ستائیس دسمبر اور میڈیا کا رویہ

27 دسمبر 2007 کو جو کچھ ہوا وہ دنیا کی کسی بھی بد تہذیب سے بد تہذیب اور جاہل سے جاہل ریاست میں نہ کبھی ہوا ہے نہ قیامت تک اس بات کا امکان ہے کہ ایسا کبھی ہوگا۔ بینظیر کا ایک خود کش بمبار کے حملہ آور ہونے کے نتیجے میں مالک حقیقی سے جا ملنا بیشک ایک بہت بڑی درندگی اور المیہ تھا لیکن اس کے رد عمل کے طور پر خیبر تا کراچی جو کچھ پورے تین دن تک ہوتا رہا ایسا سب کچھ چشم فلک نے اپنی پوری تاریخ میں نہیں دیکھا ہوگا اور شاید ہی کبھی وہ دیکھے۔ پورے پاکستان کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا اور کھرب ہا کھرب مالیت کی گاڑیاں، ٹرک، ٹرالر، ریل گاڑیاں، ریلوے اسٹیشن اور سرکاری املاک کو خاکستر کردیا گیا۔ خواتین اور بچیوں کو اغوا کیا گیا، ان کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں، مردوں کو مارا گیا، بازاروں میں آگ لگادی گئی اور وہ وہ کچھ شرمناک حرکتیں کی گئیں جس کا تصور وحشی سے وحشی معاشرے میں بھی ممکن نہیں۔

            کہنے کو تو یہ “اسلامی جمہوریہ پاکستان”کہلاتا ہے لیکن لگتا ہے کہ اس میں رہنے والے افراد کے سینوں میں بھی نہ تو اسلام نام کی کوئی شے ہے اور نہ ہی وہ دل جو اسلام کی تعلیمات کا حامل ہو۔ صبر اور تحمل، برداشت اور رواداری کی جو تعلیم اسلام دیتا ہے وہ جملہ پاکستانیوں کے پاس ذرّہ برابر بھی نہیں۔ ممکن ہے کہ یہ بات بہت سارے ان مسلمانوں کو بری لگے جن کو اس بات کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات سے سرشار ہیں اور ان کے اندر پورا کا پورا اسلام اور سیرت نبی و نمونہ صحابہ کرامؓ حلول ہو چکاہے لیکن میں دعوے سے کہتا ہوں جس جذبے کو وہ اپنے رگ و پے میں حلول سمجھتے ہیں وہ اتنا ہی اسلام ہے جتنے کے وہ قائل ہیں یا اپنے تئیں جس کو وہ اسلام سمجھ بیٹھے ہیں۔ ان کا اسلام ان کی انا اور ان کی تنگ نظری کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا عالم یہ ہے کہ وہ مسجدوں، گلیوں، بازاروں، چوکوں اور چوراہوں پر ہر اس مسلمان یا گروہ کو کافر قرار دے رہے ہوتے ہیں جو “ان کے” اسلام سے باہر کے ہوتے ہیں۔

            ایک تو عالم یہ ہے کہ شہادت اتنی عام ہو چکی ہے کہ اگر کوئی بھنگی، چرسی، شرابی، زانی، جواری، چور، ڈاکویا قاتل بھی مارا جائے تو وہ شہادت کے درجے پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ ملک کے خزانوں پر کنڈلی مار کر بیٹھنے والا، زمینوں پر زمینیں ہضم کر نے والا، غریب اور لاچار انسانوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے والا، پاکستان اور پاکستان سے باہر جائیدادوں پر جائیدادیں بنانے والا، قوم کی بہوبیٹیوں اور بیٹوں کا سودا کرنے والا، انسانوں پر کتے چھوڑ دینے والا، خواتین ، بچوں اور بچیوں کی عزتوں کو تار تار کرنے والا، ان کی بے شرمیوں بھری موویاں اور تصاویر اتار کر دنیا بھر کے ننگے چینلوں اور ویب سائیڈوں کے ہاتھوں فروخت کرکے زنائی دولت کمانے والا، پورے پورے گاؤں میں خواتین کو الف ننگا کرکے پھرانے والا اور رات رات بھر مجرے کرانے والا بھی اگر کسی حادثے میں کیا کسی مقابلے میں ہلاک ہوجائے تو اس کی قبر پر “شہید” کا کتبہ نصب کر دیا جاتا ہے۔ ایسے عالم میں یہ کیسے ناممکن ہے کوئی لیڈر یا لیڈرانی اس سند اور اور اعزاز سے محروم سمجھی جائے۔

