امتِ وسط کا فرد ہونے کی حیثیت سے ہم ہر قسم کے معاشرے میں ایک داعی کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ خواہ وہ اسلامی معاشرہ ہو، یا کفر و شرک کا۔۔۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ہر ماحول میں سرانجام دینا ہوتا ہے۔
ہم آزادانہ اسلامی نظریات کی پیروی کرنے کے عادی لوگ، کسی دوسرے ماحول میں دعوت کا کام کرنے کے خواہشمند تو ہوتے ہیں، اور اپنی طرف سے بہت سی کوششیں بھی جاری رکھتے ہیں، لیکن اکثر اپنے تجزیے اور اپنے دلائل کو تسلیم کروالینا اپنا فرض سمجھ بیٹھتے ہیں اور یہاں سے رویے بدل جاتے ہیں، تلخ کلامی ہوجاتی ہے، اور بات کافر قرار دینے تک جاپہنچتی ہے۔
جس معاشرے میں آپ رہتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہاں کے قوانین سے لے کر معاشرتی اقدار و روایات کی بنیادیں قرآن و سنت پر مبنی ہوں، اور نہ ہی مسلم معاشرے کی موجودہ حالت قابلِ فخر ہے کہ اپنی مثال دے کر بات واضح کی جائے۔
بعض اوقات کسی ایسے ماحول سے واسطہ پڑتا ہے جہاں مختلف مذاہب آپس میں ٹکرا جاتے ہیں، اگر ایسے موقع پر آپ اپنا دین چھانٹ کر الگ کرنا شروع کریں، اور ہر فرد کو دین کی بنیادوں پر پرکھنا شروع کریں، تو آپ کں فہرست میں کوئی ربط یا معاون نہیں رہے گا۔
اس تفریط کے بعد آپ لوگوں تک دعوت کیسے پہنچائیں گے؟
اس لیے لازم ہے کہ بہت حکمت کے ساتھ غلطیوں کی نشاندہی کریں۔۔۔
آہستہ آہستہ، کئی مرحلوں میں صحیح سمت کی جانب رخ موڑ دیں۔۔۔
سامنے والے فرد کو غلطی کی گنجائش دیں، حسنِ ظن کے ساتھ۔۔۔
ہر فرد کی دلیل کو صبر و تحمل کے ساتھ سنیں، اور تصحیح کریں۔۔۔
بہت خلوص کے ساتھ لوگوں کو اپنا ربط بنائیں، اپنے تجزیے ضرور پیش کریں، مگر تنقید برائے تنقید سے بچیں۔
کسی کی بات کو محض اسلامی قوانین کی بنیاد پر مت تولیں، کیونکہ اکثر ہم اپنی بات کو منوانے کے جوش میں کچھ زیادتیاں کر بیٹھتے ہیں۔
اپنے معاشرے اور اپنے درمیان موجود لوگوں کے علم و عمل کو خاطر میں لائیں، تب انہی الفاظ اور اسی بات کو کہنے کا انداز بدل سکتا ہے، خیال یہی رہے گا، مگر بات کا انداز کچھ ایسا ہوگا کہ دلوں میں اتر جائے گی۔
اس وقت ہماری امت کے نوجوان اپنے اسلامی نظریات و قوانین کو اس قدر خلط ملط کر چکے ہیں کہ بغیر حکمت کے، ہم آپس ہی میں الجھ پڑے تو اس امت کا بہت نقصان ہو جائے گا۔
اسی لیے۔۔۔
’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمہارے دل جوڑ دیے‘‘۔(القرآن)
یہ نظریات کی جنگ، بہت ہوشمندی سے لڑنی ہے۔۔۔ وگرنہ ملتِ اسلامیہ کا پرچم باطل کے نشانے پر ہے!
حق نے کی ہیں دوہری دوہری خدمتیں تیرے سپرد
خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے
خود سراپا نور بن جانے سے کب تک چلتا ہے کام
تجھے اس ظلمت کدہ میں نور پھیلانا بھی ہے