حیا ایمان کا حصہ ہے

تحریر: مشعل اسلام
فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف
اللہ رب رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر فطری خوبیوں سے مزین کیا۔ ان خوبیوں میں سے ایک خوبصوت خوبی حیا ہے۔ جتنے انبیاء کرام مبعوث کیے گئے ان تمام میں کچھ صفات یکساں تھیں ۔ان میں سے ایک حیا بھی ہے جس کی تعلیم تمام انبیا کرام علیھم السلام نے دی۔آج ہم جس روشن خیال دور سے گزر رہے ہیں اس میں بے حیائی جیسی قبیح عادت جسے اب عیب نہیں سمجھا رہا بلکہ باقاعدہ بے حیائی کی تعلیم دی جارہی ہے ۔کیا نوجوان ،کیا بوڑھے ،کیا بچے سب ہی بے حیائی و فحاشی کی بارش میں بصد شوق غسل بے حیائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مسلم معاشرہ ہو یا ایک عام معاشرہ اس کا اصل حسن باحیا نوجوانوں سے ہی ہے ۔
مگر افسوس کل جو امراض باطنہ بے حیائی و فحاشی و عریانی عادات بدغیر مسلم و کفار کاخاصہ تھیںآج طوفان بن کرٹی وی، سوشل میڈیا انٹرنیٹ کی شکل میں مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ مسلم نوجوان اپنی اصل بھول چکا ہے۔ یہ تو وہ قوم ہے جس کے نوجوان ذکر و تلاوت سے اپنی زبان تر رکھتے تھے۔ جن کی جبینیں سجدوں کے نشانوں سے چمکتی تھیں۔ جو قیام اللیل کے شوق اور علم کے ذوق و عمل کے شیدائی تھے۔ جوچھوٹی سی عمر میں محمد بن قاسم بن جاتے تھے اور فاتح بن کر لوٹتے تھے مگر آج بے حیائی کے زہر نے ان کے دلوں سے نور ایمانی چاٹ لیا ہے۔ ان کی جبینیں سجدوں سے کی نعمت سے عاری تو روح حلاوت ایمانی سے محروم ہے۔ ان کے چہرے عبادت کے نورکی نورانی چمک اور معرفت کے نور کی دمک سے محروم ہیں۔
ہنسی آتی ہے جب محمد بن قاسم اور سلطان صلاح الدین جیسے فاتح یا عمر بن عبدالعزیز ایسے حکمران کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ہم نے اپنی نسلوں کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اپنی اولاد کو وہ ماحول دیا نہ ان کو ان کی اصل سے جوڑا، ہم نے ان کو اسکول و کالج و یونیورسٹی کے حوالے کردیا۔ ہم ان کی تربیت سے یکسر غافل ہوگئے۔ہم نے موبائل کی صورت ان کی گود میں بے حیائی کا ڈبہ تھمادیا۔ ہم نے بچپن سے ان کے دل میں کتے بلے کا ڈر تو ڈال دیا مگر موبائل، ٹی وی، سوشل میڈیا کی تباہ کاریاں، موسیقی کے زہریلے اثرات ،بد نظری کے تباہ کن اثرات کی سمجھ بوجھ نہ دی۔
الا قلیل مگر تھوڑے ہیں وہ والدین جو اس فتنہء بے حیائی و بدنظری کو غارت گر ایمان سمجھتے اور اس کا سد باب کرنا جانتے بھی ہیں۔تو اس سے اپنی اولاد کو بچانے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔آج پوری دنیا میں امت مسلمہ پٹ رہی ہے۔ وہ مار کھاتی ہے اپنی بہن بیٹیوں کی عزتیں نیلام ہوتے دیکھتی ہے۔ اپنے بچے کٹتے دیکھتی ہے مگر کیا سبب ہے کہ وہ بے جان ہے وہ زندہ لاش کیوں ہے ؟باوجود اکثریت کے اس میں دم نہیں کہ دشمن کے پر کاٹ سکے ،روئے زمین پر اس وقت مسلمان وہ واحد قوم ہے امہ ہے جس کا خون سستا اور ہر کافرکے واسطے بہانا آسان ہے۔
کبھی ہم نے سوچایہ کیوں؟اس کی وجہ کیا ہے؟ معزز قارئین! اس کی جہاں بہت سی وجوہات ہیں وہاں ایک یہ بھی وجہ ہے کہ امت کی بہن بیٹیاں و نوجوان کفار کی جانب سے پھینکے گئے بے حیائی کے جال میں پوری طرح پھنس چکے ہیں۔ امت کا ایمان کمزور ہوچکا، باطل اپنے ظاہری اسباب پہ اچھلے گا اور اسی کے بل بوتے پہ میدان میں اترتا ہے جبکہ مسلم امہ تب کامیاب ہوتی ہے جب وہ قوت ایمانی سے مالا مال ہوتی ہے ۔پھر وہ اللہ ان کا ناصر ہوتا ہے جس کے نام پہ یہ میدان میں کود پڑتے ہیں اوربالآخر فتح و نصرت ان کا مقدر بنتی ہے ۔
خدارا! اپنے اندر حیا کی صفت کو پیدا کریں۔نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کو ذہن نشین کرلیں، ’’حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم سب سے پہلے اپنی آنکھوں کان اور دل کی حفاظت کریں۔بد گوئی و بدنظری و فحش پروگرامز سے دور رہیں۔نیکی کو اپنا شعار بنائیں ہمیشہ خیالات کو پاک رکھیں۔ فساد قلب سے بھی بچیں۔ جب ایسا ہوگا تب ہی ہمارے نیک اعمال میں وزن ہوگا اور ایمان طاقتور ہوگا جب ایمان طاقتور ہوگا تو پھر اقبالؒ نے جس خودی کا پیغام دیا اس کی حیات نو کے آثار پیدا ہوجائیں گے جس کے بعد ہی تبدیلی آئے گی ۔
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
ناچیز جہانِ مہ و پرویں ترے آگے
وہ عالم مجبور ہے، تو عالم آزاد

حصہ

جواب چھوڑ دیں