امریکا ہوش کے ناخن لے

دنیا کلوبل ولیج ہے اورامریکا اس کا چوہدری ،یہ بات تو سب ہی کو کم وبیش معلوم ہے ،جس طرح ایک روایتی چوہدری اپنے گاؤں کے لوگوں سے سلوک روا رکھتا ہے ۔وہ اپنے احکام گاؤں والوں پر مسلط کرتا ہے ،جس مخالف کے گھر پر چاہے اپنے بندے بھیج کر حملہ کروادیتا ہے ،جب چاہے لوگوں کو مروابھی دیتا ہے اورپھر تھانے میں مقدمہ بھی درج کروادیتا ہے ،یہی نہیں اس مظلوم شخص یا خاندان کے گاؤں میں سوشل بائیکاٹ بھی کروادیتا ہے اوربسا اوقات گاؤں سے بھی بے دخل کر دیتا ہے ۔یہ مثال امریکا پر صادق آتی ہے ۔یہ گلوبل ولیج کا وہ چوہدری ہے جو پوری دنیا پر راج کرنا چاہتا ہے ۔دنیا بھر میں اس کے دو چہرے ہیں ایک وہ جو طاغوت کیلئے ہمدرد اورساہو کار کا ہے ،دوسرامسلمانوں کیلئے جو تاریک اور بھیانک ہے ۔
9/11کے واقعہ کو دنیا جانتی ہے کہ اس سے ہماراکوئی لینا دینا نہیں تھا ۔لیکن امریکا سے مرعوب ہمارے سابقہ حکمرانوں نے اس کے کہنے پر وہ کیا جو نہیں کرنا چاہیے تھا اوراسی تعاون کی وجہ سے آج اس کا حوصلہ ہوچکا ہے اوراب تک یہ ڈو موکا مطالبہ کررہا ہے ۔اسے بھرپورسپورٹ کیا ۔پاکستان کے راستے افغانستان تک نیٹوسپلائی دی۔پاکستان نے امریکا کی اس جنگ میں بڑے جانی ومالی نقصانات اٹھا ئے جبکہ ہمیں باتیں بھی سنائی گئیں اور غیرت کے طعنے بھی دیئے گئے۔
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو سالانہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر سے زیادہ امداد دیتے تھے۔ امریکاپاکستان کو سپورٹ کر رہا تھا اور القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں ملٹری اکیڈمی کے قریب رہائش پذیز تھا۔ پاکستان میں ہر کوئی اسامہ بن لادن کے بارے میں جانتا تھا لیکن انہوں نے ہمیں اس حوالے سے آگاہ نہیں کیا۔امریکی صدر نے تمام تر سفارتی آداب کے منافی رویہ اختیار کرتے ہوئے ایک اور ٹوئٹر پیغام پر بھی اسی طرح کے بھونڈے الزامات لگائے تھے جس پر حکومت پاکستان کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ۔امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان کے خلاف نامناسب بیان پر اسلام آباد میں تعینات امریکی ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا،سیکرٹری خارجہ نے احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کے الزامات ناقابل قبول ہیں اور آئندہ ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے گریز کرنے کا مشورہ بھی دیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے ٹرمپ کے بیان کر نہایت واضح اور دوٹوک موقف اختیار کیا ہے اورامریکا سے کہا ہے کہ وہ اس بات کا پتہ لگائے کی اسے افغان جنگ میں ایک لاکھ 40ہزارامریکی ونیٹو افواج اورڈھائی لاکھ افغان فوجیوں کی تعیناتی کے باوجو د ناکامی کیو ں ہوئی ،افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان کو براہ راست اس کا نقصان ہوا،75ہزارقیمتی جانیں گئیں،123ارب ڈالر کا نقصان پہنچا جب کہ امریکا نے صرف 20ارب ڈالر کی امداد دی ۔
وزیر اعظم کابیان انتہا ئی جرات مندانہ ہے اور یہ امریکا کو دوٹوک اور واضح پیغام ہے کہ اب ماضی کی طرح من مانیاں نہیں چلیں گی ۔اب وہ بات ہو گی جو ملک اور قوم کے مفاد میں ہوگی ۔اس بیان سے قبل توامریکا پہلے کی طرح ہراہرا نظر آرہا تھا ۔اب شاید اسے ایسا نظر نہیں آئے گا ،وزیر اعظم عمران خان نے اقتدا میں آنے سے قبل واضح کیا تھا کہ وہ تمام ممالک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں اوراب بھی ان کا یہی دوٹوک موقف ہے ۔ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں ان کی شخصیت پر کئی سوال اٹھتے رہے ہیں۔ان کے اپنے ملک کے لوگ ان سے خوش نہیں ہیں ۔ہم انہیں کیسے خوش کر سکتے ہیں ۔ماضی میں جو نقصانات پاکستان اٹھا چکا ہے آج کا پاکستان اس کا کسی طور متحمل نہیں ہوسکتا ۔
امریکا کی خارجہ پالیسی پاکستان کے مقابلے میں بھارت کیلئے زیادہ سود مند نظرآتی ہے۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا مفاد کی بنیاد پر ہمار ادوست ہے ،اگر اسرائیل ،بھارت ،برما ،برطانیہ اور دیگر طاغوت کے پروردہ ممالک سے متعلق امریکا کی نرم پالیسی کا جائزہ لیا تو صورتحال سامنے آجائے گی ۔تمام مسلم ممالک کیلئے کی اس پالیسی مختلف ہے۔ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی ہرزہ سرائی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔صدر ٹرمپ کو ماضی میں ذہنی علاج کو مشورہ دیا جاتا رہا ہے اوراب بھی اس کی اشد ضرورت برقرارہے۔
امریکا نے اپنی جنگ میں افغانستان کو اپنے فوجیوں کا قبرستان بنا لیا مگراسے کامیابی نہیں ملی،امریکا کو اپنی ناکامی کے اسباب ضرورجاننے چاہئیں ۔پاکستان کے عوام غیرت مند ہیں ۔امریکاپاکستان کو کمزور نہ سمجھے اسے یہ جان لینا چاہیے کہ غیرت مند قوم اپنا دفاع کرنا جانتی ہے ۔پاکستان کی مسلح افواج نے خطے میں امن واستحکام کیلئے بڑی قربانیاں دیں ہیں اوراسی کی وجہ سے ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہے ۔امریکا کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لے پاکستان کی خدمات پر اس سے تشکر کا اظہار کرنے کے بجائے ہرزہ سرائی کرکے قوم کے ماضی کے زخموں پر نمکک نہ جھڑکے ۔

حصہ
mm
1988 میں زمانہ طالب علمی سے قلم قبیلے کا حصہ بنے۔بچوں کی کہانیوں سے لکھنے کا آغازکیا ۔1997میں میٹرک کے بعد صحافت کے پیشے سے بطور سب ایڈیٹرمنسلک ہوئے۔2000سے 2012 تک روزنامہ جسارت کراچی میں بطور ڈسٹرکٹ نیوز ایڈیٹر ذمہ داریاں انجام دیں ۔مختلف نیوز چینلزمیں بھی کام کا تجربہ حاصل کیا۔آپ جامعہ اردوسے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں ۔کرنٹ افیئر ،بچے اورمعاشرہ آپ کے تحروں کا مرکزومحور ہیں ۔قلم کو اصلاح اورخدمت کیلئے استعمال کرناان کامقصد حیات ہے۔شاعری سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں ۔آپ اچھے کمپیئر بھی ہیں۔آج بھی ایک قومی سطح کے اخبار سے بطورسینئرسینئرسب ایڈیٹر منسلک ہیں ۔آپ رائٹرزفورم پاکستان کے صدر ہیںاورتقریباًتمام ہی اردو اخبار ات میں کالم کاری کرچکے ہیں،آپ کے سیکڑوں کالم ،مضامین ،فیچرزاوررپورٹس اخبارات وآن لائن ویب سائٹس کی زینت بن چکے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں