یوٹرن ایک نئی اصطلاح کے طور پرکچھ عرصہ سےسامنےآئی ہے.یوٹرن یعنی اپنی بات سے پھِرجانا،مکرجانا،لیکن کچھ لوگوں کےخیال میں یوٹرن کا مطلب رجوع کرلینا کےہیں، یعنی آپ سے کوئی غلطی سرزد ہوگئی تو اپنی غلطی کومانتے ہوئے صحیح فیصلے کا چناؤ کرلیا۔
لفظ یوٹرن کو عمران خان صاحب سے منسوب کیا جاتا ہے، بلکہ اکثر لوگ تو انہیں یوٹرن خان کے نام سےبھی جانتےہیں. اب یہ صحیح ہے یا غلط لیکن اس کی وجہ ان کا بار بار اپنے بیانات سے مکر جانا ہے.
صدر پاکستان کا خان صاحب کے اپنے بیانات سے یوٹرن لینے پر کہنا ہے کے”شادی سے پہلے کیے جانے والے وعدے اور الیکشن سے پہلے کیے جانے والے وعدے ایک جیسے ہوتے ہیں نبھانے کے لیے نہیں ہوتے”. گویاکے انہوں نے یہ بات قبول لی ہو کہ انہوں نے جتنے بھی وعدےاوربڑےبڑےدعوےکیے تھے وہ سب عوام کو بےوقوف بنانے کےلیے کیے تھے یعنی اب ہم ان سے کوئی امید نہیں رکھیں کے وہ اپنے وعدے نبھائیں گے.
اور پھر بات آتی ہے خودخان صاحب کی تو جناب مسلسل یوٹرن پر یوٹرن لینے کے بعدفرماتے ہیں، “جولیڈر یوٹرن نہیں لیتا وہ لیڈر ہی نہیں” گویا کے لیڈر بننے کےلیے سب سے اہم.خصوصیت ہی یوٹرن ہو.
اور جناب یہاں خان صاحب نےبیان دیاہی تھا کہ ان کی حاضرباش سوشل میڈیا ٹیم یوٹرن کو ایک مقدس عمل قرار دینے کی جدوجہد میں مصروف ہوگئی اور پھر تو اس اصطلاح کے جو فضائل آپ کے سامنے آنا شروع ہوئے معلوم یہ ہونے لگاکے جو انسان یوٹرن نہ لے تو شاید وہ مسلمان ہی نہیں.
پہلے زمانے میں یوٹرن لینا یعنی اپنی بات پر قائم نارہنا ایسے انسان کو اعتبار کے قابل نہیں سمجھاجاتا تھا اور اس کے ساتھ کسی قسم کا معاملہ کرنے میں انتہائی احتیاط برتی جاتی تھی کہ یہ انسان اعتبار کے قابل نہیں ہے اپنی بات پر قائم نہیں رہتا اور اسلام میں بھی وعدہ خلافی عملی جھوٹ میں شمار ہوتا ہے.
افسوس اس بات کا ہے جیسے جیسے انسان ترقی کررہا ہے اور بظاہرتعلیم یافتہ ہورہا ہے ویسے ہی ویسے حقیقی علم،تربیت اور تہذیب سے دور ہوتا چلاجارہا ہے اور بس اب ہم اندھی تقلید کے عادی ہوچکے ہیں جس انسان کے پیچھے چلنا شروع کیا تو پھر بس وہ کھلے عام بھی جرائم کرتا پھرے ہمیں کوئی پرواہ نہیں.
میری دعا ہے کے کاش ہم لیڈر کے پیچھے چلنے والے راستے پر جب سفر شروع کریں تو اپنے ساتھ یوٹرن کا دروازہ ضرور کھلا رکھیں جہاں لیڈر غلطی کرے وہیں یوٹرن لے کر اسکے سامنے جاکھڑے ہوں اور حق کا ساتھ دینے والے بنیں آمین.