نواز شریف کو سات سال قید… کیا یہ حقیقی انصاف ہے؟

یونیورسٹی سے واپس آنے کیلئے جب وین والے انکل کو کال کی تو معلوم ہوا کے نواز شریف کو سات سال قید ہو گئ ہے… جس کی وجہ سے حالات خراب ہیں …اور وہ نہیں آ سکتے… پریشانی کے عالم میں بیٹھی تھی…. بیٹھے بیٹھے تاریخ کاایک اہم واقعہ تاریخ کے جھروکوں سے ذہن کے آنگن میں خیال بن کر  جھانکنے لگا…

آنکھوں کے سامنے  منظر کی طرح پورا واقعہ گردش کرنے لگا….آئیے آپکو تصور کی آنکھ سے عدالت کا وہ منظر دکھائے دیتی ہوں…. جو اس وقت میری آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چل رہا ہے….

عدالت سامعین سے کھچا کھچ بھری پڑی ہے….اور بادشاہ وقت مجرم کے روپ میں کٹہرے کی زینت بنے حیران پریشان کھڑے ہیں…. سامنے مد مقابل ایک انجینئیر مدعی کی حیثیت سے کھڑا قاضی کو انصاف طلب نظروں سے دیکھ رہا ہے…..قاضی اپنی میز کھٹکھٹا کر سامعین کو متوجہ کرتے ہوۓ گلا کھنگال کر یوں مخاطب ہوتا ہے…

تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ عدالت بادشاہ کا ایک ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتی ہے… قاضی کے الفاظ تھے یا کوڑا..

سامعین کی سماعت پر چابک کی طرح برسے….

بادشاہ کے قدم لڑکھڑائے اس خبر کے ساتھ ہی گویا اس پر بجلی گر پڑی ہو… خوف سےزرد پڑ گیا…. اور ہوا سے ہلتے خشک پتے کی طرح لرزنے لگا…عدالت کی خاموشی سے یہ خدشہ ہوتا تھا جیسے کوئی ذی روح یہاں موجود نہیں… سانسیں رک سی گئی تھیں… وقت تھم سا گیا تھا…آنکھیں حیرت سے پھٹی جا رہی تھیں …کہ حاکم وقت… بادشاہ سلامت کو سزا سنائی گئی ہے….؟؟؟؟ بادشاہ کا ہاتھ کاٹا جائے گا…؟؟؟؟

جلاد ان تمام حالات سے بالا تر ہو کر تلوار لئے آگے بڑھا…بادشاہ کوبادل نخواستہ ہاتھ آگے بڑھانا پڑا… شدت خوف سے لرزتا کانپتا ہاتھ سزا کیلئے آگے بڑھ چکا تھا جلاد نے تلوار ہاتھ پر رکھی عین ممکن تھا کہ وہ ایک ہی وار میں ہاتھ تن سے جدا کرتا ایک زوردار چیخ سنائی دی… ٹھرئیے ….!!!!!

رک جائیے…!!!!

 چھوڑ دیجئیے…!!!

میں نےکہارہنےدیجئیے…!!!!

سب سامعین ایک ساتھ اس آواز کی طرف متوجہ ہوئے….

جی ہاں قارئین….!!!!!

 آپ بھی جان لیجئیے یہ آواز کسی اور کی نہیں اسی مدعی انجینئیر کی تھی… اس نے ایک ہاتھ سے اپنا کٹا ہوا بازو تھام رکھا تھا… نم آنکھوں سے قاضی کی طرف دیکھ کر بولا… چھوڑ دیجئیے بادشاہ سلامت کو… میں نے اپنا خون انہیں معاف کیا..واللہ مجھے انصاف چاہئیے تھا جو مجھے مل گیا…مجھے اب انتقام نہیں چاہئیے… بھول تو نہیں سکتا … کہ کیسے بادشاہ کا خواب پورا کرنے کی اتنی بھیانک سزا ملی مجھے… جیسا کہ بادشاہ سلطان مراد کو ترکستان میں عظیم الشان عمارات بنوانے کا نہایت ذوق ہے…  لیکن مسجد کی تعمیر میں خاص دلچسپی ہے انہیں… اپنی ایک تصوراتی مسجد کو عملی رنگ دینے کیلئے بادشاہ نے مجھے منتخب کیا…میں نے سر توڑ کوشش کر کے نا صرف بادشاہ کے خیالات میں حقیقت کا رنگ بھرا بلکہ مسجد کی سنگ بنیاد کو اس طرح تراشا… اس کی بناوٹ میں اپنی مہارت کا جادو اس طرح بکھیرا…. کہ وہ مسجد تصورات کی قید سے نکل کر خوبصورتی کے آزاد نقش و نگار کو چھونے لگی مصوری کی اس  بلندی کو پہنچ گئ کہ مجھے گمان ہونے لگا …. میری فن تعمیر کی یہ سب سے شاہکار عمارت ہے…مگر ہوا اس کے بر عکس…. بادشاہ سلامت تعمیر شدہ عالیشان مسجد دیکھنے کو آئے… میری تخلیق  ان کے ذوق کی حدود کو چھو نہ سکی تو غضبناک ہو کر بادشاہ نے میرا ہاتھ کٹوا دیا…

خیالات کا پنچھی ماضی کی تاریخ میں اتنی دور تک پرواز کر چکا تھا کہ مجھے آج کے اس واقعہ اور تاریخ کے انصاف پر مبنی اس قصے میں کوئی فرق محسوس نہ ہوا… اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئ کہ پاکستان میں عدلیہ کا انصاف تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں اضافہ کر رہا ہے… حاکم ہو …. یا محکوم ہو…

گزشتہ وزیر اعظم ہو یا کوئی عام شہری …انصاف کی تلوار سب کا سر قلم کر سکتی ہے… انصاف کے ترازو میں کوئی عہدیدار کسی عام شہری سے زیادہ وزن نہیں رکھتا….عدل کا میزان کسی خاص کیلئے نہیں جھکتا… صرف انصاف کے آگے گھٹنے ٹیکتا ہے…. میں نہیں کہتی کہ نواز شریف کو سزا ہوئی بہت اچھا ہوا…

 میں نہیں کہتی کہ قید ہوئی تو بہت برا ہوا…

میں بس اتنا جانتی ہوں کہ اگر انصاف ہوا ہے تو زبردست ہے… ہمارے لئے خوش آئند ہے… مشعل راہ اور مثال ہے… جرائم کی دنیا کیلئے شفاف آئینہ ہے جس میں وہ ابھی سے اپنا انجام دیکھ سکتے ہیں…. کرپٹ لوگوں کیلئے تنبیہہ ہے… وہ ابھی بھی خود کو سنوار سکتے ہیں….

جی ہاں قارئین یہ جرائم کے خلاف بہت بڑا قدم ہے…جس سے پاکستان کا  موسم  جرائم کی خزاں سے بچ سکتا ہے… جب تک انصاف کے کٹہروں میں عدل کے گہنے اور جواہرات موجود ہیں انصاف کی شہہ رگ جرائم اور کرپشن کی تلوار سے کاٹی نہیں جا سکتی ہے… میں سوچتی ہوں کے ہو سکتا ہےچیف جسٹس کا یہ فیصلہ نہ صرف انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو بلکہ  امن وسلامتی کا مؤجب بھی ثابت ہو…..

لیکن اس کے بر عکس اگر یہ سزا کسی ذاتی مفاد کی بناء پر دلوائی گئی ہے … یا ایک گروہ کا دوسرے گروہ کو نیچا دکھانے یا راستے سے ہٹانا مقصد ہے…تو یہ نہ صرف شرمناک بات ہے بلکہ انسانیت سے گری ہوئی حرکت بھی ہے…. اور تاریخ انصاف کے سنہری پرنوں پر بد نما دھبہ اور ہیبت ناک داغ ہے…

میں اپنے اس کالم میں محترم عمران خان سے یہ درخواست کرتی ہوں کہ جہاں اس فیصلے کو سراہنے والے بہت سے لوگ موجود ہیں وہیں اس فیصلے کے خلاف بولنےوالے بھی بہت ہیں… جو زبان کے اک وار سے انصاف کے اس عمل کو ظلم کی انتہاقرار دے سکتے ہیں…

جو لفظوں کے جال سے نواز شریف کی قید کو زیادتی کے نام پر بن سکتے ہیں…

جو آپکے اس بھر پور عمل کو نا اہلی کے سانچے میں ڈھال کر عوام کو پیش کر سکتے ہیں…. جو انصاف کو زبردستی لفظ کے گلدستے میں سجا کر انسانی ذہن کے چمن میں کھلا سکتے ہیں…. ان بد مزگیوں سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ اپنی پارٹی سے ہی احتساب شروع کیجئیے… پورا پاکستان جانتا ہے کہ  پی ٹی آئی اور دیگر حکومتی پارٹیوں میں ہی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو جرائم کے راستے سے گزر کر اب کسی عہدے پر فائز ہیں… کیا ان کے کردہ جرم… سیاہ کپڑے پر داغ کی طرح نظر انداز ہی کئیے جاتے رہیں گے ؟؟؟ پاکستان کی شفاف دھرتی کو داغدار کرنے والے ان مجرموں کے خلاف کب کاروائی کی جائے گی…؟؟؟

کیا تب … جب ان کے جرم سفید کپڑے پر داغ کی طرح چمکنے لگے گے اور یہ پرچم پاکستان کے سفید حصے پر سیاہ داغ بن کر اسے مزید گندا کریں گے؟؟؟؟ اگر عوام کی منفی سوچ روئیے اور رائے سے بچنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ پہلے اپنے ارد گرد اپنے حلقے اور اپنی پارٹی کے لوگوں میں نظر دوڑائیے اور انصاف کا یہ اندھا چابک ان قصوروار لوگوں پر بھی برسائیے… اب دیکھئیے نا زرداری اور ملک ریاض جیسے سرمایہ دار بھی کرپشن کے کیس میں زیر باز پرس اور تحقیقات میں سر فہرست ہیں… ایسے میں لوگوں کی یہ رائے قائم ہونا کہ حزب الاقتدار گروہ زوال پذیر گروہ سے کوئی بدلہ لے رہا ہے…

یا سابقہ وزیر اعظم موجودہ وزیر اعظم کے اقتدارکی بھینٹ چڑھ گئے… چلیں اسی بات کو تھوڑا واضح کیے دیتی ہوں …. آپ ایسے کہہ لیں کہ اقتدار میں آ کر ایک سیاسی پارٹی نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے دوسری سیاسی پارٹی سے بدلہ لیا…

تو خان صاحب آپ سے نہایت احترام کے ساتھ التماس یہ ہے کہ…     اپنی اور دیگر پارٹی کے  اوپر سے نیچے تک تمام لوگوں کا مشاہدہ کیجئیے اور حسب جرم انکی سزا کو یقینی بنائیے …اگر آپکو نہیں معلوم پڑتا کہ وہ کرپٹ لوگ کون ہیں تو  آسانی کیلئیے آپ نیب سے مدد لے سکتے ہیں….

 کہیں ایسا نہ ہو کہ چراغ تلے اندھیرے کے مترادف آپکی اپنی پارٹی کے لوگ تو کھلے بھاگے پھریں…. جرم کر کے بھی بند سلاخوں کے پیچھے نظر نہ آئیں اور دیگر پارٹی کے لوگوں کے ماضی میں کیے گئے گناہ ان کے مستقبل کی ہتھکڑی اور سزا بن جائیں…

اگر ایسا ہوا تو یہ عمل عدل کے آسمان پر درخشندہ ستارہ بن کر چمکنے کی بجاۓاسلامی عدل و انصاف پر سیاہ داغ بن جاۓ گا….

حصہ

جواب چھوڑ دیں