دو روز قبل فون آیا ، دوسری جانب کراچی جمعیت کی معاون ہنیہ تھیں، جنھوں نے کراچی جمعیت کے اجتماع ارکان میں شرکت کی دعوت دی ، (اتنے ارجنٹ نوٹس پہ گمان ہوا کہ یقیناً پہلے سے طے شدہ کنڈکٹر نے جواب دے دیا ہوگا،) وہ کیا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں جمعیت والوں کے لیے گنجائش نکل ہی آتی ہے، پروگرام(جسے ہم نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے از خود گفتگو میں تبدیل کر دیا)کا موضوع تھا”عورت اور خاندانی استحکام” ارے باپ رے، اتنا دقیق موضوع ، وہ بھی جمعیت کے ارکان کے سامنے ، تفنن برطرف ہمیں محسوس ہوا کہ فلسفے اور نظریات پہ اس فورم میں ہمیشہ ہی بات ہوتی رہی ہے ، بچیوں سے کچھ عملی مسائل پہ بات کی جائے۔
جب ہم ادارے میں داخل ہوئے تو ہمیشہ کی طرح ہر سیڑھی پہ قدم رکھتے ہوئے ماضی سے جڑی کوئی یاد چھم سے ذہن میں آتی گئی۔ (جمعیت کا کوئی ایک احسان ہے!!) شوری کے اجلاس کے دوران جب ہم رکا کرتے تو کس طرح ان سیڑھیوں پر بیٹھ کے باتیں کرتے ، ادارے کے سامنے والے گھر کے بارے میں بچپن سے سنی ہوئی کہانیاں دہراتے، ایک دوسرے کے مسائل سنتے،مشورے دیتے، پھر دعائیں کرتے ایک دوسرے کے لئیے۔یہی کچھ سوچتے سوچتے اوہ پہنچے توتبدیلی یہ نظر آئی کہ مرکزی دفتر پہلی منزل پہ موجود کمرے میں منتقل ہو چکا ہے، جس کا دروازہ بند تھا اور اندر سے کھلکھلاہٹوں کی آوازیں آرہی تھیں، ہم پھر سے ماضی میں پہنچے اور ہماری یادوں کے پردے پہ چھم سے ساری ساتھیوں کے ساتھ گزارا گیا وقت اتر آیا،معصوم شرارتیں کرتی سہیلیاں سب آس پاس جیسے نظر آنے لگیں ، بہر حال ،کمرے کا دروازہ کھلا، “ہم کمرہ سجا رہے ہیں ،آپ ذرا ہال میں بیٹھ جائیں، مسکراتے چہرے نے نرم لہجے میں اطلاع دی تو ہم نے فرمانبرداری سے ہال کا رخ کیا، اتنے میں عائشہ فہیم چلی آئیں ، بھاری ذمہ داری اٹھانے والے نازک کندھے, ان سے مزے دار ملاقات رہی ، پھر ہمیں کمرے میں داخلے کا اذن مل ہی گیا، عنقریب رخصت ہونے والی اراکین جمعیت کے اعزاز میں کمرے کو نہایت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا، (تصاویر بھیجنے کے لئیے معاون شہر کا شکریہ)۔ آرائش کے لئیے غباروں اور قمقموں سے کام لیا گیا تھا ، سامنے دیوار پہ سسٹرز ان اسلام بڑی خوبصورتی سے آویزاں تھا، ارے واہ ڈھولکی جیسا ماحول،وقت نہ ملا ورنہ ہم تھوڑے بہت ماہیے ٹپے تو گا ہی لیتے ارکان کو ساتھ ملا کر، تعارف کا سلسلہ شروع ہوا، ہم نے عرض کی جن کن کی شادی ہونے والی ہے وہ تعارف کے ساتھ یہ بھی بتا دیں، اب تعارف کے ساتھ محترمہ گویا ہوئیں، نام ۔۔۔۔۔۔۔ تعلیمی ادارہ۔۔۔۔۔۔اور جن کی عنقریب شادی ہونے والی ہے ، وہ بڑے لجائے ہوئے لہجے میں اضافہ کرتیں”آخری اجتماع ارکان ہے”(ہمیں یاد آیا ہم لفظ شادی کے کیسے کیسے متبادل ڈھونڈتے تھے، دائرہ کار کی تبدیلی ہم نے خوب چھیڑا ہونے والی دلہنوں کو، خوب تبادلہ خیال رہا کہ عملی زندگی میں کن حالات میں کیا کرنا ہے، حکمت ،صبر حسن اخلاق سب پہ ہی بات ہوئی (تھوڑی چالاکیاں بھی سکھانے کی کوشش کی ویسے میں نےان سے معاشرے کی توقعات کیا ہیں، ان کی اپنی کیا توقعات ہیں ، مردوں کی تربیت خاندان کے چلانے کے حوالے سے کرنا کس کام ہے؟ کیا ہماری تحریکوں میں ایسے پروگرام مردوں کے بھی ہوتے ہیں، ہوتے ہی ہوں گے (حسن ظن)، یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ بہو کے ساتھ کس طرح معاملات کرنے ہیں ،یہ معاملات کیا ساسوں کو کسی پروگرام میں بتائے جاتے ہیں؟عہد بھی باندھا کہ ہم معاشرے کو اچھا خاندان،اچھے افراد فراہم کریں گے، ہم دئیے سے دیا جلا ئیں گے، کتنے ہی عہد باندھے سب نے دل میں، پیاری پیاری بچیاں ، نئے گھروں نئے خاندانوں میں جا رہی ہیں، انھیں بھی مستقبل کے حوالے سے توقعات ہیں ، امیدیں ہیں ،اندیشے بھی ہیں، یہ ہرعزم ہیں ، باہمت اور باحوصلہ ہیں سب سے بڑھ کر مخلص ہیں، معاشرے اپنے کردار سے بھی آگاہ ہیں اور اس کی ادائیگی کے لئیے تیار بھی ہیں۔
آئیے ان کے لیے دعا کریں ،اللہ ان بیٹیوں کو دنیا و آخرت کے ہر مرحلے میں آسانیاں اور عافیت عطا فرمائے، ان کی گودوں میں قاسم و طارق پل کر امت کا سرمایہ بنیں، آئیے دعا کریں اللہ ان کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے۔
بہت پیاری دل کو چھو لینے والی مختصر روداد ۔۔۔۔۔۔ سابقین جمیعت ان احساسات کو بخوبی محسوس کر سکتی ہیں ۔