اللہ رب العزت نے انسان کو دیگر مخلوقات سے علم اور سمجھ بوجھ کی بناء عظمت و برتری عطافرمائی ہے۔انسانی زندگی کا اہم مقصداپنے آپ کو علم یعنی سمجھ بوجھ سے آراستہ کرنا ہے ۔علم اورسمجھ بوجھ کے حصول کے لئے کی جانے والی انسانی جد وجہد کو تعلیم کہا جاتا ہے۔تعلیم کی وجہ سے ہی انسان کو اشرف المخلوقات کی دستار فضیلت سے سرفراز کیا گیا ہے۔ایک طالب علم جب اپنے طالب علمی کے زمانے(دس تا پندرہ سال) کو شرائط و آداب کے مطابق گزارتا ہے تب وہ اللہ کے رحم و کرم کی بدولت علم و ایقان ،دانشوری و ہوش مندی،اور تربیت و اخلاق کی وجہ سے معاشرے میں اہم مقام پر فائز ہوتا ہے۔جب طلبہ اپنے طالب علمی کے دور کو اصولوں اور آداب کے مطابق گزارتے ہیں تب اللہ رب العزت ان سے دوسروں کی ہدایت و رہبری اور انسانیت کی فلاح و کامرانی کے کام لیتا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اصول و آداب کی اگر پابندی نہ کی جائے تب بڑے سے بڑے کام بھی مفید نتائج فراہم نہیں کر پاتے ہیں۔دوا کے ساتھ ہمیشہ پرہیز کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔مریض معالج کی تجویز کردہ بہتر سے بہتر دواؤں کو استعمال کرتا رہے اور معالج کی ہدایات سے سرموئے انحراف یعنی بد پرہیزی میں ملوث ہو تب مریض کو علاج کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔کسی بھی کام میں کمال اور مہارت حا صل کرنے کے لئے دو چیزوں کو نہایت اہم گردانا گیا ہے۔ (1)تحقق شرائط کرنے والے کام( Dos) سے مراد، کسی بھی کام کی انجام دہی میں ان تمام شرائط کو بروئے کار لانا جو کام کی احسن طریقے سے تکمیل کے لئے ضروری ہوں۔ (2)ارتفاع موانع نہ کرنے کے کام Donts)) سے مراد کسی بھی کام کی انجام دہی میں رکاوٹ پیدا کرنے والے امور و عناصر سے پرہیز و اجتناب ۔ طلبہ قوم و ملت کے نگہبان و پاسبان ہوتے ہیں اورمستقبل کے معاشرے کی تشکیل میں یہ کلیدی کردار انجام دیتے ہیں اسی لئے ایک کامیاب طالب علم اور انسان کے لئے اپنے کام اور امور کی احسن تکمیل کے لئے تحقق شرائط اور ارتفاع موانع کا لازمی طور پر خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر طالب علم ان دو باتوں کا خیال رکھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تب ناکامی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ وہ طلبہ ہوں یا دیگر افراد، جب ان دو امور پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں تب وہ اپنے علم و مہارت میں کمال و عروج حاصل کرلیتے ہیں۔طلبہ کی سب سے اہم ذمہ داری اپنے ایمان اور فکر کی اصلاح کے ذریعہ پاگیزگی کا حصول ہے۔طلباء کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے خالق ،رازق اور پاسبان کے حقوق کی ادائیگی کے علاوہ تخلیق کے پوشیدہ اسرار کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ ابدی زندگی میں رحمت خداوندی کے حقدار ٹھہریں۔اس مضمون میں طوالت سے احتراز کو مد نظر رکھتے ہوئے طلبہ کے لئے تحصیل علم میں پسندیدہ شرائط و مفید عناصر (Dos) کا احاطہ کیا گیا ہے ۔
تحقق (Dos):معاشرتی زندگی میں تبدیلیوں کا اثر تعلیم پر بھی مرتب ہو ا ہے۔تخصیص (specialisation) کی وجہ سے تعلیمی میدان میں بھی مختلف شعبے وجود میں آئے ہیں۔جدید تعلیمی تحقیق نے جہاں ترقی و تمدن کی نئی راہیں متعین کی ہیں وہیں مقصد تعلیم پر بھی کار ی ضرب لگائی ہے۔جدید تعلیم میں کیرئیر سازی کے رجحان نے مقصد تعلیم کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ حصول علم کا مقصد جہاں زندگی کی رہبری اور شاہراہ زندگی کی سمتوں کو معتین کرناتھا وہیں خود غرضی اور مالی منفعت کے رجحان نے روح تعلیم کو مجروح کردیا ہے۔جو تعلیم انسان کی اصلاح کا مادہ نہیں رکھتی ہے وہ محض ایک بو جھ ہوتی ہے اور وہ جدید علوم جنھیں ہم سائنس سے تعبیر کرتے ہیں اگر وہ انسان کو حقیقی مقاصد کی جانب گامزن نہ کریں تب وہ ایک فریب سے کم نہیں ہے۔حصول علم کے لئے طلبہ ذیل میں بیان کردہ اوصاف سے خود کو متصف کرتے ہوئے نہ صرف ایک مثالی طالب علم بن سکتے ہیں بلکہ ایک کامیاب زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔ (1)حصول علم کا مقصد ؛حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ ایک جگہ سے گزر رہے تھے تب ان کی ایک لڑکے پر نظر پڑی جس کے چہرے سے ذہانت مترشح تھی۔آپؒ نے لڑکے سے پوچھا ’’کچھ پڑھا بھی ہے یا یوں ہی اپنا وقت اور عمر برباد کر رہے ہو؟‘‘ لڑکے نے جواب دیا ’’کچھ زیادہ تو نہیں پڑھا ہے بس چار باتیں سیکھی ہیں۔‘‘ آپ ؒ نے پوچھا ’’کونسی‘‘ کہنے لگا’’سر کا علم،کانوں کا علم،زبان کا علم اور دل کا علم حاصل ہے۔‘‘آپ ؒ نے کہا مجھے بھی کچھ بتاؤ ۔لڑکے نے کہا ’’سر اللہ تعالی کے سامنے جھکانے کے لئے ہے،کان اللہ کا کلام سننے کے لئے ہیں،زبان اس کے ذکر کے لئے ہے اور دل اللہ کی یاد بسانے کے لئے۔‘‘حضرت عبداللہ ابن مبارک ؒ لڑکے کے حکمت آمیز کلام سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس سے نصیحت کے لئے کہا۔لڑکے نے آپ ؒ سے کہا آپ مجھے شکل سے عالم معلوم ہوتے ہیں اگر علم اللہ تعالی کے لئے پڑھا ہے تو پھر اللہ تعالی کے علاوہ کسی سے کبھی امید نہ رکھنا۔‘‘ اس واقعہ سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ علم کا حصول ایک عبادت ہے اور اس کی قبولیت کا دارو مدار اخلاص و للہیت پر منحصر ہے۔حصول علم کا مقصد خود آگہی اور خدا آگہی ہونا چاہیئے نہ کہ دنیا کے حقیر مقاصد کا حصول۔ دور حاضر کے مادہ پرستانہ ماحول میں طلبہ کو یہ جاننا ضروری ہے کہ انھیں کیا ،کب اور کسیے سیکھنا ہے۔ علم طلبہ میں اس شعور کو جاگزیں کرے کہ وہ کون ہیں،یہ دنیا کیا ہے،زندگی اور موت ان سے کیا چاہتی ہے،اسے دنیا میں کس نے اور کیوں بھیجا ہے،اور اس دنیاوی سفر میں اس کا ہادی ،رہبر اور رہنما کون ہے۔ (2)علم کی سچی طلب اور شوق؛طالب کے لغوی معنی ہی کا م کے تئیں فکر کے ہے۔جہاں طلب ہو وہاں بے فکر ی کا وجود محال ہے۔طلب اور بے فکری دونوں یکجا نہیں ہوسکتے ہیں۔طالب علم کے دل میں ہمیشہ جذبہ حصول علم کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہو،اور دل ہمیشہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہے کہ جب تک اسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہو وہ بیکل اور مضطرب رہے اور اپنے مقصد کے حصول تک مسلسل تگ و دو کرتا رہے۔اس سلسلے میں اما م یوسف ؒ فرماتے ہیں کہ’’علم ایک ایسی چیز ہے کہ جب تم اپنی ساری زندگی اس کے لئے وقف کردوں گے تب جاکر علم تم کو اپنا بعض حصہ دے گا۔جب اس کا بعض حصہ تم کو مل جائے تو اس پر تکیہ کر کے مت بیٹھ جاؤ،بلکہ مزید حاصل کرنے کی کوشش کرو۔‘‘(3) وقت کی قدر و اہمیت اور انضباط اوقات:نہ صرف طلبا ء کے لئے بلکہ ہر انسان کے لئے وقت ایک عظیم نعمت ہے۔طلباء اپنے وقت کی حفاظت کریں اور اسے بیکار اور فضول کاموں میں برباد نہ کریں۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کو چھوڑدے۔طالب علموں کے لئے فضول اور لایعنی امور سے پرہیز لازمی ہے تاکہ ان کی قابلیت اور لیاقت میں اضافہ ہوسکے۔ (4)مسلسل محنت و جد وجہد؛دنیا دارالاسباب ہے اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لئے انسان کو اسباب اختیار کرناپڑتا ہے۔اسی لئے اسباب کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ مسبب الاسباب ہے اور ہر چیز اللہ کے قبضے قدرت میں ہے اسی لئے صرف اسباب کو اختیار کرتے ہوئے دنیا کی کامیابی تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن آخرت کی کامیابی کا انحصار ایمان والی زندگی پر منحصر ہے۔اللہ تعالی انسان کو اسی محنت اور لگن کے بقدر عطا فرماتے ہیں۔ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین(اللہ اخلاص کے ساتھ محنت کرنے والوں کی محنت ضائع نہیں کرتے )اللہ تعالی نے اس آیت مبارکہ میں محسنین کا لفظ استعمال کیا ہے ۔محسن کا لفظ احسان سے مشتق ہے اور احسان کے معنی ہے خوب اچھا کرنا۔کسی کام کو خوب اچھا کرنے کے لئے جد و جہد ،سعی عمل،شغل تمام ضروری ہوتے ہیں۔شرعی اصلاح میں احسان اخلاص اور للہیت کو کہتے ہیں۔اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کبھی محسنین کی محنت کو اکارت نہیں کرتے ہیں بلکہ انسان کو اس کی سعی و کاوش کے مطابق عطاکرتے ہیں۔جو طلباء جتنی محنت کریں گے اللہ تعالی ان کو اتنا ہی علم کی دولت سے مالا مال کردیں گے۔ لیکن طلبا جد و جہد اور سعی و جستجو صرف رضا الہی کے لئے کریں کیونکہ حصول علم کا مقصد و مطلوب خود آگہی اور خد�آگہی ہے اور ان صفات کی بدولت ہی علم کو نعمت قرار دیا گیا ہے ۔طلبہ میں اخلاص اور للہیت کا فقدان علم نافع کے حصول میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔محنت کے ساتھ طلباء کے لئے مطلوبہ صفات اخلاص ،تواضع ،ادب ،حسن اخلاق ،معصیت سے دوری حصول علم کے لئے ضروری گردانے گئے ہیں۔طلبہ میں جب تک محنت کا جویا نہیں پیدا ہوگا ان میں تحصیل علم کا جذبہ بھی نہیں پیدا ہوگا۔محنت کے بل پر ہی حصول علم کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ حصول علم کے معاملے میں ہمارے اسلاف کی محنت ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ حضرت سعدی شیرازی ؒ کے احوال میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کی اہلیہ نے بے مزہ کھانا بنانے کی شکایت پر آپ کی کم علمی کا طعنہ دیتے ہوئے ان کے سر پر چمچہ دے مارا اور سر کو زخمی کردیا۔آپ اس تذلیل پر بڑے دلگیر ہوئے اور تحصیل علم کے لئے نکل پڑے ۔اس وقت آپ کی عمر چالیس سال سے متجاوز تھی۔کبر سنی کی وجہ سے حصول علم میں تلفظ کی ادائیگی میں بڑی تکلیف اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔زبان سے مشکل الفاظ کی ادائیگی میں بہت زیادہ دقت ہوتی اور ساتھیوں کے مذاق کی وجہ سے سبکی محسوس کرتے۔ایک مرتبہ حصول علمکے دوران پیش آنے والی سبکی اور طعن و تشنہ سے رنجیدہ خاطر ہوکر خودکشی کی ٹھانی اور کنویں پر جا پہنچے تاکہ زندگی کا خاتمہ کرلیں۔کنویں میں چھلانگ لگانے سے قبل آپ کی نظر کنویں کی چرخی پر پڑی ۔دیکھا کہ کنویں سے پانی نکلنے کی وجہ سے چرخی رسی سی کھس گئی ہے۔تبھی خیال آیا کہ رسی جیسے نازک چیز لوہے کو کاٹ سکتی ہے تو پھر میرے لئے حصول علم اور مشکل الفاظ کی ادائیگی بھلا کیسے مشکل اور ناممکن ہوسکتے ہے۔اس خیال کے آتے ہی آپ نے حصول علم کا ازسر نو عزم باندھا اور تمام لگن اور محنتکے ساتھ تحصیل علم میں مصروف ہوگئے ۔ اللہ تعالی نے آپ کو آپ کی محنت کا بہترین صلہ عطا فرمایا۔ کیونکہ اللہ تعالی کام کرنے والوں کی محنت کو ضائع نہیں کرتا(ان اللہ لا یضیع اجر العاملین)۔صدیاں گزرنے کے باوجو د آج بھی حضرت سعدی شیرازی ؒ کی حکمت اور دانائی کی دنیا معترف ہے۔آپ کی محنت نے بڑی عمر کے باوجود آپ کو اقلیم علم و ادب کا سردار بنادیا۔حصول علم کے لئے سخت محنت درکار ہوتی ہے۔محض آرزؤں اور تمناؤں سے اس کا حصول ممکن نہیں ہے۔محنت کے بل پر ایک ادنی طالب علم،بلند درجات حاصل کر لیتا ہے۔ شیخ یحی جنھیں اما م النحو کہاجاتا ہے ایک ملاح تھے لیکن علم سے بہت زیادہ شغف رکھتے تھے ۔عمر عزیز جب چالیس سال سے زیادہ ہوئی تب حصول علم کا عزم کیا لیکن اپنی عمر کی وجہ سے پس و پیش کرنے لگے۔ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک چیونٹی اپنے منہ میں کھجور کی گٹھلی لے کر بلندی کی طر ف بڑھ رہی ہے اور بارہا ناکامی کے باوجو د اپنی سعی و کوشش جاری رکھے ہوئے ہے اور آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتی ہے۔اس منظر کو دیکھتے ہی شیخ یحیی تحصیل علم کا عزم کر لیتے ہیں اور اپنی کشتی کو بیج کر علم کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ اپنی شبانہ روز محنت اور کوشش کے ذریعہ زبان ،بیان،نحو،لغت اور منطق کا علم حاصل کرنے میں نہ صرف کامیابی حاصل کی بلکہ ان علوم پر آپ کی دسترس کی آج بھی دنیا معترف ہے اسی لئے آپ کو امام النحو کہاجاتا ہے۔ایک مثالی طالب علم کی پوری زندگی جدو جہد سے عبارت ہوتی ہے۔تساہل،کاہلی ،بزدلی جیسے منفی صفات جب ایک مثالی طالب علم کے آگے سر اٹھاتے ہیں تب وہ اپنی اولوالعزمی سے ان تمام منفی جذبوں کو کچل دیتا ہے۔ طالب علم حرکت اور تحریک کا ایک مثالی نمونہ ہوتا ہے۔یاوہ گوئی ،فضول اور لایعنی کاموں سے ایک مثالی طالب علم ہمیشہ خو د کو دور رکھتا ہے۔(5)اولعزمی،بلند ہمتی؛ اعلی نصب العین ایک اعلی کردار کو پیدا کرتا ہے جب کہ ایک ادنی نصب العین ایک گٹھیا کردار کو جنم دیتا ہے۔حو صلہ ،امنگیں،امید اور خو داعتمادی ایک مثالی طالب علم کے ہتھیار ہوتے ہیں۔مذکورہ صفات کی کمی طلبہ میں احساس کمتری کا باعث ہوتی ہے۔ ایک مثالی طالب علم کے لئے مسلسل جدو جہداور محنت کے ساتھ بلند ہمتی (اولعزمی) نہایت ضروری ہے۔اگر طالب علم خو ب محنت کرے لیکن اس میں بلند ہمتی نہ ہو ،تب بھی وہ زیادہ علم حاصل نہیں کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ طالب علم میں ہمت اور بلند حوصلگی ہواور محنت کا فقدان پایا جائے تب بھی وہ علم حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔علم ایک قیمتی شئے ہے اور ہر قیمتی شئے کے حصول میں محنت اور بلند ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ مسلسل محنت ،راحتوں اور لذتوں کو چھوڑنے سے ہی علم حاصل ہوتا ہے۔ (6)کتب بینی اور مطالعہ کی عادت:مثالی طالب علم ہمیشہ اپنا تعلق کتابوں سے استوار رکھتا ہے۔روزآنہ ایک مقررہ وقت پر باقاعدہ مطالعہ کرتا ہے۔روزآنہ باقاعدہ مطالعہ کی عادت سے علم میں اضافہ کے ساتھ پختگی پیدا ہوتی ہے۔ جماعت میں سبق کی تدریس سے قبل سبق کے مطالعہ سے نہایت فائدہ ہوتا ہے۔روزآنہ اسباق کے مطالعہ کابلاناغہ اہتمام کرنے سے سبق اچھی طرح ذہن نشین اور محفوظ ہوجائے۔ جماعت میں سبق کی تشریح و تفہیم(استاد کے درس ) کو ایک مثالی طالب علم نہایت انہماک اور دلجمعی سے سماعت کرتا ہے کیونکہ سبق کا اعادہ اور تکرار نفس مضمون کو سمجھنے اور مضمون میں مہارت پیدا کرنے میں معاون ہوتا ہے۔حصول علم میں یکسوئی اور انہماک کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔مشہور مقولہ ہے کہ’’علم اس وقت تک اپنا تھوڑا سا حصہ بھی نہیں دیتا ہے جب تک کہ طالب علم اپنے آپ کو پورے کا پورا علم کے حوالہ نہ کردے۔‘‘ کتابوں کے انتخاب اور مطالعہ میں سلیقہ مندی اور ترتیب پیدا کرنے کے لئے طلباء اساتذہ سے رہنمائی حاصل کریں۔تن آسانی، سہل پسندی،اور آرام طلبی نہ صرف زمانہ طالب علمی بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر نقصاندہ ثابت ہوتی ہے۔جب یہ عادتیں طلبہ پر حاوی ہونے لگیں تب ان کو مطالعے میں خوب وقت لگانے کی ضرورت ہوتی ہے خواہ انھیں اپنی عادت سے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔نفس پرستی یا نفس سے مصلحت کا طریقہ شخصیت کے ارتقاء اور ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک مثالی طالب علم کے لئے فکری عمل (تطبیق) اور تنقیدی فکر بھی ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ ہر بات کو آنکھ اور کان بند کر کے قبول نہ کرسکے ۔(7)ادب و احترام؛مثالی طالب علم کے لئے استاد اور علم سے متعلق تما م اشیاء کا ادب و احترام لازم ہوتا ہے۔تحصیل علم میں جب تک تین آداب (a)استاذ کا ادب (b)درس گاہ اور مسجد کا ادب (c)کتاب کے ادب کو ملحوظ نہ رکھا جائے تب تک طالب علم کی نہ صلاحیتیں نکھرتی ہیں،نہ استعداد جلا پاتی ہے اور نہ ہی اس کو روحانی ترقی حاصل ہوتی ہے۔ طلبہ استاذ سے مقابلہ مناظرہ ،مکابرہ اور مجادلہ سے ہروقت بچیں۔استاد کے سامنے آنکھیں نہ چڑھائیں،گفتگو میں تیزی نہ برتیں،پیشانی پر بل نہ ڈالیں،کیونکہ یہ باتیں نہ صرف استاذ بلکہ بڑوں کے مقابلے میں بے ادبی تصور کی جاتی ہیں۔طالب علم سے اگر کوئی خطا ،بے ادبی اور غلطی واقع ہوجائے تب وہ فوری استاذ سے عاجزی ،انکساری ندامت اور لجاجت سے معافی چاہے۔(8)کردار کی بلندی؛طالب علم محنتی ہو خوب مطالعہ کرنے والا ہو ،اس کے پاس معلومات کا انبار ہو،لیکن جب اس کے اخلاق و کردار خراب ہوں تب یہ تمام اوصاف بے سود ثابت ہوتے ہیں۔ایک مثالی طالب علم پڑھائی میں دلچسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرہ اور اپنے ساتھیوں کے مسائل کی یکسوئی میں سرگرداں و سنجیدہ رہتا ہے۔یہ گرم جوش ،زندہ دل،وسیع النظر ،کشادہ دل،مثبت نظریات کا حامل،ملنسار اور سب کا بھلا چاہنے والا ہوتا ہے۔ایک مثالی طالب علم ہمیشہ ستاروں پر کمند ڈالنے والا خود اعتماد اور اپنا جہاں آپ پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔
مثالی طالب علم کا روز آنہ کا معمول:(1)ایک مثالی طالب علم نماز پنچگانہ کا پابند ہوتا ہے کیونکہ نماز مومن کا ہتھیار ہے ۔ نماز اور وضو طالب علم کو ہر پل تازہ دم رکھتے ہیں۔(2)اکثر طلباء رات دیر تک پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں جو حفظان صحت کے اصولوں کے مغائر ہے۔طلبہ رات دس بجے تک سوجائیں۔چھ گھنٹے کی نیند لینے کے بعدعلی الصبح چار ساڑھے چار بجے بیدار ہوجائیں کیونکہ سحر خیز ی فطرت کے عین مطابق ہے۔اور اس کی اہمیت سے آج تک کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے بعد تہجد کی نماز ادا کرنے کے بعد پڑھائی کریں۔فجر کی نماز کے بعد اسکول جانے کے وقت سے پہلے تک مطالعہ کریں۔صبح کا وقت مطالعہ کے لئے بہت ہی بہتر ہوتا ہے۔(3)اسکول اور کالج سے واپسی کے بعد دوپہر کا کھانا کھانے اور ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد قیلولہ کی عادت ڈالیں۔تاکہ صحت کے اصولوں کے مطابق آٹھ گھنٹے کی نیند پوری ہوجائے اور طالب علم ترو تازہ ہوجائے۔(4)عصر تا مغرب کوئی آوٹ ڈور کھیل یا چہل قدمی صحت ،ذہن و دل کے لئے مفید ہوتی ہے۔لغو تفریحات سے گریز لازمی ہے۔مثالی طالب علم کی تفریح بھی مثبت ،تعمیر ی اور با مقصد ہوتی ہے۔خاص طور پر ایک مسلم طالب علم کی زندگی میں فضول چیزوں کے لئے کوئی وقت نہیں ہوتا ہے۔(5)مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بعد یا پھر عشاء کی نماز کی ادائیگی سے پہلے کھانے کھا لیں۔مغر ب تا عشاء اہل خانہ کے ساتھ وقت گزاریں۔اندرون خانہ تفریح (Indoor Entertainment) جیسے ٹی وی دیکھنا ، انٹرنیٹ کے استعمال و دیگر اندرون خانہ مصروفیات کی انجام دہی کے لئے مغرب تا عشاء کا وقت مناسب ہوتا ہے۔(6)عشاء کی نماز کے بعد دو تا ڈھائی گھنٹے پڑھائی میں لگائیں۔رات میں جلد سونا صحت کے لئے بہتر ہوتا ہے۔(7)طلبہ اپنے معمولات کو میکانکی انداز سے انجا م دینے کے بجائے انسانی فطرت کے مطابق بنائیں۔باجماعت نماز کا اہتمام کریں۔کوئی ایسی سرگرمی اور عادت سے گریز کریں جو کہ صحت کے لئے مضر ہو۔
مذکورہ بالا اوصاف کے علاوہ ایک مثالی طالب علم میں خوف خدا ،نبی اکرم ﷺ سے غایت درجہ محبت،اطاعت اور عظمت کا جذبہ،دین شریعت کے احکام کی پابندی ،انسانیت کی خدمت کا جذبہ ،پاکی اور صفائی،اساتذہ کی تفویض کردہ ذمہ داریوں کی احسن طریقہ سے انجام دہی جیسے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ ا یک مثالی طالب علم بلااجازت جماعت اور درس گا ہ میں داخل ہوتا ہے نہ باہرجاتا ہے۔اپنے خاندان ماں باپ ، اساتذہ، اپنے کردار اور تعلیمی ادارے کی نیک نامی کو ہر حال میں برقرار رکھناایک مثالی طالب علم کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ ایک مثالی طالب علم کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ تحصیل علم کے سفر کو پرکیف بنانے کے لئے اچھے ساتھیوں کا انتخاب کر ے تاکہ اس کے اساتذہ ،والدین اور خاندان کے افراد کی امید و ں،آرزؤں اور ارمانو ں کا خون نہ ہو نے پائے۔ مذکورہ بالا صفات کو اپنے آپ میں پیدا کرتے ہوئے ایک طالب علم خود کو نہ صرف مثالی بنا دیتا ہے بلکہ دنیا و آخرت میں عزت اور رضائے الہی کا حقدار ہوجاتا ہے۔
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...