’’ سنت پرعمل کیسے ؟ ‘‘

سنت وہ طریقہ ہے جس کے مطابق اللہ کے رسولؐ نے زندگی گزاری۔آپؐعاجزی اور انکساری کا منہ بولتا ثبوت تھے کہ وہ پیو ند لگا کپڑا پہننے میں بھی عار محسوس نہ کرتے تھے ۔ اس طرح سنت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھی پرانا اور پیوند لگا کپڑا پہننے میں عارمحسوس نہیں کرنی چاہیے۔ اگر کوئی آپ کے ساتھ زیادتی کرے تو اس کا احسن طریقے سے جواب دیں۔ اس سے بدلہ نہ لیں کیونکہ ہمارے نبی کریمؐنے کبھی بھی برْائی کا جواب برْائی سے نہیں دیا ۔ آپ ؐ نے کبھی بھی انتقام نہیں لیابلکہ عفو ودرگزر سے کام لیا ۔ ’’ آپؐ بہترین اخلاق کے مالک ہیں۔ ‘‘ ایک عورت جو آپؐ پر کوڑا پھینکا کرتی تھی اس کا جواب آپؐ نے احسن طریقے سے دیا کہ ایک دن اس کے کوڑا نہ پھینکنے کی وجہ سے اس کے بارے میں دریافت کیا اوراس کی بیماری کی خبر سن کر اس کے گھر گئے اور اس کی تیمارداری کی ۔اس سے اخلاق سے پیش آئے ۔آپؐ کے اس واقعہ سے ہمیں حسن اخلاق اور بیمار کی تیمارداری کرنے کی سنت کا پتہ چلتا ہے۔ آپ ؐ اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے جو ایک بار آپؐ سے ملتا اسے آپؐ سے محبت ہو جاتی تھی اوروہ آپؐ سے دوبارہ ملنے کی خواہش رکھتا تھا۔
’’ وانک لعلی خلق عظیم : اور بے شک آپؐ عظیم کردار کے مالک ہیں۔ ‘‘
ہمیں بھی آپؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے اخلاق کو اور اپنے کردار کو اس قابل بنانا چاہیے کہ ہمارے اخلاق و کردار میں آپؐ کی سنت کی جھلک نظرآئے ۔ہم اپنے آپ کو آپؐ کے امتی کہنے کے قابل ہوں ۔اچھی بات دوسروں تک پہنچانا بھی سنت ہے ۔آپؐ نے نماز ، روزے اور مناسک حج کی جو تعلیم ہمیں دی صرف وہی مسلمانوں میں رواج نہیں ہونی چاہیے بلکہ شادی بیاہ اور طلاق و وراثت کے متعلق جو قوانین آپؐ نے مقرر کئے ہیں وہ بھی عملاً مسلم خاندانوں میں ہونے چاہیں لین دین کے جو ضابطے آپؐ نے مقرر کیئے ہیں انھی کا بازاروں میں چلن ہونا چاہیے ۔ مقدمات کے جو فیصلے آپؐ نے کیئے وہی ملک کا قانون ہو نے چاہیں ہمارااسلامی معاشرہ اور اس کا نظام حیات اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ انھی سنتوں پر قائم ہونا چاہیے جو آپؐ نے خودرائج کیں۔
سنت کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں سنت وہ طریقہ ہے جس طریقے کے مطابق آپؐ نے زندگی گزاری ایک بھی بات کہیں بھی ایسی نہیں کہی جہاں ان کے نفس نے ان کو اکسا یا ہو کہ یہ کرواور یہ نہ کرو۔ اللہ کے کلام کے بغیر قرآن کے بغیر (قرآن کی بات کے بغیر) نبی کریمؐ نے کبھی بھی کوئی طریقہ نہیں اپنا یا ہم اس طریقے کو سنت کہتے بھی ہیں اور ہمیں اس پر عمل بھی کر نا چا ہیے ۔اگر ہم فرائض کی بات کریں ۔وعدہ خلافی نہ کریں ۔احسان فراموشی نہ کریں۔ہر وقت(کسی)دوسروں کی مددکرنے کے لیے تیار رہیں ۔سلام کرنے میں پہل کریں اور کثرت سے سلام کریں ۔اپنے غصے پر قابو رکھیں۔ توجہ سے اذان سنیں اور اس کاجواب دیں ۔ آواز دھیمی رکھیں۔ غرض یہ کہ صبح وشام اپنے قول وفعل میں نبیﷺ کی سنتوں کو شامل کریں اور ان پرعمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔
رسول اللہؐنے ارشاد فرمایا: ’’ فمن رعب عن سنتی فلیس منی: جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ میں سے نہیں۔‘‘

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں