فن لینڈ کا تعلیمی نصاب:۔فن لینڈ میں نصاب تعلیم بہت مختصر رکھا جاتا ہے۔فن لینڈ کے طلبہ دنیا کے ان خوش نصیبوں طلبہ میں شامل ہیں جنھیں دنیا میں سب سے کم ہوم ورک دیا جاتا ہے۔یومیہ ایک طالب علم کو زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے کا ہوم ورک کرنا ہوتاہے۔بچوں کی پوشیدہ تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا تعلیمی نصاب کا اہم مقصد ہوتا ہے۔کسی بچے کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا ۔ہر بچے کی عزت نفس کا بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے۔بچوں کو دیکھنے ،سوچنے ،سمجھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔دیکھے،سمجھے،سوچے اور سیکھے تجربات کو اپنے الفاظ میں پیش کرنا سیکھایا جاتا ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں میں بچے رٹے لگانے پر مجبور ہیں اگر کوئی طالب علم اپنے الفاظ میں کسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے تو اساتذہ کی طبیعت پر یہ بات بہت گرا ں گزرتی ہے اور طلبہ سے فرمانے لگتے ہیں ’’زیادہ عقلمندی دیکھنے کی کوشش مت کرو‘‘۔ہمیں اپنے نصاب کی تیاری اور تعلیمی پالیسی سازی کے وقت ایسے لوگوں سے رہنمائی اور مشاورت کرنی ضروری ہے جو اپنے اور دیگر ممالک کے تعلیمی نظام کا علم رکھتے ہوں۔فن لینڈ کے نصاب اور نظام تعلیم کے روشنی میں ہمارے تعلیمی نظام میں اصلاح کیسخت ضرورت ہے۔فن لینڈ کے اسکولوں میں امتحانات لینا یا دس منٹ سے زیادہ دورانیے کا ہوم ورک دینا ممنوع ہے۔فن لینڈ کے ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ امتحانات لینا اور ضرورت سے زیادہ ہوم ورک دینے سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں سلب ہوجاتی ہیں۔فن لینڈ کی طرح جاپان نے بھی اپنے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ اور تعلیم کو دباؤ سے پاک بنانے کی بہترین کوشش کی ہے۔ابتدائی عمر میں بچے تعلیم کے دباؤ کا شکار نہیں ہوتے ہیں اور اپنے بچپن کے خوب مزے لیتے ہیں۔
جاپان کا نظام تعلیم:۔ ترقی یافتہ دنیا کے تعلیم نظام کا مجموعی طور پر جائزہ لیاجائے اور اس کا ہمارے ملک کے تعلیمی نظام سے تجزیہ و موازنہ کیا جائے تو یقیناہمارا تعلیمی نظام بچوں کے لئے ایک ناخوش گوار تجربے سے کم نہیں ہے ۔ روایتی تعلیم کی ہمارے ملک میں ابتدا ہوکر ایک سو پچیس سال سے بھی زیادہ عر صہ ہوچکا ہے لیکن آج بھی ہم اپنے تعلیمی نظام کا دیگر ممالک کے تعلیمی نظاموں سے تجزیہ و موازنہ کرنے سے قاصر ہیں ۔اپنے تعلیمی نظام کو بہتر اور طلبہ کے لئے آسان و مفید بنانے کے لئے ہمیں دیگر ممالک کے تعلیی تجربوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت درپیش ہے تاکہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر اور نئی نسل کے مستقبل کو روشن و محفوظ کر سکیں۔دوسری عالمی جنگ میں عبر ت ناک شکست اور ہولناک تباہی کے بعد جاپان نے دیگراقوام کے نظام تعلیم کے محاسن پر اپنی توجہ مرکوز کی اور بے مثال ترقی کی۔جاپانی مصنف کینزا بردادی جاپان کی تعمیری ارتقاء کے بارے میں رقم طراز ہے’’ہم مغربی ثقافت میں گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں لیکن ہم نے ایک چھوٹا بیج بویا تھا اور جس طرح بیج کی جڑیں زمین میں پیوست ہوتی ہیں اور وہ پھلتا پھولتا ہے اسی طرح ہم نے بھی خود کو از سر نو تخلیق کیا ہے۔‘‘جاپان کا تعلیمی سفر دیگر ممالک کی بہ نسبت بہت بعد میں شروع ہوالیکن اس نے تعلیمی میدان میں دیگر ممالک کو بہت پیچھے چھوڑدیا ہے۔جاپان میں سوالات کے جوابات کی تیاری ،رٹہ بازی اور نہ ہی دانشورانہ پیمانے و فلسفیانہ ضابطے تعلیمی اساسیات کا حصہ ہیں۔امریکی مصنف پیٹرک اسمتھ(Patrick Smith) (1927-2014)اپنی کتاب جاپان،ایک نئی تفہیم(Japan,A Reinterpretaion)میں جاپانی اسکولوں کے اپنے تجربے اور مشاہدات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’میں جس اسکول میں بھی گیا ،وہاں سیکھنے کے لبرل اصول پر ہی عمل کیا جارہاتھا۔منامی مڈل اسکول چلانے والے تو شیوعجیما کا کہنا ہے کہ ’’سچائی فقط سائنسی حقیقت نہیں ہے۔اس کا مشاہد ہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی روز مرہ کی زندگی میں سچائی تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ طلبہ فطرت میں مسائل تلاش کریں اور انھیں حل کریں‘‘اسکائی ایلمینٹری اسکول کے یوحسونو کا کہنا ہے کہ ’’میری ذمہ داری طلبہ کو ایسے بالغ افراد میں ڈھالنا ہے جو قوم کی مدد کرسکیںْمیرا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘فن لینڈ اور جاپانی نظام تعلیم کے تنا ظر میں دیکھا جائے تو کیا ہمارا تعلیم نظام شعور اجاگر کر رہاہے؟ہمارے ماہرین تعلیم جو نصاب تیار کررہے ہیں کیا یہ ایک باشعور معاشرے کی تعمیر و تکمیل میں معاون ثابت ہوسکتا ہے؟جاپان کی تمام ترقی کا صرف ایک ہی لفظ میں احاطہ کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے تعلیم
جاپان میں تعلیم سے پہلے تہذیب (Manners before Knowledge)کے رجحان کو خاص اہمیتحاصل ہے۔یہاں بچے اپنے علمی سفر کا آغاز حروف کی رٹہ بازی کے بجائے بہتر تربیت سے کرتے ہیں۔جاپان میں بھی فن لینڈ کی طرح ابتدائی رسمی تعلیم(پرائمری ایجوکیشن) کا آغازسات سال کی عمر سیہوتا ہے۔رسمی اسکولی تعلیم سے پہلے بچے کنڈر گارٹنس میں زیر تربیت رہتے ہیں جہاں انھیں قوم کی خدمت کی اہمیت اور ذمہ داری کا در س اورتعلیم کے ذریعہ بحران پر کیسے قابو نا سکھایا جاتاہے۔جاپانی تعلیم کا راز صرف تین نکات میں پنہاں ہے (1)تعلیم کا مقصد تعمیر کردار(2)تعمیر ی شعبوں میں تعلیم و تخلیق(3)تعلیم بہ ذریعہ شراکت داری اور یہ وہ اہم نکتہ ہے جس کے ذریعے طلبہ نہ صرف سیکھتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو سکھاتے بھی ہیں۔اسکول سے بچوں کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جاپان نے اسی وجہ سے اپنے اسکولوں میں ایسے طریقہ درس و تدریس ا ور تعلیم و تربیت رائج کئے ہیں جو طلبہ میں ذہنی وسعت کے فروغ کے ساتھ ایک اچھا انسان بننے میں ان کی بھر پور مدد کرتے ہیں۔جاپان کا تعلیمی نظام دنیا کے بہترین تعلیمی نظاموں میں شمار کیا جاتا ہے۔بچو ں کا اسکول میں داخلے کے چار سال بعد تک کوئی امتحان نہیں لیا جاتا۔ابتدائی چار سالوں میں اسکول بچوں کی کردار سازی پر توجہ دیتے ہیں۔بچوں کو والدین ،اساتذہ،ہمسایوں،ہم جماعت بچوں سے معاملات ،برتاؤ اور اخلاق سکھائے جاتے ہیں۔اپنے اسکول کے ابتدائی چار سالوں میں بچے بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت اور انسانوں کا اکرام اور جانوروں سے صلہ رحمی کا سبق سیکھتے ہیں۔ جاپانی طلبہ اور اساتذہ کے درمیان گہرے روابط ہوتے ہیں اور ان کے درمیان بہت ہی کم فاصلہ ہوتا ہے۔ابتدائی تین سالوں تک طلبہ کو کوئی روایتی تعلیم نہیں دی جاتی۔بچے اپنے اسکول ،کمرۂ جماعت ،کینٹین اور بیت الخلاء کی خود صفائی کرتے ہیں۔اپنے اسکول کی صفائی کے ذریعے بچوں میں صفائی کی اہمیت جاگزیں ہوتی ہے اس کے علاوہ اپنے اور دوسروں کے کام کی عزت و قدر شناسی ان میں پیدا ہوتی ہے۔ جاپان میں ہرکمرۂ جماعت میں دویا اس سے زیادہ ٹیچرز بیک وقت موجود رہتے ہیں تاکہ بچوں پر خاص توجہ دی جاسکے۔ہر کمرۂ جماعت میں کم از کم ایک مددگار(اسسٹنٹ) ٹیچر ضرور ہوتا ہے۔بچوں کے اسکول بیگ میں صرف ایک آدھ کہانی (اسٹوری) کی کتاب یا ایک یا دو ورک شیٹس پائی جاتی ہے ۔تمام نوٹ بکس اور کاپیاں اسکول پر ہی رکھی رہتی ہیں۔ہر موضوع (ٹاپک) یا سرگرمی(ایکٹویٹی) کے بعد بچوں کی استعداد کی جانچ کے لئے کوئز جیسی چھوٹی جانچ (assessment)کا تصور پایا جاتا ہے۔ماہانہ ،سہ ماہی ،شش ماہی اور،سالانہ امتحانات نام کی کوئی سرگرمی نہیں پائی جاتی جس کی وجہ سے بچے دباؤ سے پاک ماحول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔روایتی طرز تعلیم و تدریس کے لئے جاپان میں کوئی جگہ نہیں ہے جہاں کلاس میں بچے اپنی اپنی کتاب کھولے استاد کی اکتاہ دینی گفتگو سنتے جائیں ۔اس کے بجائے کوئی ویڈیو دکھاکر بچوں کی قوت فکر کو مہمیز کرنے والے سوالوں کے ذریعے ان کو سلف لرننگ کی راہ پر ڈالا جاتا ہے جہاں وہ اپنے ہر سوال کا جواب از خود دریافت کرلیتے ہیں۔روایتی تعلیم کے بجائے بحث و مباحثوں کے ذریعے بچوں میں کرو اور سیکھو کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔ جاپان کا تعلیمی نظام اپنی خوبیوں کی وجہ سے معروف ضرور ہے لیکن اپنے طویل اسکولی دورانیہ کی وجہ سے ہدف تنقید بھی بنا ہوا ہے۔ فن لینڈ اورجاپان کے تعلیمی نظام سے ہمیں بہت کچھ درس و تدریس اور تعلیم وتربیت کے گر سیکھنے کو ملتے ہیں۔
تعلیم کو جبر اور اکتاہٹ سے پاک بنانے میں معاون تدابیر؛۔بچوں میں تعلیم و اکتساب سے دلچسپی پید ا کرنے کے لئے روایتی طرز تعلیم و طریقہ تدریس سے احتراز کی اشد ضرورت ہے۔اسکول کے اوقات کار میں تبدیلی نہ صرف طلبہ کے لئے معاون و مفید ثابت ہوگی بلکہ اساتذہ کی کارکردگی میں بھی دباؤ کی کمی کی وجہ سے نکھار پیدا ہوگا۔اسکول کے کھلنے کے اوقات میں انقلابی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے تاکہ بچے طوفانی انداز میں دن کا آغاز کرنے کے بجائے پر سکون انداز میں گھروں سے اسکول کے لئے رخصت ہو سکیں۔ اسکول کے کھلنے کے اوقات نوبجے سے ساڑھے نوبجے کے درمیان ہونا چاہئے۔ صبح میں مدارس کو ابتدائی اوقات میں کھول دینے کی وجہ سے طلبہ متعدد مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ غذائیت اور نیند کی کمی کاہے۔سوا آٹھ بجے اور ساڑھے آٹھ بجے اسکول پہنچنے کے لئے بچوں اور اساتذہ کو کم از کم ایک گھنٹہ سفر پر صرف کرنا پڑتا ہے اور ایک گھنٹہ نکلنے سے پہلے کی تیاری پر۔ تجربہ کار سینیئر اساتذہ جو اپنے علم و فن میں یکتا ہوتے ہیں لیکن بڑھتی عمر کی وجہ سے متعدد عوارض و مسائل کا شکار بھی رہتے ہیں یہ اوقات ان کے لئے بھی ایک سنگین مسئلہ کی شکل اختیار کرجاتے ہیں۔علی الصبح معصوم طلبہ تو کیا بڑی عمرکے لوگوں میں بھوک کی اشتبہا سر نہیں اٹھتی ہے تو پھر کس طرح یہ معصوم جانیں بغیر بھوک کے ناشتہ کھا پائیں گے۔ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ پر چند لقمے زہر مار لیتے ہیں۔نیند کی کمی سے مضمحل بچے جب اسکول پہنچتے ہیں تو پہلے اور دوسرے پیریڈ میں ہی ان کی توانیاں سلب ہوجاتی ہیں۔تعلیم و تدریس میں اپنی توجہ کھو بیٹھتے ہیں۔کمرۂ جماعت کے معمولات بھوک اور نیند کی کمی کے باعث ان کو اکتاہٹ کی جانب مائل کر نے لگتے ہیں۔ناشتے کی کمی کی وجہ سے تحریر (ہائینڈ رائٹنگ) خراب ہوجاتی ہے۔پنسل اور پین پر گرفت ٹھیک طور سے نہیں کر پاتے ہیں جس کے نتیجے میں تحریر خراب اور بھدی ہوجاتی ہے۔
بچوں کو اسکول میں داخل کرنے کی عمر میں اضافے کی اشد ضرورت ہے ۔یہ ایک ناقابل فراموش سچائی ہے کہ فہم ، ادراک اور شعور عمر کے ساتھ ترقی کرتے ہیں ۔بالکل اوائل عمری میں بچوں کو تعلیم میں جھونک دینے سے ان میں چند استعداد یں ضرور فروغ پاتی ہیں لیکن اکتساب کی صلاحیتوں پر منفی اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں۔اوائل عمر ی میں بچوں کو روایتی و رسمی تعلیم کے بجائے نشست و برخواست کے آداب ،گفت و شنید کے اصول ،تہذیب و تمدن ،سماجی و معاشرتی اقدار کے فروغ کے سامان بہم پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ماحول اور فطرت پر غورو خوض کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے بعد روایتی و رسمی طرز تعلیم کی طرف رخ کیا جاسکتا ہے۔رسمی اسکولس سے پہلے کنڈرگارٹن اور پری اسکول کو نئی راہوں پر گامز ن کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بچوں کو نوشت و خواند کے بجائے معاشرتی علوم کی آگہی اور فطرت میں فکر و تدبر کی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکیں۔ کتابوں اور بستے کے بوجھ کو کم کرنے کے ساتھ ہوم ورک کی لعنت سے تعلیمی نظام کو پاک بنانے کی سخت ضرورت ہے۔ پرائمری کی ابتدائی دو جماعتوں میں صرف ایک زبان (مادری زبان ہوتو بہتر ہے) اور دوسرا ریاضی کو نصاب کا جزو بنایا جائے۔تیسری جماعت سے مطالعہ ماحول کا مضمون شامل نصاب کیا جائے ۔چوتھی جماعت سے بین الااقوامی زبان(انگریزی) کی تدریس کااہتمام کیا جاسکتا ہے۔زبانوں کا علم یقیناًبہتر تعلقات کا نقیب ہوتا ہے لیکن بچوں کو جب تک ان کی مادری زبان پر عبور حاصل نہیں ہوپائے گا دیگر زبانیں ان کے لئے درد سر ،وبال جان اور کسی بوجھ سے کم نہیں ہوں گی۔پرائمری درجات کی تکمیل کے بعد اضافی زبان سیکھنے میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کو چھٹویں جماعت سے مقامی زبان یا کوئی اور زبان کے انتخاب کی سہولت فراہم کی جانی چاہئے۔تین زبانوں کی تعلیم یقیناًطلبہ کے لئے بوجھ کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ہمارے نصاب سے زبانوں کے بوجھ کو کم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔بہتر فہم ،تفہیم و ادراک کی خاطر سرگرمیوں پر مبنی تدریس کی انجام دہی ضروری ہے۔روایتی تدریس کے بجائے روزانہ ورکشاپس طرز کے 50تا 60منٹ کے تین اور زیادہ سے زیادہ چار پیریڈس رکھے جائیں۔روزانہ کسی تین مضامین کی تدریس کا اہتمام کیا جائے۔مضامین کی تدریس میں بچوں کی شراکت داری(Involvement)ٹیچر سے زیادہ ہو۔کمرۂ جماعت میں استاد کم بولے ۔بچے کے لئے سرگرمیوں پر مبنی کام زیادہ ہوں۔سرگرمیوں کی انجام دہی کے دوران طلبہ کی مسلسل ہمت افزائی کی جائے۔ہر پیریڈ کے بعد 15تا20منٹ کا وقفہ فراہم کیا جائے۔ ہر روز بچوں کو مطالعہ کی عادت کے فروغ کے لئے بچوں کو سائنس اور فکشن وغیرہ مبنی رسائلفراہم کئے جائیں۔ غورو خوض اور بحث ومباحثے کے طریقے کو رواج دیا جائے۔ اسکول کے کل اوقات کنڈرگارٹن کے لئے تین تا ساڑھے تین گھنٹے،پرائمری جماعتوں کے لئے چار گھنٹے ،ثانوی درجات کے لئے چار تا ساڑھے چار گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہونے چاہئے تاکہ اسکول سے رخصت کے بعد طلبہ ایک دو گھنٹے آرام کر سکیں۔شام میں ایک دو گھنٹے کھیل کود ورزش اور دیگر مشاغلوں میں صرف کر سکیں۔طلبہ کی ہمہ جہت ترقی و نشو ونما کے لئے اسکول کے اوقات کار میں تبدیلی بہت ضروری ہے۔
پرائمری درجات میں کسی بھی قسم کے امتحانات کے انعقاد سے گریز کیا جائے۔بچوں کی استعداد کی جانچ اور ان کے فروغ کے لئے سرگرمیوں کے ذریعہ ان کے اکتساب اور ذہنی ترقی کی پیمائش انجام دی جائے۔ ماہانہ ،سہ ماہی،شش ماہی یا سالانہ امتحانات کے بغیر ہی ہر بچے کی انفرادی جانچ کے اختراعی و تخلیقی اصول مرتب کیئے جائیں۔ جماعت میں درجہ اول دوم سوم کے اعلانات کے ذریعہ بچوں کو احساس کمتری و ذہنی دباؤ کا شکار نہ کیا جائے۔ماں باپ بچوں کے نشانات دیکھنے کے بجائے ان کے سیکھنے کی شرح پر نظر رکھیں۔والدین اگر ان کا بچہ کسی دوسرے بچے سے پیچھے رہ گیا ہو تو سوال نہ کریں گے بیٹا آپ اول کیوں نہیں آئے۔ والدین اپنا مزاج بدلیں بچوں سے سوال نہ کریں گے کہ وہ اول کیوں نہیں آیا ورنہ ان کا بچہ زندگی بھر اول درجے کے پیچھے لگا رہے گا۔بچوں کی قابلیت کو سراہیں۔ ان میں قدر شناسی کا جذبہ پیدا کریں۔ زیادہ نشانات حاصل کرنے سے زیادہ سیکھنے ،سمجھنے اور سیکھے سمجھے پر عمل کرنیپر بچوں کو مائل کریں۔ہمارے امتحانات کے نظام میں تبدیلی و اصلاح کی ضرورت ہے ۔موجودہ امتحانی طریقہ کار میں صرف یاداشت کا امتحان مقصود نظرآتا ہے۔طلبہ کی قابلیت ،ذہانت اور مضمون میں ان کی بصیرت و مہارت کا صحیح اندازہ موجوہ امتحان کے طریقہ کار سے نہیں لگا یا جاسکتا ۔ ہمارے امتحان کے نظام کی سب سے بڑی خراب یہ ہے کہ ایسے طلبہ کے بہتر نتائج دیکھنے میں آئے ہیں جنھوں نے امتحان سے عین دو چاردن پہلے اتفاقاً ایسے سوا ل پڑھ لئے جو امتحان میں بھی آگئے برخلاف اس کے وہ طلبہ جو سارا نصاب تو پڑھ چکے سوائے ان دو چار سوالات کے جو امتحان میں آگئے۔قابلیت ،صلاحیت ،استعداد کی جانچ کے بجائے یہ تو قسمت کی جانچ ہورہی ہے کہ دیکھیں کس کی قسمت ساتھ دیتی ہے اور کون مقدر کا سکندر ہے۔
اساتذہ کے بغیر تعلیمی نظام ادھورا وہ بے معنیٰ ہوکر رہ جاتاہے۔ہمارے نظام تعلیم اس وقت تک نہیں بدل سکتا ہے جب تک اساتذہ اپنے طریقہ ہائے تدریس میں خوش گوار تبدیلی نہ لائیں۔اساتذہ بچوں کو ڈرا دھمکاکر اور جبر و تشدد سے کتابوں کا حافظ تو بنا سکتے ہیں لیکن اس کے علمی لیاقت ،شعور و دانش کو ہرگز راہ نہیں دے سکتے۔تعلیمی نظام کی پسماندگی کے ازالے کے لئے اور طلبہ کی بہتری کے لئے اساتذہ کو جدید طریقہ ہائے تدریس کو اپنانا ہوگا ۔اسکولوں کے ذمہ داران اساتذہ کو جدید طریقہ ہائے تدریس سے روشناس کرنے کے لئے خصوصی تربیت(ٹرینگنس ) کا اہتمام کریں۔استاد کی اہم ذمہ داری ہے کہ نصابی کتب میں موجود ثقیل،بے کیف مواد و غیر فائدہ بخش فلسفے سے مفید معلومات کو چھان کر طلبہ کے سامنے آسان اور عام فہم انداز میں پیش کرے۔تدریسی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے علاوہ استاد اپنے طلبہ کا فکری رہبر ،رہنما اور مربی ہوتا ہے ۔وہ طلبہ میں اچھے عادات ،اصول اور قوانین کے احترام کا جذبہجاگزیں کرے۔ ہمارے تعلیمی نظام کی پسماندگی کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں والدین،اسکول انتظامیہ اور اساتذہ میں کوئی ہمدردانہ جذبہ اشتراک موجود نہیں ہے۔اولیائے طلبہ اپنے نونہالوں کی اخلاقی بے راہ روی اور معیار تعلیم کی پستی کا ذمہ دار اساتذہ کو سمجھ کر اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔والدین اپنے فرائض منصبی سے سرموئے انحراف نہ کریں ورنہ اللہ کے پاس سخت باز پرس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تعلیمی ادارے طلبہ کو مناسب دوستانہ ماحول فراہم کریں۔اسکولوں کو قید خانوں اور پولس اسٹیشنوں میں تبدیل نہ کریں۔طلبہ کی عزت نفس کا خاص خیال رکھیں۔طلبہ کے مسائل اور تجاویز کو غور سے سنیں اور مناسب تجاویز پر عمل بھی کریں۔تعلیمی اداروں کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کریں اور ان صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مددگار مختلف پروگرامس کا انعقاد باقاعدگی سے عمل میں لائیں۔ تعلیمی ادارہ محض اینٹ ،پتھر اور کنکریٹ کے ڈھانچہ کا نام نہیں ہے بلکہ آدمی کو انسان بنانے والی کارگاہ کا نام ہے۔کسی بھی اسکول ،مدرسے،کالج اور یونیورسٹی کے لئے اس کے پاس سے نکلنے والے ڈاکٹر ،انجینئر اور دیگر پیشہ وار افراد کی تعداد فخر کاباعث نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ جب فخر کرسکتے ہیں جب ان اداروں سے نکلنے والے افراد معاشرے کی تعمیر میں اپنا حصہ پیشکریں۔تعلیمی اداروں کے قیام کا مقصد پیشہ وار افراد کی تیاری نہیں ہے بلکہ ملک و معاشرے کی تعمیر ہے۔ایسے تعلیمی ادارے جو طلبہ میں پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کی کردار سازی کا کام انجام دیتے ہیں یقیناًانھیں انسانیت کی تعمیرگاہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔اگر نظام تعلیم ناقص ہوتو ملک و قوم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بلا تامل ٹھوس و صحت مند بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل اور پوری قوم کو نقصان عظیم سے محفوظ رکھا جاسکے۔
1 تبصرہ
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بہترین مضمون ۔ جزاک اللہ ۔