امریکا اور افغان جنگ

افغانستان کی روداد بہت دلچسپ اور خوفناک ہے، جس میں رب العالمین کے معجزات بھی ہیں اور درد و خوف کی انتہاء بھی ۔بات کچھ زیادہ پرانی نہیں بس 18سال قبل افغانستان میں اس وقت کے سپرپاور نے 42ممالک کے فوجی اتحادیوں کے ساتھ افغانستان میں چڑھائی کردی تھی یہ تاریخ کا واحد موقع تھا جب کسی ملک میں تباہی کوئی ایسی داستان رقم کی گئی ہو اس پر اقوام عالم کو سانپ سونگھ گیا تھا افغانستان کے پڑوسی اور مسلم ملک پاکستان کی جرات نہیں تھی کہ وہ اِن کو للکارے یا اپنے مسلم بھائیوں کا ساتھ دے پاکستان اس جنگ میں امریکا کا اتحادی بنا اور پھر کیا تھا سال گزرتے گئے اور امریکا کے اتحادی کم ہوتے گئے اور وقت یہ بھی آیا کہ امریکا جنگ میں اکیلے نظر آیا اور جس قوت کے ساتھ آیا تھا اسے سبکی کا سامناکرنا پڑا بلکہ پڑ رہا ہے لیکن پاکستان نے امریکا کی یاری میں اپنے 75,000شہری قربان کردئیے، سیکڑوں کومعذوری کا منہ دیکھنا پڑا، لاکھوں کو بے روزگارہونا پڑا اور معیشت تباہ ہوگئی ،پاکستان کی ہر گلی کوچے میں ایک دن میں کئی دھماکے ہونے لگے ۔لوگ اپنی جان و مال سے ہاتھ دھوتے رہے مگر حاکمِ وقت نے امریکا سے دوستی کو ترجیح دی جس کا خمیازہ آج بھی نوجوان بھگت رہے ہیں۔ جس بارڈر پر کبھی فوجی نہیں ہوتا تھا آج وہاں سیکورٹی کے نام پر اربوں روپے کا خرچہ ہے اور یاروں کے یار امریکا نے ہم کو اس جنگ میں تنہاء کردیا ہے جس کو ہم نے دشمن سمجھا دراصل وہ دوست تھے ،آج ہم دیکھتے ہیں امریکا پاکستان پر اپنے 35بلین ڈالر کا حساب مانگتا ہے جس جنگ میں پاکستان نے نا صرف شہداء بلکہ 123ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا اور اس جنگ ہم نے نہ صرف امریکا کو اپنی حدود دے کر افغان پناہ گزینوں کو نشانہ بنایا بلکہ مشترکہ فوجی آپریشن بھی کئے۔کس کی ایما پر پاکستان کی جانب سے امریکا کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے دی گئی ؟کیوں ڈرون حملوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بمباری کی؟ کیوں امریکی اور نیٹو افواج کو کراچی کے ذریعے اسلحے کی ترسیل کی گئی ؟ یہ وہ سوال ہیں جس کاجواب کسی کے پاس نہیں لیکن یہی وہ امریکا ہے جس کے لیے ہمارے حکمران بچھے جاتے تھے آج اس ملک کے صدر نے تمام قربانیوں کا مزاق اڑا کربتا دیا کہ واحدمسلم ایٹمی ملک کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ۔
امریکا کو ویتنام کے بعد افغانستان میں شکست کا خطرہ لاحق ہے لیکن وہ کیا پاکستان کو کمبوڈیا بنانے کی سوچ رہا ہے تو شاید اس کاجواب انتہائی ناگواری کیساتھ “ہاں”میں ہوگا۔امریکی فوجیوں و اتحادی افواج کی جانب سے افغانستان میں ظلم کے پہاڑ ڈھائے گئے ہیں جو بدترین مثالیں سپر پاور نے ویتنام میں قائم کی ہیں وہ ناقابل یقین اور انسانیت سوز ہیں ۔امریکہ کے استعماریوں نے جنوبی ویتنام کو امریکی فوجی اڈے میں بدلنے کے لیے نئی طرز کی نوآبادیاتی حکومت مسلط کی، وہاں برپا ہونے والے انقلاب کو بے دردی سے کچلا،1965ء میں جب امریکا براہِ راست ویتنام جنگ میں داخل ہوا اور جب 1975میں وہ وہاں سے نکلا، اس دورا ن ویتنام کے 30 لاکھ لوگ جبکہ 58 ہزارامریکی فوجی مارے گئے تھیجبکہ امریکا نے 10 ہزار جنگی جہاز و ہیلی کاپٹر گنوائے تھے، مگر پھر بھی شکست نہیں دے سکا ۔جسے وہ انڈوچائنا میں ‘کمیونسٹ عفریت’ قرار دیتا تھا۔ عسکری تاریخ آج بھی گواہ ہے کہ جنگ ہائے عظیم کے علاوہ کبھی اتنا بڑا جانی و مالی نقصان نہیں ہوا جتنا کہ ویتنام کی جنگ میں ہوا تھا۔
امریکا کو مسلسل پے در پے شکستوں نے امریکی فوجیوں کا مورال بدترین طور پر ہلا کررکھ دیا افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ،17سالہ جنگ میں امریکا کے اب تک 2313فوجی قتل ہوچکے ہیں جبکہ ہزاروں خودکشی کے چکے ہیں جنگ میں شریک ہونے کے بعد سے سپرپاور کے ہزاروں فوجی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں جبکہ دوسری طرف 42ملکی اتحاد میں شامل برطانیہ کے 656فوجی ہلاک ہوئے کینیڈا کے 157،فرانس کے 88،جرمنی کے 57، اٹلی کے 53،پولینڈ کے 43، ڈنمارک کے 43،آسٹریلیا کے 41،اسپین کے 35،جورجیا کے 32،رومینیا کے 26،ہالینڈ کے 25،ترکی کے 15،جیک ریپبلک کے 14،نیوزی لینڈ کے 10،ناروے کے 10،ہنگری کے 7،سوئیڈن کے 5،لیٹویا کے 4،سلوویکیا کے 3 جب مزید چار ممالک کے ملا کر10فوجی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ طالبان کے نام سے افغانستان میں کارروائی کرنے والی تنظیم کے 35,000سے زائد لوگ مارے گئے ہیں ۔
اس 17سالہ جنگ میں امریکا کو اب 1ہزار70 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے ،پہلی بار سپرپاور نے افغانستان میں 773ارب ڈالر کا خرچہ کیاجس میں فوجی آپریشنز، سامان کی ترسیل،جہاز،تنخواہیں اور دیگر چیزیں شامل ہیں، جنگ کو وسیع کرنے اور اپنے انٹیلی جنس روابط کو بڑھانے کیلئے امریکا نے مزید 243ارب ڈالر خرچ کئے جبکہ جنگ میں زخمی ہونے والوں سائیکو لوجیولیکل بیماریوں میں مبتلا اپنے فوجیوں پر 54.2بلین ڈالز خرچ کئے ہیں جبکہ اس مد میں مزید خرچ ہورہے ہیں ۔
امریکا نے نائن الیون حملوں کے بعد جب افغانستان پر چڑھائی کی تو اس وقت امریکا سمیت اتحادی افواج کے 9,700فوجی افغانستان میں موجود تھے جب 2003میں افغانستان میں طالبان نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کیا تو امریکا نے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا اور 13,000فوجی مزید افغانستان میں داخل کردیئے 2004میں یہ تعداد 18,000ہزار ہوگئی ،2005میں 17ہزار ،2006میں فوجیوں کی تعداد بڑھتے ہوئے 20,000ہزار تک جاپہنچی تھی جبکہ اگلے سال مزید 24,000ہزار فوجی ،2008میں 32,000ہزار فوجی افغانستان میں موجود تھے جب 2008میں طالبان منظم ہوئے اور انہوں نے جب غزنی اور دیگر علاقوں پر قبضہ کیا تو چنگیز خان کی سرزمین میں قتل عام برپا ہوگیا اور اسی سال امریکی فوجیوں کی تعداد دوگنی ہوگئی اور 69,000فوجی افغان سرزمین میں داخل ہوئے جب سپرپاور سے 2010تک طالبان کنٹرول نہ ہوئے تو انہوں مزید تعداد بڑھا کر 96,000ہزار کردی تھی جبکہ دیگر اتحادی افواج کے فوجی ملا کر یہ تعدادڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی تھی ،اس تمام میں امریکا نے افغان فوجیوں کو باصلاحیت بنانے کی کوشش کررہی ہے اب امریکا افغان جنگ میں شکست کے دہانے پر ہے اور اس کوقبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے یوں سپرپاور پاکستان پر الزام تراشیاں کررہی ہے یہی پاکستان آج اگر کھڑے ہوکر کہہ سے کہ ہم امریکا کے کنٹینر اپنی سرزمین سے نہیں گزرنے دینگے تو شاید امریکا گڑ گڑ تا ہو پاکستان کی منت سماجت کو تیار ہوجائے گا۔
موجودہ افغان جنگ کے باعث عالمی سپرپاور خود مقروض ہوچکی ہے صرف ملک خداداد کو ایک لیڈر کی ضررورت جو امریکا کو منہ توڑ جواب دے سکے ۔

حصہ
mm
موسیٰ غنی ایک مقامی روزنامہ کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں بھی کالمز لکھتے ہیں۔مطالعے سے خاص دلچسپی اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں