بابری مسجد سے کرتارپوربارڈرتک

سولہویں صدی تقریباً 1527 ء میں اتر پردیش کے مقام ایودھیا میں تعمیر کی جانے والی مسجد،کو چوں کہ مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر سے منسوب کیا گیاتھا،اس لیے یہ ’’بابری مسجد‘‘کہلائی۔مسجد کے اوپر تین گنبد تعمیر کیے گئے، جن میں درمیانی گنبد بڑا اور اس کے ساتھ دو چھوٹے گنبد تھے۔ گنبد کے علاوہ مسجد کو پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا ،جس میں صحن بھی شامل تھا۔ صحن میں ایک کنواں بھی کھودا گیا۔ گنبد چھوٹی اینٹوں سے بنا کر اس پر چونے کا پلستر کیا گیا ۔ مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے اس کی چھت کو کافی بلند بنایا گیا ۔روشنی اور ہوا کے لیے جالی دار کھڑکیاں نصب کی گئیں۔ اندرونی تعمیر میں ایک انتہائی خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندرونی حصے میں آسانی سے سنا جا سکتا تھا۔یہی وہ خصوصیات تھیں،جن کی بنا پر اس مسجدکاشماربھارتی ریاست اترپردیش کی بڑی مساجد میں ہوتاتھا۔ اوریہ مسجد نہ صرف مغلیہ فنِ تعمیر کا،بلکہ اسلامی فنِ تعمیر کا بھی ایک شاہ کار سمجھی جاتی تھی۔
یہ مسجد مسلم ہندو فسادات کاسبب گردانی جاتی رہی ۔اس کی وجہ انتہا پسند ہندوؤں کا یہ دعویٰ تھا کہ جس مقام پر مسجد تعمیر کی گئی ہے ،وہ ان کے پیشوارام کی جائے ولادت یعنی جنم بھومی ہے ،لہٰذاان کا حق ہے کہ وہ اس کی جگہ اپنے رام کی یادگار تعمیر کریں۔اس نزاع کو لے کر مسلمانوں کے خلاف کئی پرتشددتحریکیں بھی چلائی گئیں ،اور فسادات کی آگ بھی بھڑ کائی جاتی رہی ۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے ہندو مسلم فسادات 1853ء میں ہوئے،اس کے بعد1859ء میں ملکہ برطانیہ کی قائم کردہ کمیٹی نے ان فسادات کا حل یہ نکالاکہ نوآبادیاتی حکومت کی جانب سے عبادت کی جگہ کی تقسیم کر دی جائے۔اس سے ہندوؤں کااشتعال کافی کم ہوگیا،جو فسادات میں ہمیشہ پہل کرتے رہے تھے۔ایک طویل عرصے سکون رہا،لیکن تقسیمِ ہندکے فقط دو سال بعد1949ء میں اس وقت کی بھارتی حکومت نے یہ شوشہ چھوڑاکہ مسجد کے اندر سے رام کی مورتی برآمد ہوئی ہے،یوں اس مسجد کومتنازع مقام قرار دے کر مسجد کی تالا بندی کردی گئی ۔ 1984ء میں انتہا پسند ہندو جماعت وشوا ہندو پریشدکی قیادت میں سخت گیرہندو تنظیموں وشو اہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کی جانب سے بابری مسجدیعنی بزعم خویش ان کے’’ رام کی جائے پیدائش‘‘ کو آزاد کروانے کے لیے تحریک کا اعلان کیا گیا،اس تحریک نے تنازعے کو دوبارہ نہ صرف زندہ کیا،بلکہ مسلمانوں اور ہندوؤں کو دوبارہ ایک دوسرے کادشمن بنادیا۔ایل کے ایڈوانی،جو اس تحریک کاقائد تھا،ہندوؤں کومسلمانوں کے خلاف اکساتا اور بھڑکاتا رہا۔عدالت میں بھی یہ کیس چلتا رہا،لیکن وہاں سے بھی متنازع فیصلہ آیا ور 1986ء میں عدالت کی جانب سے ہندوؤں کو متنازع مقام پر پوجا کی اجازت دے دی گئی۔اس فیصلے کے بعد مسلمانوں نے بھی مسجد کے دفاع کے لیے عملی اقدام کرنا ناگزیر سمجھا اوربابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ہندوؤں کی اشتعال انگیزی بدستور جاری رہی اور1989ء میں وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔رام کی پوکا یو بہانا تھی،اصل مقصد مسجد کو نقصان پہنچانا اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو زک پہنچانا تھا،چناں چہ 1990ء سے باقاعدہ اس مقصد پر عمل شروع کرتے ہوئے وشوا ہندو پریشد کے حامیوں نے مسجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا،جس پر مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا،اوردفع الوقتی کے طور پر اس وقت کے وزیرِاعظم کی جانب سے مسئلے کے حل کی یقین دہانی اور کچھ نمائشی کوششیں بھی شروع کردی گئیں۔
بالآخراس یادگار مسجد کو6دسمبر 1992 ء میں ہزاروں جنونی، انتہا پسند ہندوؤں نے وحشیانہ طور پرشہید کردیا،اس انتہاپسندانہ وحشیانہ کارروائی میں بی جے پی اور وشو اہندو پریشد کے ا علی رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سیکڑوں مسلح جوانوں نے بھی حصہ لیا۔اس اقدام سے پورے ہندوستان میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے ،جن میں تقریبا دو ہزار مسلمان لقمۂ اجل بنادیے گئے،جب کہ ایک ہزار ہندو بھی مارے گئے۔اس کے بعد وقتاًفوقتاًرام جنم بھومی کے خودساختہ دعوے کی آڑ میں ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رہا۔ مسجد کے حق میں عدالتی جنگ کاسلسلہ بھی جاری رہا اپریل 2002ء سے لے کر اکتوبر 2010ء تک سماعتوں اور پیشیوں کی ایک طویل مشق کے بعد بالآخراکتوبر 2010ء میں، سیکولر بھارت کے منہ پر کالک ملتے ہوئے عدالت بھی انتہاپسند ہندوؤں کے آگے ڈھیر ہوگئی اوراپنے سیاہ ترین فیصلے میں بابری مسجد کی زیادہ تر زمین ہندوؤں کو دے دی، تاہم مسجد کی زمین کے ایک تہائی حصے پر مسجد کی دوبارہ تعمیر کی گنجائش رکھتے ہوئے مسلمانوں کو بھی مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی،تاکہ اس غیر منصفانہ فیصلے کے رد عمل میں کوئی بڑا لاوا نہ پھٹ پڑے۔
یہ مسئلہ اب بھی مسلمانوں کے درمیان وجہ نزاع بناہواہے۔تاریخ کسی بھی زاویے سے ہندو انتہاپسندوں کے اس دعوے کی تائید نہیں کرتی،کہ ان کے رام کی پیدائش اس جگہ ہوئی ہے،جہاں یہ مسجد تعمیر کی گئی ۔اگر ایسا کچھ ہوتا ،تو مغل دورِ حکومت میں بھی ،جب یہ مسجد تعمیر کی گئی،ہندوؤں کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا جاتا،حالاں کہ سولہویں صدی تو دور کی بات، 1853ء تک،یعنی پوری تین صدیوں تک،کسی ہندو سیاست دان یا مذہبی پیشوا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے نہیں آیا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ تراشا گیا،جو اس مسجد کے خلاف سازشوں کا پیش خیمہ تھا۔ہندو اب تک یہاں رام جنم بھومی تعمیر کرنے میں کام یاب نہیں ہوئے۔ایل کے ایڈوانی سمیت کئی انتہا پسند ہندو راہ نما اس خواہشِ ناتمام کو دل میں دبائے دنیا سے جاچکے ہیں ۔ان شاء اللہ!ان کی یہ خواہش کبھی بھی پوری نہیں ہوگی۔کہنے کو اس وقت بھی بھارت میں ایک انتہا پسند ہندوبرسراقتدار ہے،جو گجرات کے مسلم کش فسادات کا ہیرو کہلات اہے،لیکن مسلمانوں کے جذب�ۂ جہاد کے سامنے ان کی ہوا خشک ہوجاتی ہے۔واقفانِ حال بیان کرتے ہیں کہ مجاہدین کی ایک یلغار کی باز گشت بھارت کے ایوانہائے اقتدار میں اب تک سنائی دے رہی ہے،جس میں انھوں نے رام جنم بھومی کی تعمیر کی صورت میں لوک سبھا پر قبضے کی دھمکی دی تھی۔
حال ہی میں پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت نے کردار پور بارڈر کے تعمیری کام کا افتتاح کیاہے،یہاں واقع ایک گردوارے کے بارے میں سکھوں کا کہنا ہے کہ یہاں ان کے پہلے گرونانک دیوجی نے اپنی زندگی کے آخری سولہ سال بِتائے تھے،اور ان کی سمادھی بھی یہاں ہے۔دوسری طرف مرزا غلام احمد قادیانی کا علاقہ گرداس پور بھی یہاں سے قریب ہے۔کہیں مستقبل قریب میں یہ مقام سکھ قادیانی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے ایودھیا یا اسرائیل تو نہیں بن جائے گا؟اس بارے میں کچھ کہنا ابھی اگرچہ قبل از وقت ہے،لیکن خدشات بہرحال موجود ہیں۔اللہ وطن عزیز کے ہر فردِ بشر اور چپے چپے کی حفاظت فرمائے۔آمین!

حصہ
mm
مولانا محمد جہا ن یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے سینئر ریسرچ اسکالرہیں اور مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں