استاد کا طلبہ سے تعلق و رشتہ؛۔ شعبہ تدریس دنیا کے چند بہترین شعبوں میں سے ایک ہے۔ استاد شاگرد کا رشتہ بہت مضبوط اور اٹوٹ ہوتا ہے۔ یہ رشتہ نہایت پاکیزہ ہے اور حصول علم میں اساسی اہمیت کا حامل بھی ۔ دنیاکے چند بے غرض اور لوث کاری سے پاک رشتوں کی فہرست میں استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی شامل ہے۔استاد اپنی سختشاقہ اور جانفشانی سے انسان کو معاشرتی حیوان بننے سے محفوظ رکھتا ہے اور انسانیت کی خلعت فاخرہ سے سرفراز کرتا ہے۔اسلامی نقطہ نظر سے ماں کی گود کو بچے کی پہلی درس گاہ کہا گیا ہے اس لحاظ سے بچے کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی میں والدین کا حصہ بھی ہوتا ہے ۔لیکن بچے کو تعلیم و تہذیب کے گوہر آب دار اور تربیت کے بیش بہا سرمائے سے آراستہ کرنے میں استاد کا اہم کردار ہوتا ہے۔اگر استاد کو بچے کی تعلیم و تربیت کا سنگ بنیا د کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ا ستاد اپنے علم اور تجربہ سے بھانپ لیتا ہے کہ اس کا شاگرد ہیرا ہے یا پتھر ۔یہ استاد کا کمال ہے کہ وہ ہر دوصورت میں بچے کو کارآمد بناتا ہے۔ وہ ہیرے کو اہمیت دے کر پتھر سے گریز نہیں کرتا ، بلکہ جس طرح سے ہیرے کو زیورات و تاج میں جوڑ کر اس کی اہمیت افادیت اور قیمت میں چار چاند لگا دیتا ہے اسی طر ح ایک سنگ ناہموار کو اپنی فنکارانہ تراش خراش و صورت گری سے عجوبہ روزگار بنادیتاہے ۔ لوگ کہیں اسے سنگ مرمر کی شکل میں تاج محل، کہیں سنگ سرخ کی صورت لال قلعہ تو کہیں کوہ نور کی صورت تاج میں جڑاپاتے ہیں۔ایک شفیق استاد اپنی توجہ ،دلچسپی اور شفقت کی شبنم کے چھڑ کاؤ سے معصوم کلیوں کو پھول بنا دیتا ہے جو اپنی خوشبو سے سارے عالم کو معطر کر تے ہیں۔ ایک استاد جہاں اپنے علم سے شاگردوں کی الجھنیں دور کرتا ہے وہیں اپنی پند و نصائح کے ذریعے ان میں عقل و شعور کو پروان چڑھانے میں مگن رہتا ہے۔استاد کی تعظیم ہر زمانے میں ہر انسان نے کی ہے۔جس معاشرے میں استاد کی تعظیم نہیں کی گئی وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرپایا۔ سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ وہ استاد کو کیوں اپنے ماں باپ سے زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔سکندر نے جواب دیا کہ میرے والدین مجھے آسمان سے زمین پر لے آئے جب کہ میرے استاد نے مجھے زمین کی پستیوں سے آسمان کی بلندیوں پر فائز پہنچادیا۔والدین نے میرے جسم کی پرورش کی اور استاد نے میری روح و جان کی۔ درس و تدریس میں استاد شاگرد کے رشتے کو بہت اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جس قدر استاد شاگرد کا رشتہ مضبوط اور بہتر ہوگا اسی قدر اکتساب (سیکھنے ) کی شرح بھی بڑھے گی۔اگر استاد اور شاگرد کے رشتے میں کہیں جھول اور خلا پایاجائے تب درس و تدریس کے خاطر خواہ نتائج برآمدہوں گے اور نہ بچے سیکھنے میں دلچسپی لیں گے۔طلبہ کی توجہ اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر تدریسی منصوبہ بندی انجام دینے والے اسا تذہ بلا شبہ تدریسی مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ طلبہ مرکوز تدریس استاد اور طالب علم کے مابین بہترین روابط استوار کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔اسی لئے جدید طریقہ تعلیم میں طلبہ کی دلچسپی اور ذہنی استعداد کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔اپنے شاگردوں کی الجھنوں ،مسائل اور دیگر مصیبتوں سے آگا ہ استاد ہی بہتر طریقے سے تدریسی وسائل سے استفادہ کر سکتا ہے۔تدریسی وسائل کو کارآمد بنانے اور تدریس کو موثر اور دلچسپ بنانے کے لئے استاد کو اپنے شاگر د کے ذہنی خلفشار ،الجھنوں اور اکتسابی مشکلات و معذوریوں سے کماحقہ واقف ہونا ضروری ہوتا ہے۔ایک استاد اپنے شاگردوں کے مسائل کا علم رکھتے ہوئے ان کے حل کے لئے جب ایک رہبر ،رہنما ،غم خوار اور مونس کے طور پر آگے آتا ہے تب شاگرد اپنے استاد کووالد ین سے بھی زیادہ پیار و محبت کرنے لگتے ہیں۔ استاد شاگرد میں جب اٹوٹ وابستگی اور اعتماد کی فضاجنم لینے لگتی ہے تو شاگرداستاد کی صحبت کو دنیا کی تمام صحبتوں سے بہتر اور ایک محفوظ پناہ گاہ سمجھنے لگتا ہے۔طلبہ مرکوز طریقہ تدریس،بہتر ،ہمت افزا اور شفقت پر مبنی ماحول استاد شاگر د کے مابین ایک مضبوط رشتے کو استوار کرتا ہے۔استاد شاگر د کے مابین قائم رشتے کے بل پر استاد طلبہ کی منفرد خوبیوں اور ضرورتوں سے آگہی کے ذریعے ایک مثبت تعلیمی ماحول پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔ایک مثبت تعلیمی و اکتسابی فضاء کی ہمواری میں استاد اور شاگر د دونو ں کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ استاد کے رویے اور طرز عملمبنی شاگرد کا رویہ اور طرز عمل جس طرح سامنے آتا ہے اسی طرح شاگرد کے رویے اور طرز عمل پر منبی استاد کے رویے سامنے آنے لگتے ہیں۔ایک عالم فاضل تجربہ کار اور جہاندیدہ شخص ہونے کی وجہ سے استا دہ پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شاگرد وں کے ناگوار طرزعمل اور رویوں کو خوش اخلاقی اور صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرے ۔ایک مثالی استاد ہر پل اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی میں منہمک نظر آتا ہے۔پیشہ تدریس جہاں استاد سے محبت ،شفقت، اور ہمددری کا مطالبہ کرتا ہے وہیں استاد کے لئے شاگردوں سے عزت و اکرام کا تقاضہ بھی کرتا ہے۔استاد اور شاگر کے درمیان ایک عظیم اور صحت مند رشتہ صرف اور صرف دونوں کے رویوں اور طرزعمل پر وجود میں آتا ہے۔ ہر پل جب استاد اپنے شاگردوں کو غبی، پریشانی کا باعث،غیر اہم ،نامراد اور ناکارہ سمجھنے لگ جائے تب فطری طور پر طلبہ میں منفی رویے پیدا ہوں گے۔ ہر طرح کا منفی رویہ و تعلق صحت مند اور موثر درس و اکتسا ب کے فروغ میں مانع ہوتا ہے۔منفی رویے صحت مند تعلقات کی تعمیر میں سب سے بڑی روکاوٹ بن کر سامنے آتے ہیں۔استاد کی غفلت ،عدم توجہ ، بے پرواہی،ااور منفی رویوں کی وجہ سے طلبہ باغی ہوجاتے ہیں اور استادکو ناپسند کرنے لگتے ہیں ۔استاد کو نا پسند کرنے کی وجہ سے ان کے پڑھائے جانے والے اسباق کو بھی وہ خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔استاد اپنی منفی رویوں والی روش کو تج کر جب بچوں کو ہمددرانہ طور پر سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ،ان کی تعلیم و تربیت میں دست تعاون دراز کرتا ہے،ان کے بارے میں اپنی فکرمندی کا اظہار کرتا ہے تب طلبہ استاد کی جانب راغب ہونے لگتے ہیں اور ان کے مابین ایک اٹوٹ رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔شاگرد ذہن و دل سے اپنے استاد کی عظمت کے قائل ہوجاتے ہیں اور دم آخر تک اس کا ادب و احترام کرتے رہتے ہیں۔استاد کی جانب سے اٹھائے جانے والے چھوٹے چھوٹے قدم ایک عظیم رشتے کی بنیاد بن جاتے ہیں جس پر اعتماد ،محبت ،شفقت اور احترام کی ایک عظیم عمارت کی تعمیر ہوتی ہے۔ استاد کی جانب سے اٹھائے جانے والے مندرجہ ذیل اقدامات استاد اور شاگرد کے مابین صحت مند رشتہ و تعلق پیدا کرنے میں نہایت معاون ہوتے ہیں۔
(1)طلبہ کو سمجھنے اور پیش آنے میں استاد کا طرزعمل اور رویہ استاد شاگرد کے مابین صحت مند تعلق پیدا کر نے میں بہت ہی معاون تصور کیا جاتا ہے۔
(2)طلبہ کے اکتسابمیں استاد کی جانب سے کئیے جانے والے اقدامات اور طریقہ تدریس طلبہ اور استاد کے درمیان بہترین رشتہ استوار کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔
(3)طلبہ کی ہمہ جہت ترقی کے لئے استاد کی فکر مندی اور احساس ذمہ داری استاد اور شاگرد کے رشتہ کو استحکام فراہم کرتی ہے۔
(4)نظم و ضبط کی برقراری کے لئے استاد کی جانب سے اختیار کردہ تکنیک و طریقہ کار پر بھی استاد اور شاگرد کے تعلقات کا بڑی حد تک انحصار ہوتا ہے۔
ذیل میں چند مفید حکمت عملیوں کو جامع طور پر پیش کیا جارہا ہے جس پر عمل پیرائی کے ذریعے استاد اور شاگرد کے مابین صحت مند ،معاون و مددگار رشتہ یقینی طور پر استوارکیا جاسکتا ہے۔
(1)استاد طلبہ سے اپنی محبت ،شفقت ، ہمددری کا اظہار کرے۔طلبہ کو اپنے رویوں اور برتاؤسے تاثردے کہ وہ جو بھی سرگرمیاں انجا م دے رہا ہے ان میں طلبہ کی تعلیمی ترقی اور روشن و خوشحال مستقبل پنہاں ہے۔
(2)طلبہ جب کبھی مطابقت (adjustment)پیدا کرنے کے مسائل،ذہنی دباؤ(stress) یا پھر کسی الجھن اور پریشانی کا شکار ہوجائیں استاد ان مسائل اور الجھنوں کو دور کرنے میں پہل کرے اور رہنمائی، تحریک اور ترغیب کے ذریعے ان میں اعتماد واطمینان کی فضا ہموار کرے۔
(3) خاص طور پردوسرے کے سامنے میں ان کے برتاؤ ، تعلیمی مظاہرے ،اور کردار کے بارے میں تنبیہ نہ کریں۔ان کی اغلاط کو درست کرنے میں حکمت ،مصلحت اور دانائی سے کام لیں۔استاد کا کام طلبہ کی خرابی دور کرنا ہوتا ہے اور کوتاہیوں کو دور کرنے میں ایسا راستہ اور طریقہ اختیار کرنا بے حد ضروری ہے جس سے بچے کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔استاد کی جانب سے بچے کی تحقیر و تذلیل بچے کے خراب برتاؤ اور اکتسابی گراوٹ پر قابو پانے کے بجائے اس کو مزید ابتر کر دے گی۔بچوں کواغلاط پر ڈٹے رہنے کے بجائے اغلاط سدھارنے کی تلقین کریں اور ان کے ذہنوں میں یہ بات محفوظ کردیں کہ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے اور اپنی غلطی کی اصلاح بھی ہمیں خو د ہی کرنی ہوتی ہے ۔اغلاط کی اصلاح میں استاد کا شفیق رویہ اور رہنمائی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
(4) طلبہ کو جب بھی ان کی مدد اور رہنمائی کی ضرورت درپیش ہواستاد اپنی خدمات کو پیش کرنے میں تامل سے کام نہ لیں۔دلجوئی ،تحریک و ترغیب کے ذریعے طلبہ میں خود اعتمادی کو پروان چڑھائے۔بچوں کی شخصیت اور کردار سازی میں کوتاہی سے کام نہ لیں۔ بلند نظر ی اور اعلی اقدار اپنے طلبہ میں پروان چڑھائے۔خو د کا احترام و عزت نفس کا خاص خیال رکھنے کے ساتھ دوسروں سے بھی عزت و احترام سے پیش آنے کے جذبے کو فروغ دے۔
(5) دل آزاری اور بچوں کے حوصلوں کو پست کرنے والے فقروں اور جملوں سے اساتذہ کلی طور پر اجتناب کریں۔دل آزار اور تحقیر آمیز کلمات و فقروں سے طلبہ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کی عزت نفس پر کاری ضرب پڑتی ہے۔حوصلے پست کرنے والے فقروں اور جملوں سے بچوں کی خود اعتمادی مجروح ہونے کے ساتھ ان میں بدتمیزی اور جارحانہ پن فروغ پانے لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ استا دسے بدتمیزی کرنے پر اتر آتے ہیں۔
(6) اساتذہ بچوں کے خیالات ،جذبات، احساسات پر خاص توجہ دیں ان کے خیالات کو بغور سماعت کریں اور ان کو تاثر دیں کہ وہ ان کی قدر کرتے ہیں ۔ ان سے بے حد پیار کرتے ہیں اور بہر حال ان کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔
(7)بچے تو کجا بڑے بھی اپنے نام سے بہت محبت کرتے ہیں۔ بچوں کو جب ان کا نام لے کر مخاطب کیا جاتا ہے تو بہت خوشی اور مسرت محسوس کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ ان کے نام سے پہچانے جائیں۔استاد جب ان کو نام لے کر مخاطب کرتا ہے وہ اپنے آپ کو خاص محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اساتذہ بچوں کو ان کے نام سے پکارئیں ۔برے نام اور القاب سے(جیسے گدھا، بے وقوف ،جاہل ،نااہل،کاہل ،گورا ،کالا، گڈا ،نکٹا وغیرہ) بچوں کو مخاطب نہ کریں۔
(8)کمرۂ جماعت میں منعقد کی جانے والی سرگرمیوں میں تمام طلبہ کو یکساں مواقع فراہم کریں۔طلبہ اور استاد کے درمیان ہونے والی گفتگو استاد اور شاگرد کے رشتہ و تعلق کو مضبوط بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔صحت مند گفتگو کو رواج دیں۔
(9)طلبہ کوذمہ داریاں تفویض کرتے ہوئے احساس دلائیں کہ آپ ان کی بہت زیادہ قدرکرتے ہیں اور وہ آپ کے لئے بہت اہم ہیں۔
(10)طلبہ سے انفرادی طور پر گفتگو شنید کے ذریعے اساتذہ ان کے شوق ،ذوق، دلچسپی، مشاغل اور زندگی کے مقاصد سے آگہی حاصل کر سکتے ہیں۔ طلبہ کی دلچسپیوں، شوق،ذوق ،مقاصد زندگی اور مشغلوں سے واقف ہوکر اساتذہ ان کو بہتر طور پر منزل کی جانب ترغیب و تحریک پیدا کرتے ہوئے گامزن کر سکتے ہیں۔استاد اور شاگر د کے رشتے کی مضبوطی کا انحصار ان کی بات چیت پر بھی منحصر ہوتا ہے اسی لئے اساتذہ طلبہ سے انفرادی طور پر گفت و شنید کو رواج دیں۔
(11)حد و ادب کے درجے میں کیا جانے والا مذاق استاد ،شاگرد میں پائی جانے والی اجنبیت کو دور کرنے کے ساتھ ان کو ایک دوسرے سے بہت قریب لے آتا ہے۔ہلکے پھلکے مہذب مذاق سے طلبہ خود کو دباؤ سے آزاد محسوس کرتے ہیں اور سوال کے جواب دینے میں آسانی اورسکون محسوس کرتے ہیں۔اساتذہ غیر ضروری سنجیدگی سے گریز کریں۔ اپنے چہرے پر سنجیدہ مسکراہٹ سجائے رکھیں تاکہ طلبہ استاد سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اس سے مانوس ہوجائے۔
اساتذہ بچوں سے پیار شفقت ،غمخواری اور دلجوئی سے کام لیتے ہوئے خاص طور پر جذباتی ہیجان،دباؤ ،تناؤ ،عدم مطابقت کے مسائل اور اکتسابی مشکلات کے وقت استاد کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی بچوں کے زخموں پر مرہم کا کام کرتی ہے ۔ ایسے وقتوں میں استاد ان کے رہنما و رہبر کیعلاوہ ان کے غم گسار اور مددگار بھی بن جائیں۔پریشانی اور تکلیف کی ان گھڑیوں میں استاد کی دلجوئی استاد شاگرد کے رشتے کو دوام بخش دیتی ہے۔ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شاگرد استاد کی قدر و منزلت کرنے لگتا ہے ۔ایک معلم،رہنما ،رہبر کے علاوہ استاد کو اپنا رازداں، غم گسار اور مونس ،محب اور دوست سمجھنے لگتا ہے ۔استاد کا شفیق ،محبت آمیز اور ہمدرد انہ طرزعمل اور شاگر د کااحترام و عظمت پر مبنی برتاؤ استاد اور شاگرد کے رشتے کو مستحکم، مضبوط اور اٹوٹ بنادیتا ہے۔
اہم بلاگز
یومِ خواتین
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