            جب لوگوں کی عقل و سمجھ اس مقام پر آجاتی ہے تو بینظیر کا شہید ہوجانا کسی کیلئے بھی کو ایسی بات نہیں جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو ذرا بھی حیرت ہوئی ہو۔ جن لوگوں نے بینظیر زرداری کی رحلت سے ایک لمحے قبل تک کے مناظر ٹیلیویژن اسکرین پر دیکھے ہونگے انھوں نے بہت اچھی طرح اس بات کو نوٹ کیا ہوگا کہ بینظیر کا سر بولٹ پروف گاڑی سے باہر نکلا، مجمع سے ایک ہاتھ ابھرا، ایک فائر کی آواز آئی اور بینظیر گاڑی میں واپس جا گریں۔ ٹھیک اسی لمحے ایک زوردار دھماکہ ہوا اور منظر خون میں نہا گیا۔ کیا کبھی میڈیا نے اس بات پر بھی تبصرہ کیا کہ جن لوگوں، اداروں یا گروہوں کی یہ خواہش تھی کہ بینظیر کو عوامی لیڈر کے کے طور پر نہیں ابھرنا چاہیے وہ کام تو اس دھماکے سے کہیں قبل ہو چکا تھا اور بینظیر تو بولٹ پروف گاڑی میں گریں اپنی آخری سانسیں ہی لے رہی تھیں اور گاڑی میں موجود صفدر عباسی اور ان کی اہلیہ ناہید عباسی ان کے آخری سانس گن رہے تھے تو پھر کسی مزید دھماکے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ وہی منصوبی بندی ہے جو اسی لیاقت باغ میں لیاقت علیؒ کے گولی مارنے کے بعد ان کے قاتل کو مار کر کیس کی فائل کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا گیا تھا۔ بعینہ وہی منصوبہ بندی یہاں نظر آئی۔ جونہی وہ پر اسرار ہاتھ پستول کی گولی چلانے اور بینظیر کو مارنے میں کامیاب ہوا ایک زور دار دھماکے نے سارا ماحول دھوئیں سے ڈھاپ لیا۔ جب ماحول چھٹا تو نہ خود کش بچا نہ وہ قاتل جس کی گولی سے بینظیر اپنی جان سے گئیں۔ فرق اُس واقعے میں جس میں لیاقت علی شہید ہوئے اور جس میں محترمہ کو شہادت کی سند عطا ہوئی ، اندر اور باہر کا ہے۔ ایک لیاقت باغ میں سینے پر گولی کھا کر اور یہ کہتا ہوا شہید ہوا کہ اللہ پاکستان کا حافظ و ناصر ہو اور لیاقت باغ ہی میں گرا دوسرا لیاقت باغ کے کے باہرپشت کی جانب سے، پیشانی پر نہیں سر کے پچھلی طرف گولی کھاکر باہر نہیں گاڑی کے اندر گرا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خود کش بمبار کا مقصد دہشت ہی پھیلانا تھا تو جلسہ گاہ سے زیادہ موزوں جگہ کونسی ہو سکتی تھی۔ سیکڑوں افراد مرتے اور نہ جانے کتنے زخمی ہوتے۔ جیسا کہ بینظیر کے ساتھ کرا چی میں ہوا تھا۔ گویا ہدف دہشت پھیلانا نہیں، بینظیر کو مار کر پورے ملک کو آتش فشاں بنانا تھا جس میں وہ لاکھوں کروڑوں فیصد سے بھی زیادہ کامیاب ہوئے۔

            ظلم پر ظلم دیکھئے، وہ دو افراد جوہر ہر بات سے روز روشن سے بھی زیادہ واقف حال تھے، ان کو آج تک عدالت طلب کرکے یا پولیس کی تحویل میں دے کر حقیقت حال کیلئے نہیں بلایا گیا کہ معلوم کیا جائے کہ بینظیر کیوں بولٹ پروف گاڑی سے سر باہر نکالنے پر مجبور ہوئیں، کس کے کہنے پر ایسا کیا اور پھر وہ کس ہتھیار کا نشانہ بنیں؟۔ اس کے برعکس پی پی پی مخالف تحریک کے طور پروہ تا حال سر گرم عمل ہیں لیکن کس کے خلاف ہیں اور کس بنیاد پرہیں؟، اس کا جواب آج تک قوم کو نہیں دیا گیا۔ اگر ان کی موت میں پی پی پی کی قیادت یا پی پی پی کی کوئی منصوبہ بندی نہیں تو ان کے پی پی پی مخالف بیانات کس کے خلاف ہیں اور کیوں ہیں؟۔

            اس میں کسی کو اختلاف ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی کو کوئی شک ہے کہ بینظیر کی بے وقت کی دنیا سے رخصتی ایک بہت بڑا قومی المیہ ہے لیکن کیا جو کچھ رد عمل کے طور پر سامنے آیا اور جس بیدردی کے ساتھ پورے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، کیا یہ اس سانحے سے ہزاروں گناہ بڑا المیہ نہیں؟۔ کیا خیبر سے کراچی تک جو کچھ بھی ہوا وہ صرف اور صرف ایک سیاسی پارٹی کے کارکنوں کے علاوہ بھی کسی اور کے ہاتھ سے ہوا؟۔ کیا جہاں جہاں بھی ایسا ہوا وہ پاکستان نہیں تھا؟۔ کیا جوکچھ بھی ہوا وہ پاکستان کا علاقہ نہیں تھا؟۔ ذاتی پرپرٹیاں ہوں یا سرکاری املاک، وہ پاکستانیوں یا پاکستان کی نہیں تھیں؟۔ کیا مارے جانے والے افراد کسی کافر ملک کے تھے؟۔ کیا جن خواتین اور بچیوں کو اغوا کیا گیا، جن کو بے لباس کیا گیا، جن کی عصمت دری کی گئی وہ سب غیر پاکستانی اور کافرائیں تھیں۔ جس بے رحمی کے ساتھ پورے پاکستان کو تین دن تک برباد کیا گیا تھا وہ سب ہندوستان کی کارستانی اور را کے ایجنٹوں کی شیطانیت تھی؟ پاکستان کی معیشت کی دھجیاں جس بیدردی کے ساتھ بکھیر کر رکھ دی گئیں کیا وہ روس، امریکہ، بھارت یا یہودیوں کے ہاتھوں ہوا۔ کیا وہ افراد جن کاجانی اور مالی نقصان ہوا وہ سارے کے سارے بینظیر کی جان لینے میں شریک تھے؟۔

            یہ سب المیہ اپنی جگہ خود بیشک “بے نظیر” ہے لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی ساری عسکری اور انتظامی قوتیں تین دن تک سکتے کی حالت میں رہیں اور تمامتر اختیاروقدرت کے باوجود بے بسی کی تصویر بنی رہیں اور اپنے اپنے مورچوں(بیرکوں) سے باہر نکلنے کی جرات تک نہ کر سکیں۔ دشمن نے سیالکوٹ کے محاذ پر ٹینکوں کی سب سے بڑی فوج کے ساتھ حملہ کردیا تو چند گھنٹوں کے اندر اندر جو قوت اس کے مد مقابل ہو کر اس فولاد و آہن پیکروں کو کچرے کا ڈھیر بنا کر رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو وہ ان تمام ملک دشمن عناصر، اسلام دشمن اور انسانیت دشمنوں کے سامنے ریت کی ویوار بن کر رہ جائے، ایسا سوچابھی نہیں جا سکتا تھا۔ حکومت بھی کوئی سویلین کی نہیں تھی کہ ایمر جنسی کیلئے کسی لمبے چوڑے مرحلوں سے گزرا جاتا یا اس کا بہانہ بنایا جا سکتا تھا۔ اگر اس کے باوجود بھی پورے پاکستان میں تین دن تک پوری آزادی کے ساتھ آگ اور خون کا کھیل کھیلا گیا تو اسکی کلاہ سسکیوں اور آنسوؤں سے تربتر کس کے سر پر پہنائی جائے گی؟۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب چاہنے والا یا تو لاپتہ کر دیا جاتا ہے یا کسی گلی کوچے میں خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔

            27 دسمبر 2007 کے اس المیہ کو جس طرح ایک فرد کی شہادت کے ملفوف میں لپیٹ کر ہرسال اخبارات میں کروڑوں روپوں کے اشتہارات بنا کر شائع کیا جاتا ہے، ایک ایسا افسوسناک اور المناک حادثہ ہے جس پر جی چاہتا ہے کے اخبارات کے سارے مالکان اور منتظمین کو ایک بہت بڑا الاؤ دہکا کر اس میں پھینک دیا جائے۔ کیا سب کے سب اتنے لالچی اور پیسوں کے غلام بن چکے ہیں کہ کروڑوں روپوں کے عوض جھوٹ کو یکسر بھلاکر، ظلم و ستم کی حدوں سے آگے نکل جانے والوں، قتل و غارت گری کی بھیانک تاریخ رقم کرنے والوں، ملک کے ساتھ غداری کرنے اور اس کو کھربوں روپوں کی سرکاری، نیم سرکاری اور ذاتی پراپرٹیز کو راکھ بنانے، خواتین کی عصمت دری کرنے اور پوری دنیا میں مسلمانوں کا مذاق بنانے والوں کو ایک “شہادت” کے پیچھے چھپاکر ہر سال کی یہ تاریخیں اس طرح منانے کی کھلی اجازت دیدی جائے جیسے اس کے رد عمل کے بعد انھوں نے پاکستان اور اسلام کی بے پناہ خدمت کی ہو۔ کیا ان اشتہارات سے قبل اخبارات کے سارے مالکان چوک اور چوراہوں پر بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں کہ “جھوٹ اور مکر” کے تعریفی اشتہارات کی رقم سے ان کے دلدر دور ہو جائیں گے۔

            مذاق تو یہ بھی ہے کہ وہ سارے محکمے اور ادارے جو وقتی طور پر “شل” بھی ہو گئے ہوں تو ان سے آج تک کوئی یہ پوچھنے کیلئے تیار نہیں کہ حالات کے معمول پر آجانے کے بعد اس واحدپا رٹی، ہنگامہ کرنے والوں اور ملک میں ہر قسم کے سنگین ترین کاموں کو سر انجام دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں کیوں نہیں آئی؟۔ اس پارٹی پر بین کیوں نہیں لگا اور اسی کے ایک خود ساختہ قابض سر براہ کو ملک کا صدر کیوں بنانا دیا گیا؟۔ ملک کی عملاً اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد افواج پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے والا آج بھی پورے پاکستان میں افواج پاکستان کی ناک کے نیچے دندنا تا پھر رہاہے ہیں لیکن سب کو اسی طرح سانپ سونگھا ہوا ہے جس طرح آج سے ٹھیک گیارہ برس قبل سونگھا ہوا تھا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات شاید ہی ہماری زندگی میں کبھی مل سکیں لیکن تاریخ نہ تو ان کو بھلائے گی اور نہ کبھی معاف نہیں کریگی۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں