ پیدائش تک اس زندگی کے تھپیڑوں نے بھلا دی ہوگی۔ کچھ عالی ظرف تو فقط مسکرا کر اپنی بے بسی کا اظہار کردینگے لیکن لوگوں کی اکثریت اپنی آنکھوں کی نمی پر قابو نہیں رکھ پائے گی، غرض یہ کہ دکھ سب کے دلوں میں گھسا بیٹھا ہے بس ہر کوئی کسی نا کسی کاندھے کا متلاشی ہوتا ہے۔اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اس طرح کی سوچ کو مثبت سوچ کی عکاسی کہا جائے یا پھر خوف سے پیچھا چھڑوانے کا کوئی بہانہ۔ان باتوں کا جواب شائد ہی کوئی دے سکے یا پھر شائدہی کوئی ایسے سوال پوچھے۔لگتا تو یہی ہے کہ سب نے اپنی اپنی زندگیاں مصنوعی غلافوں میں سجائی ہوئی ہیں۔
کیونکہ پاکستان ایک نئے طرز تصور اور تخیل کو عملی جامہ پہنانے کے دور میں داخل ہوا ہے کہ تو امید کی جارہی ہے کہ ہر گزرنے والا دن آنے والی نسلوں کی تابناکی میں اضافہ کرتا دیکھائی دے گا۔نئے پاکستان کیلئے نیا سال بہت اہمیت رکھتا ہے پرانی سیاست اور بدعنوانی کو پرانے دنوں اور راتوں میں دفن کر کے آگے جانا ہوگا ۔ آہوں اور سسکیوں کو یہیں چھوڑ کر آگے بڑھنا ہوگا اب خاص و عام کے فرق کر ختم کرنا ہوگا ، اب کوئی ایک نہیں روئے گابلکہ اس ایک کو رلانے والا بھی روئے گا۔ پاکستان کی امیدوں کے دئے اپنے آب و تاب سے روشن ہوچکے ہیں کسی امیر کو غریب پر ترجیح نہیں دی جائے گی قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائیگی۔پاکستانیوں کو چوروں لٹیروں کو پہچاننا ہوگا ان چہروں پر چڑھے ہوئے غلافوں کو نوچ کر اتارنا ہوگا۔ پاکستان قائد و اقبال کے خوابوں کی تعبیر بنے گا اور اللہ نے چاہ تو ریاست مدینہ کی حقیقی شکل اختیار کر کے دیکھائی دے گا۔ پاکستان کو نئے سال میں سب نے مل کر داخل کرنا ہے لیکن پہلے ہمیں ان باطل قوتوں کو جو بدعنوانی کے مرتکب ہونے کے باوجود پاکستان کیساتھ دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے وطن عزیز پر کسی بھی قسم کی اندرونی اور بیرونی نوعیت کے معاملا ت سے نمٹنے کیلئے ہر وقت چوکنے کھڑے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چوڑ ڈاکو پاکستانیوں کا خون چوسنے والے اپنی بدعنوانیوں پر شرمندہ ہونے کی بجائے حکومت وقت کو دھمکیاں دیتے سنائی دے رہے ہیں، یہ دھمکیاں نئے سال میں نہیں سنی جائینگی اور نا ہی نیا پاکستان ایسے گیدڑ بھپکیوں کو اہمیت دے گا۔ خدارا پاکستانیوں کو ہماری عوام کو یہ بات اب تو اچھی طرح سے سمجھ میں آجانی چاہئے کہ یہ لوگ ہماری لوٹی ہوئی دولت پر آج تک عیاشیاں کرتے پھر رہے ہیں، ہمارے خون پر سیاست کرتے پھر رہے ہیں لیکن ہمارے لئے عملی طور پر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں اور تو اور ان تک رسائی ناممکن سی بات ہے انکی خاطر ہمارے بچے اپنی زندگیوں کی بازی ہار جاتے ہیں ، لوگ ٹریفک میں پھنس کر اپنی قیمتی جانیں کھوبیٹھتے ہیں۔ نئے سال میں نئے پاکستان میں ایسے لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے انہیں یہیں چھوڑ کے جانا ہے بلکہ دفن کر کے جائیں تو بہت بہتر ہوگا۔ کچھ ایسا کر کے جاؤ کہ دنیا یاد رکھے۔ ورنہ گزر تو سب نے ہی جانا ہے ۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں